خوف کو شکست دیں
ایمرسن کا کہنا ہے جو آدمی ارادہ کر سکتا ہے اس کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہے ارادہ ایک ایسا نفسیاتی عمل ہے۔۔۔
بسمارک نے کہا ہے بڑے بڑے مسئلے تقریروں اور ووٹوں کی طاقت سے طے نہیں ہوتے بلکہ جنگ و جدل سے طے ہوتے ہیں ۔ امریکی مورخین اوردانشوروں کی آراء سے مرتب کردہ فہرست میں مسلسل پانچویں مرتبہ الیانور روزویلٹ کو امریکا کی بہترین خاتون اول قرار دیاگیا ہے۔ رائے شماری میں مسز روز ویلٹ کو ان کے پس منظر ملک کے لیے ان کی اہمیت اور حوصلے کو سراہا گیا۔ الیانور روزویلٹ1933 سے 1945 تک امریکا کے صدر رہنے والے روز ویلٹ کی اہلیہ تھیں ۔یہ 1910 کا ذکر ہے نیویارک اسٹیٹ میں ڈیمو کریٹک پارٹی عجیب مضحکہ خیز صورتحال کا شکارتھی۔ البانی میں سینیٹ کے الیکشن سر پرتھے لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے کوئی امیدوارکھڑے ہونے کو تیار نہ تھا۔ وجہ یہ تھی کہ پچھلے 28سال سے اس پارٹی کے کسی ممبر نے یہ سیٹ نہیں جیتی تھی یہی وجہ تھی کہ اب کوئی مقابلے میں حصہ لینے کو تیار نہ تھا لیکن پارٹی کوکسی نہ کسی سے درخواست کرنی تھی کہ وہ اس سیٹ کے لیے میدان میں اترے انہیں کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جس سے مدد مانگے ، کوئی ایسا نوجوان جو شکست کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔کسی نے فرینکلن روز ویلٹ کا نام تجویز کیا وہ ایک امیر اور باعزت گھرانے کا نوجوان تھا ۔
قانون دان کی کسی فرم میں جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے کام کررہا تھا وہ آپس میں فیصلہ کرکے اس کے پاس پہنچ گئے روز ویلٹ نے سوچنے کے لیے 24گھنٹے کی مہلت مانگی اور اس دوران اس نے فیصلہ کیا کہ اسے اس مہم میں حصہ لینا چاہیے کیونکہ ایک قانون دان کے لیے یہ تجربہ سود مند ثابت ہوگا۔ اس نے اس الیکشن کے لیے سخت محنت کی اور 8 نومبر1910 کے دن نیویارک اسٹیٹ کا ممبر منتخب ہوکر سب کو حیران کر دیا ۔یوں اس کے سیاسی سفر کا آغاز ہوگیا لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ سفر اسے کس منزل پرلے جائے گا۔ 22سال بعد جب وہ امریکا کا صدر منتخب ہوا تو اسے بڑی مشکل صورتحال کا سامنا تھا وہ پریشان تھا لیکن اس نے ہمت اور پرامیدی سے کام لیا الیکشن اور عہدہ سنبھالنے کے درمیان کے 4 ماہ میں صورتحال اور بھی پریشان کن ہوگئی۔ مارچ 1933 کو جس دن انھوں نے عہدہ سنبھالا ایک بڑا بحران سامنے تھا ملکی بینکوں پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا تھا وہ ان سے اپنے پیسے واپس مانگ رہے تھے ان کا کہنا تھاکہ وہ انہیں کسی مرتبان کسی چمنی میں گدے یا تکیے کے نیچے رکھ لیں گے۔ عجیب مایوسی کا دور تھا ایک ایسا بھنور جس سے باہر نکلنا آسان نہ تھا۔ روز ویلٹ نے ان حالات میں ایک لاکھ لوگوں کی موجودگی میں بائبل پر ہاتھ رکھ کر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ امریکا کے کروڑوں لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ریڈیو کے ذریعے تقریب کا احوال سن رہے تھے وہ سوچ رہے تھے کہ عوام نے جس پر اعتبار کیا ہے آیا وہ اس پر پورا اترے گا یا نہیں ۔ حلف ختم ہونے کے بعد روز ویلٹ نے خدا سے مدد مانگی اور اپنی تعارفی تقریر کا آغاز کیا تقریر بہت متاثر کن تھی درمیان میں کئی بار انہیں تالیوں کے شور کی وجہ سے رکنا پڑا۔
امریکا کے لوگوں نے جان لیا کہ اب وہ انسان آگیاہے جو ان کے مسائل حل کر دے گا۔ روز ویلٹ نے اپنی تقریر ختم کرتے ہوئے کہا '' جس چیزسے ہم خوفزدہ ہیں وہ دراصل خوف ہے ۔'' ان الفاظ سے امریکیوں کے دلوں میں نیا جذبہ پیدا ہوا اور خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی کئی ذہن ایسے بھی تھے جو شکوک و شبہات کا شکار تھے، ملک کی حالت بڑی ابتر تھی فارم اورکاروبار دیوالیہ ہوچکے تھے بیروزگاروں کی تعداد لاکھوں میں ہوچکی تھی۔ گلیوں میں فاقہ زدہ لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں وہ لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب تھے کہ یہ خوشیاں منانے کا کون سا وقت ہے ۔ لیکن یہ واقعی خوشیاں منانے کا وقت تھا تقریب کے ختم ہوتے ہی روز ویلٹ نے اپنا کام شروع کر دیا تمام ملک کے بینکروں اور 48 ریاستوں کے گورنروں کو واشنگٹن بلوایا گیا۔ روز ویلٹ کو یقین تھا کہ 1917 کا Trading with the enemy Act کے ذریعے ملک میں موجود پیسے پر ایمرجنسی قوت اب بھی حاصل کی جاسکتی ہے انھوں نے فوراً اس قانون کو لاگو کردیا اور انتظار کرتی ہوئی دنیا کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا۔ 6مارچ سے تمام بینکوں نے اپنے کھاتے داروں کو سیف ڈپازٹ باکس سے اپنے پیسے نکلوانے کی اجازت دے دی تاکہ ملک میں پیسہ رول ہوسکے Federal Expenditureسے پانچ سو ملین ڈالر کاٹ لیے گئے چند ہفتوں کے اندر اندر Industry Recovery Act کے ذریعے تین سو ملین ڈالر پبلک ورک پروگرام پر لگا دیے گئے اور سات ملین ورکروں کو روز گار مہیا کیاگیا۔انتہائی سخت اقدام اٹھائے گئے جن کا اطلاق گھروں ، رہن زدہ املاک ، زراعت ، ریلوے ، کرنسی اور جنگلات پر کیاگیاتخفیف اسلحہ اور شراب نوشی کی ممانعت جیسے اقدامات اٹھائے گئے ۔
12 اپریل 1945 کو صدر روز ویلٹ کے دماغ کی شریان پھٹ جانے کی وجہ سے انتقال ہوگیا لیکن ان کا کام مکمل ہو چکا تھا۔ انھوں نے ملک کا انتظام اس وقت سنبھالا جب وہ ایک تاریک دور سے گذر رہا تھا۔ صدر روز ویلٹ نے امریکا کو خوشحالی عطا کی عزت نفس سے نوازا عسکری فتح سے ہمکنار کیا۔ لندن میں صدر فرینکلن روز ویلٹ کا مجسمہ ایستادہ کیاگیا ہے وہ آج بھی وہیں کھڑے ہیں دو چھڑیوں پر جھکے ہوئے جس کے ذریعے چلنے کا طریقہ انھوں نے سیکھ لیا تھا ۔ اور امریکی قوم کو سکھا بھی دیا تھا ۔ آج امریکا دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اس کے عوام خوشحال ، آزاد اور خوش ہیں امریکا کے عوام نے بدحالی سے خوشحالی کی جانب اپنے سفر کا آغاز اسی روز کر دیا تھا جب انھوں نے اپنے خوف پر قابو پا لیا تھا جو قومیں خوف کو شکست دے دیتی ہیں وہ ہی خو شحالی ،امن اورترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں۔ پاکستان کے عوام بہادر ہیں اس لیے آج وہ وقت آگیا کہ ہم بھی اپنے خوف کو شکست دے دیں ۔ جو شخص یقین رکھتاہے اس کے لیے ہر چیز ممکن ہے جیسا روزویلٹ کو یقین تھا لہذا اس نے خوف کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیااور کامیاب ہوگیاکیونکہ بزدلی ، ڈر،خوف کا نتیجہ ہمیشہ اجتماعی خودکشی کی شکل میں نکلتاہے اگر انسان غور کرے تو دنیاکی ہر چیزسے عمل و ہمت کا نعرہ سنائی دیتا ہے۔ اگر خود آپ اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو کوئی اور چیز آپ کے ارادے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی ۔ہم بھی دہشت گردی ، بدامنی ، افلاس ، غربت کے خلاف جنگ کیے بغیر کامیابی اور خوشحالی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے ۔
ایمرسن کا کہنا ہے جو آدمی ارادہ کر سکتا ہے اس کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہے ارادہ ایک ایسا نفسیاتی عمل ہے جو عمل کو تحریک دیتا ہے اور اسے ساتھ لے کر بڑھتا ہے۔ انگریزی کہاوت ہے جب ارادہ بن جائے تو راستہ مل جاتا ہے ارادہ انسان کا جوہر ہے اسی لیے زندگی کی تمام اشکال اور زندگی کا جوہر بھی ارادہ ہے۔ ارادہ اصل زندہ رہنے کا ارادہ ہے جس کی دشمن صرف موت ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ارادہ موت کو بھی شکست دے دے ۔افلاطون کہتاہے کسی شخص پر اس سے بڑی اور کوئی مصیبت نازل نہیں ہوسکتی کہ وہ عقل وخرد کی مخالفت کرنے لگے ۔عقل و خرد کی بات یہ ہے کہ ایک منٹ ضایع کیے بغیر پاکستان کو لاحق تمام عفریت کے خلاف جنگ کاآغاز کر دینا چاہیے۔ظلم ، بے انصافی ، فسطائیت ، منافرت،تنگ نظری اور منافقت کا ہر مظہر کچل دیا جائے۔انسان انسان سے پیار کرنے کا عادی ہو جائے۔