کیا عالمی طاقتوں کی بالادستی سے نجات ممکن ہے

عالمی طاقتوں کے افکار اور اعمال کا محورومرکز اصول یا نظریہ نہیں بلکہ ان کے اپنے قومی مفادات ہوتے ہیں


جبار قریشی March 18, 2022
[email protected]

کراچی: جنرل یحییٰ خان کا دور حکومت تھا۔ مشرقی پاکستان کا بحران پیدا ہوا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ اس بحران میں عالمی طاقتیں ملوث ہیں۔ اس زمانے میں یحییٰ خان نے روسی وزیر اعظم کو ایک نسبتاً غیر محتاط خط لکھا تو روسی وزیر اعظم نے جواب دیا کہ '' اس طرح کی جرأت کا مظاہرہ کرنے کے لیے تمہیں ایک سپر پاور کا حکمران ہونا چاہیے، سپر پاور بدمعاشی کرسکتی ہے اور اس کے منفی ردعمل سے خود کو محفوظ بھی رکھ سکتی ہے۔ پاکستان جیسا کمزور ملک اس قسم کے رویے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔''

مجھے نہیں معلوم کہ یہ واقعہ حقیقت پر مبنی ہے یا محض ایک افسانہ۔ تاہم اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی طاقتوں کو دنیا کے سیاسی نظام میں بالادستی حاصل رہی ہے۔ عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جس کی روشنی میں یہ مختلف ممالک سے کبھی دوستی ، کبھی بیگانگی اور کبھی دشمنی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عالمی طاقتوں کی بالادستی سے نجات ممکن ہے؟

دنیا کے سیاسی مفکرین کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مختلف ملکوں کو باہمی تعلقات کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب لایا جائے تاکہ دنیا میں امن قائم ہو اور دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے ، لیکن دنیا میں مختلف ملکوں کے باہمی اختلافات ، ان کے مابین تنازعات ، مفادات کا ٹکراؤ ، توسیع پسندانہ عزائم، نظریاتی کشمکش اور اس طرح کے دوسرے عوامل جنگوں کا باعث بنتے رہے ہیں۔

ماضی میں قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد دنیا نظریاتی اعتبار سے دو بلاک میں تقسیم تھی ایک اشتراکی بلاک تھا اور دوسرا سرمایہ داری بلاک تھا۔ اشتراکی بلاک کا سربراہ روس اور سرمایہ داری بلاک کا قائد امریکا تھا۔ یہ دونوں بلاک نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد تھے۔

امریکا کی سرپرستی میں نیٹو، سیٹو اور سینٹو جیسی بین الاقوامی علاقائی تنظیمیں وجود میں آئیں ، دوسری طرف روس کی سربراہی میں وارسا پیک اور دیگر اشتراکی علاقائی بین الاقوامی تنظیموں کا قیام عمل میں آیا۔ دنیا کے چھوٹے ممالک کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ کسی ایک بلاک میں شامل ہو جائیں۔ اس طرح دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہو گئی روس اور امریکا کے مابین سرد جنگ کے نتیجے میں روس کا خاتمہ ہو گیا اور اس میں کئی ریاستیں وجود میں آگئیں۔

اسی صورت میں سیاسی نظریاتی دفاعی نوعیت کی بین الاقوامی تنظیمیں غیر موثر ہوگئیں اور اس کی جگہ مختلف نظریاتی اقتصادی تنظیموں کو فروغ حاصل ہوا۔ ان تنظیموں میں ایک تنظیم یورپی یونین کی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم دو درجن سے زائد یورپی ممالک کے باہمی اشتراک سے وجود میں آئی ہے۔

یہ تنظیم جدید ذرایع ابلاغ اور جدید نقل و حمل کے ذرایع کی بدولت ایک اقتصادی وحدت کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کی تجارت کی شرح میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ یہ تنظیم آزاد جمہوری ممالک کی ایسی تنظیم ثابت ہوئی جس نے جنگ و جدل میں مبتلا اقوام کو نہ صرف سیاسی و معاشی وحدت میں تبدیل کردیا بلکہ 50 کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس خطے کو بہتر سماجی، سیاسی اور معاشی استحکام فراہم کیا۔

خطے سے مراد ایسا زمینی جغرافیہ جو یکساں نوعیت کا ہو اور ایسی خصوصیت رکھتا ہو جو اسے اپنے ارد گرد میں واقع خطوں سے الگ کرے۔ یورپ ایک خطہ ہے جس میں کئی ممالک آباد ہیں اسی طرح جنوبی ایشیا بھی ایک خطہ ہے جس میں کئی ممالک آباد ہیں جن میں پاکستان، افغانستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، مالدیپ اور سری لنکا شامل ہیں۔ ان ممالک کی سرحدیں نہ صرف ایک دوسرے سے ملتی ہیں بلکہ ان میں نسلی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی قدروں کا بھی اشتراک موجود ہے۔

ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی پر مشتمل یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ ان ممالک کا موسم نہایت سازگار اور خاندان کو اولین حیثیت دی جاتی ہے۔ یہ خصوصیت اسے دیگر خطوں سے نمایاں کرتی ہے۔ بعض سیاسی ماہرین کے نزدیک جنوبی ایشیائی ممالک کے مسائل اور وسائل یکساں ہیں اس لیے یورپی یونین کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خطے کو یورپی یونین کی طرح اقتصادی وحدت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ نظر آیا ہے کہ یورپ کے نوجوان اور تعلیم یافتہ افراد علاقائی اتحاد کے حق میں نظر آتے ہیں اس کے برعکس اس خطے کے لسانی، نسلی اور مذہبی گروہ علاقائی اتحاد کے خلاف ہیں۔

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرز عمل یا سیاسی حکمت عملی کے نتیجے میں ان کا جداگانہ تشخص ختم ہو جائے گا جب کہ ایسا نہیں ہے یورپی یونین کے ممالک ایک سیاسی اور اقتصادی حیثیت رکھنے کے باوجود اپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک اس حکمت عملی کے قابل عمل ہونے میں بڑی رکاوٹ بھارت کا منفی رویہ ہے جو اس نے اپنے ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ بالخصوص پاکستان کے ساتھ اپنایا ہوا ہے۔

اس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کا مسئلہ ہے جو حل طلب ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں بھارت کی تمام دلچسپی اعتماد سازی کے اقدامات تک محدود ہے۔ بھارت کا موقف یہ ہے کہ اگر حالات بہتر ہوں گے اور دوستانہ تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا تو تمام مسائل بشمول کشمیر آسانی سے حل کرنا ممکن ہوگا۔

پاکستان کا موقف یہ ہے کہ جب تک کشمیر کا منصفانہ حل تلاش نہیں کیا جاسکتا ایسا حل جو پاکستان، بھارت اور کشمیریوں تینوں کے لیے قابل قبول ہو تو تعلقات میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بھارت کو اس مسئلے پر سخت گیر رویہ اپنانے کے بجائے پرامن مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بھارت کے مثبت رویے سے یہ مسئلہ یقینی طور پر حل ہو سکتا ہے۔

اس عمل کے نتیجے میں نہ صرف جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین اقتصادی سطح پر تعاون کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ یہ عمل سیاسی یک جہتی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اس عمل کے نتیجے میں نہ صرف بڑی طاقتوں کے عمل دخل کا خاتمہ ہوگا بلکہ ان کی سیاسی بالادستی سے بھی نجات حاصل ہوجائے گی۔

اس حقیقت کو یاد رکھیں کہ دنیا کے اس سیاسی اور معاشی جنگل میں کوشش کے باوجود دوستی اور اصول پرستی کا رواج ابھی تک مستحکم نہ ہو سکا جو کچھ رائج ہے وہ طاقت کو حق تسلیم کرنے اور کروانے کی روایت ہے۔

عالمی طاقتیں بالخصوص امریکا کے افکار اور اعمال کا محور و مرکز اصول یا نظریہ نہیں خالصتاً ان کے اپنے قومی مفادات ہوتے ہیں جن پر یہ پوری طرح عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس کی روشنی میں یہ کبھی دوستی، کبھی بیگانگی اور کبھی دشمنی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس کا مقابلہ جذبات سے نہیں بلکہ برابر کی طاقت یا سیاسی حکمت عملی سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں