دستار پہ بات آگئی

غریب ’’مجرم ‘‘کواوربھی سزائیں بھگتنا پڑتی ہیں اوربھگتناپڑرہی ہیں اورمجرم بھی کوئی ایسا ویسامجرم نہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq March 16, 2022
[email protected]

HYDERABAD: پوراشعریوں ہے:

مشکل ہے کہ اب شہرمیں نکلے کوئی گھرسے
''دستار''پہ بات آگئی، ہوتی ہوئی شہر سے

کچھ ایسا ویسا مت سوچئے، ہمارااشارہ دھماکوں کی طرف ہے نہ پولیس کی طرف، جیب کتروںسے بھی آپ کوہوشیارنہیں کررہے ہیں کہ وہ شریف لوگ جنھیں اردو اور پنجابی میں جیب کترے یاجیب تراش، پشتومیں گن کپ اورفارسی میں کیسہ برد کہتے ہیں، اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں، جب جیب میں کچھ رہا ہی نہیں تولاچار کیاکریں۔ سناہے سب نے سیاست جوائن کرلی ہے ، سماجی کارکن بن گئے ہیں ، وقف اور ٹرسٹ بنا لیے ہیںیااین جی اوزمیں چلے گئے ہیں۔

ہم جس خطرے کی بات کررہے ہیں، وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جوگھرکے لیے ''کچھ لانے ''یعنی سوداسلف خریدنے نکلتے ہیں، ایسے لوگوں کے تحفظ سے حکومت نے بھی ہاتھ اٹھا لیے،چنانچہ جو اس خطرناک بلکہ ''جان لیوا'' ارادے کے ساتھ گھر سے باہر نکلتے ہیں وہ یاتو چارپائی پر واپس گھرلائے جاتے ہیں یا ڈنڈا ڈولی کرکے، یا پھر گریبان پھاڑ کر، بال بگاڑ کر، صورت اجاڑکر صحراؤں کی طرف نکلتے دیکھے گئے ہیں،یہ کہتے ہوئے کہ

قیس جنگل میں اکیلاہے مجھے جانے دو
خوب گزر ے گی جومل بیٹھیں گے دیوانے دو

ایک لیلیٰ لیلیٰ پکارتے ہوئے اور دوسرا مہنگائی مہنگائی الاپتے ہوئے۔

آعندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
توہائے گل پکار، پکاروں میں ہائے دل

ایک تیسری صورت بھی ہوسکتی ہے لیکن اسے بیان کرنے کے لیے ہمیں ایک آپ بیتی، پلس جگ بیتی، پلس سب بیتی کا سہارا لینا پڑے گا۔

لیجیے سنیے افسانہ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

ہوا یوں کہ اچانک ہمارے گھرکے سارے چھوٹوں بڑوں کے گلے خراب ہوگئے، جسے دیکھو کھانس رہا ہے، ہانپ رہاہے، کانپ رہا ہے، پہلے تو گھریلو ٹوٹکے آزمائے، پھر ان ڈاکٹرصاحبان سے رجوع کیا جو حکومت کی مہربانی،محکمہ صحت کی برکت اور دواؤں کی فراوانی سے محلے محلے ،گلی گلی سرنجیں، سوئیاں اور گلوکوز لیے موجود ہیں، ان کاکام یہ ہے کہ ''جسموں'' کے کھیت میں ہل چلاکر بیماریاں بذریعہ علاج کاشت کردیتے ہیں اورپھریہ کھیت جب بیماریوں سے لہلہااٹھتے ہیں توبرداشت کے لیے شہر میں ڈگریوں والی ''فٹ بال ٹیم'' کے پاس چلے جاتے ہیں جو ان کو ''ریفر'' کی کک بازی سے ایک دوسرے کے کورٹ میں پہنچانے لگتے ہیں۔

لیکن ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں بس اچانک ہی بیماری کی اصل جڑکاپتہ چل گیا،اس پردہ زنگاری میں کوئی اورنہیں بلکہ وہی کافرصنم نکلایا نکلی کیوں کہ لوگ اسے مونث یامہنگائی کہتے ہیں حالانکہ فتوحات میں وہ کئی مردوں بلکہ سارے مردوں پر''بھاری'' پڑچکی ہے۔بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم ''تبدیلی'' کاشکار ہوئے تھے،اس مرتبہ جب ''گھی'' خریدنے گئے تو دکاندار نے ہمارے برانڈ والے کوکنگ آئل کے بارے میں بتایاکہ اب اکثردکاندار وہ والاکوکنگ آئل نہیں رکھتے کہ کوئی خریدتا نہیں بلکہ خریدسکتاہی نہیں، ہم نے اس برانڈ کی قیمت سنی تو آٹھ ہزار فی کنستر(سولہ کلو)تھی، اس لیے دکاندار کے پاس موجود چالوبرانڈ کاگھی لے آئے جسے عوامی زبان میں ''ریفائین''کہتے ہیں اوراب بھگت رہے ہیں ''گھی'' کی بچت نے سارے گھر کو ''گلے''سے پکڑا ہواہے، کوئی ادھر کھانس رہاہے ،کوئی ادھر کھنکاررہاہے اورابھی تو بات صرف ''گلے'' تک پہنچی ہے، آگے پیٹ کے اندرکیاکیا ہوتا ہے معلوم نہیں۔گویامہنگائی کی یہ ایک اوربرکت شامل حال ہوگئی ہے، پشتو میں ایک کہاوت ہے۔

گران بے قیمتہ نہ دی
ارزان بے علتہ نہ دی

یعنی مہنگا بے قیمت نہیں ہوتا اورسستا بے علت نہیں ہوتا۔

یہ جس گھی کاہم نے ذکر کیاہے، یہ وہ گھی ہوتاہے جو بڑی بڑی کمپنیاں ایک دو مرتبہ استعمال کرچکی ہوتی ہیں، چپس یااس کی دوسری پراڈکٹس میں۔چوں کہ ان کاتوایک بین الاقوامی معیار اورطریقہ کارہوتا ہے، اس لیے استعمال شدہ گھی یاتیل سیکنڈ ہینڈ کرکے آگے دوسری کمپینوں کو سستابیچ دیاجاتاہے جسے حاجی الحاج صاحبان ،عمرائی صاحبان ،نمازی صاحبان اورتسبیح وریش درازلوگ خرید کرمختلف طریقوں ، ذریعوں اورکیمکلزسے صاف کرکے ''گھی'' بنالیتے ہیںاوراپنا کوئی لوکل برانڈ نام لگا کرخلق خداکو فروخت کردیتے ہیں۔

جو خدامارے اسے کھاتے ہیں وہ تو خدامارے ہوتے ہیں، جو بیچارے روکھی سوکھی کھانے پینے کی فحاشی کرتے ہیں، دن رات محنت مزدوری کے لہو و لعب میں گرفتار رہتے ہیں، محنت کی انتہائی ''حرام'' روٹی کھاتے ہیں لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی، کہاوت ہے کہ بھوراکتاگیدڑکا،چورگرہ کٹ کا اور رہنما، رہزن کا بھائی ہوتا ہے چنانچہ آگے پھر ڈاکٹروں، دواسازوں، اتائیوں اورکلینکوں کی ایک اوردنیا ان کواپنی مارکیٹ کاآئٹم بنالیتی ہے۔

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریاکے پار اترا تو میں نے دیکھا

گویا غریب ''مجرم ''کواوربھی سزائیں بھگتنا پڑتی ہیں اوربھگتناپڑرہی ہیں اورمجرم بھی کوئی ایسا ویسامجرم نہیں،پاکستان میں زندگی کرنے کا مجرم۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔