امریکا اور مغرب کو عمران خان قبول نہیں
ہم کیا بیرونی ایجنسیوں کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کو مبینہ طور پر ہٹانے کی کہانی دیکھ رہے ہیں؟
کراچی:
ہمارے ہاں ہر نئی آنے والی حکومت کے آغاز کے ایک دو سال اچھے گزرتے ہیں، مگر پھر بعد میں وہی مارا ماری،آپا دھاپی کا ماحول بن جاتا ہے۔ ایک بار پھر پاکستان کا سیاسی ماحول شدید محاذآرائی کا شکار ہے اور ایسا وقت ہے جس میں سازشی اور افسانوی گفتگو پنپ رہی ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر نئی سیاسی کہانیاں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ ایک طرف ماحول الیکشن کا لگ رہا ہے اور دوسری طرف دنگا فساد کا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے ۔ جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد پر ووٹ ڈالے جائیں گے، تب نتیجہ بھی سامنے آ جائے گا ۔ فی الحال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سے متعلق کچھ اہم پیش رفت ہے جو جلد ہی منظر عام پر آئے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی ایسی صورتحال بنتی ہے،بیسیوں افسانے گھڑے جاتے ہیں، جیسے موجودہ دور کے لیے کہا جا رہا ہے کہ اب مجھے کیوں نکلا کہنے کی باری عمران خان کی ہے ، کوئی کہہ رہا ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں عمران خان کے بارے میں بالکل اُسی طرح فیصلہ کر چکی ہیں جس طرح نوازشریف کے بارے میں فیصلہ کر لیا گیا تھا، کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ عمران خان کو ہٹانے کی بین الاقوامی سازش ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ اس کھیل کی ڈوریاں دور بیٹھے سابق وزیر اعظم نواز شریف ہلا رہے ہیں۔
الغرض پاکستانی سیاست میں کہانیاں سنانے کی روایت سے اہم افسانہ سازی ہے۔ تو ہم کیا بیرونی ایجنسیوں کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کو مبینہ طور پر ہٹانے کی کہانی دیکھ رہے ہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی ٹیم اور حامی کچھ حقائق کو استعمال کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کی مہم ایک غیر ملکی سازش کا نتیجہ ہے۔
یہ بات درست ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی نے بین الاقومی سطح پر اہمیت اختیار کی ہے اور وزیر اعظم نے چند سخت فیصلے کیے ہیں۔ کچھ اور بھی خارجی اور سیکیورٹی پالیسی سے جڑے معاملات ہیں جن سے مل کر ایک ایسی داستان گوئی کی جا سکتی ہے جو ایک سازش نما حالات کی عکاسی کر سکتی ہے۔
یہ داستان آج شروع نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ اُس وقت کی ہے جب 2019 میں وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں تقریر کی تھی۔ اس مذکورہ تقریر کے بعد عالمی دنیا کو یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان کا موجودہ وزیراعظم مختلف آدمی ہے، کیوں کہ انھیں ایسا لیڈر پسند ہوتا ہے جو مغربی کلچر کی بات کرتا ہو، جو شاید اُن کے ایجنڈے کی بات کرتا، جو شاید امریکی ایماء پر دوسرے ملکوں میں حملے کر دیتا ہو، جو شاید مغربی پالیسیوں کی تقلید کرتا ہو، جو شاید چین و روس کی مذمت کرتا، جو شاید ایران کی مخالفت کر دیتا، جو شاید افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا، جو شاید بھارت کے ساتھ ہر قیمت پر تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتا، لیکن اس کے برعکس عمران خان نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات کی، فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کی بات کی،مسلمانوں کے حقوق کی بات کی۔
پاکستان کو پیرس بنانے کی بات نہیںکی بلکہ پاکستان کو ریاست مدینہ میں بدلنے کی باتیں کیں۔ لہٰذا ان باتوں کو مغرب بالخصوص امریکا کیسے برداشت کر سکتا تھا؟ اور پھر یہ بات سچ ہے کہ آج تک جس نے بھی ایسی باتیں کی ہیں، کیا اس کا اقتدار بچ سکا ہے؟ آپ یاسرعرفات کو دیکھ لیں، ایران کے احمدی نژاد کو دیکھ لیں، مصر کے محمد مرسی کو دیکھ لیں، پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھ لیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وطن کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے، جو اپنے فیصلے خود کرناچاہتے تھے، جو امریکی ایماء پر نہیں چلنا چاہتے تھے۔ لیکن سب کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
امریکی انتظامیہ کی ایک عادت ہے کہ وہ صرف امریکا کے مفادات کو دیکھتی ہے جہاں اس کے مفادات کو ٹھیس پہنچے وہاں جارحیت سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے۔ عراق،شام،ایران اور افغانستان کی جنگیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں، امریکا کی انتظامیہ وہ دوست ہے جس کا شکار سب سے پہلے اس کے دوست ہی بنتے ہیں ، بہترین مثال پاکستان اور یوکرین ہی لے لیں۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانیں گنوائی ہیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان کیا ہے لیکن امریکا نے ہمیشہ ڈومور کا راگ الاپا ہے، اسی طرح یوکرین جو تقریباً نیٹو رکن بن چکا تھا اور امریکا کی شہہ پر سینہ چوڑا کرکے اپنے سے کئی گنا بڑے اور دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور روس کو للکارنے لگا ،جب روس نے اس پر جنگ مسلط کی تو آج یوکرین کی حالت ساری دنیا کے سامنے ہے۔
نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دورہ روس شیڈول تھا، اس کو رکوانے کے لیے امریکا اور یورپی یونین نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ دورہ کینسل کردیا جائے لیکن عمران خان ڈٹ گئے اور شیڈول دورہ کینسل کرنے سے انکار کردیا۔یہاں عمران خان کے لیے اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ بقول شاعر
محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا
بہرکیف غیرملکی میڈیا تسلیم کررہا ہے کہ یہ شخص آزاد ہے اور اپنے ملک کی آزاد خارجہ پالیسی بنانا چاہتا ہے اور یورپی یونین نے بھی تسلیم کیا کہ ہم نے جو مراسلہ بھیجا تھا وہ عالمی و سفارتی آداب کے خلاف تھا۔اصل میں ہمارا سابقہ ٹریک مغرب کی ہر بات پہ لیٹنے والا ہے اور انھیں بھی پتہ ہے کہ انھیں بیٹھنے کا کہا جائے تو یہ لیٹ جاتے ہیں۔
کوئی بھی یہ بتانے کو تیار نہیں ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری نے پاکستان کے لیے ایسا کیا کام کیا ہے کہ انھیں دوبارہ سہ بارہ حکومت دی جائے۔ اُن کے کریڈٹ پر کون سے کارنامے ہیں، سندھ حکومت کے کارنامے سب کے سامنے ہیں، نوازشریف کے دور کے قرضے بھی سب کے سامنے ہیں، جب سب کچھ گروی رکھوا دیا گیا تھا۔
پھر مولانا فضل الرحمن نے بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی دو دہائیاں گزار دیں مگر کارکردگی صفربٹا صفر۔ جب کہ دیگر قائدین کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ لہٰذایہ بات ہمیں ماننا پڑے گی کہ امریکا اور مغربی ممالک کی حکومتیں بھی عمران خان کی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ میری نظر میں عمران خان حکومت کو ملکی اپوزیشن سے زیادہ امریکا اور مغرب سے زیادہ مسئلہ ہے۔ انھیں حقائق سے باخبر رہنا چاہیے۔ چاہے کچھ ہو جائے، انھیں آزاد خارجہ پالیسی پر ڈٹے رہنا چاہیے،اسی میں ہم سب کی بقاء ہے!