جنگ اور جنگ
اس میزائل کو کس طرح، کس کی اجازت سے چلنے کا سگنل دیا گیا تھا؟
ISLAMABAD:
روس نے یوکرین کے شہری علاقوں میں بمباری کرکے جنیوا کنونشن کے چیتھڑے تو اڑا دیے ہیں، کیف کے بعد اب شہر ماریوپول میں شہری آبادی پر نشانہ بازی جاری ہے، یقینا یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے کہ انسانی جانوں کی حفاظت کی پاسداری کے لیے جو قوانین بنائے گئے تھے اس پر عمل نہیں کیا جا رہا، یہ ایک سوال ہے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟
اس دنیا کے خالق نے اپنے تمام بندوں کو بہت پیار سے پیدا کیا ہے اور وہ ذات باری اپنے تمام بندوں سے جو ان کو مانتے ہیں، ان کی عبادت کرتے ہیں، ان کے سامنے سجدہ رو ہوتے ہیں اور ان بندوں کو بھی جو ان کو مانتے ہی نہیں گو وہی کیا دنیا بھر میں تمام انسان اس حقیقت سے کسی نہ کسی حوالے سے آشکار ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔
پر ان کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں ہم استفسار ہی کرسکتے ہیں اور دنیا بنانے والے انھیں بھی کھلا رہے ہیں، پلا رہے ہیں اور وہ ان کی نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں کیونکہ وہ ذات باری کی محبت ہے لیکن انسان نے پیمانے مقرر کر رکھے ہیں امیری اور غریبی کا فرق عام انسانوں کے علاوہ ممالک کے درمیان اخلاقی دیواریں حائل کر دیتا ہے وہیں ایک اور پوائنٹ بھی جمع ہو جاتا ہے جسے مذہب کہتے ہیں اور اس پوائنٹ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
فروری سے جاری جنگ جس میں یوکرین اور روس نبرد آزما ہیں جانی اور مالی نقصان کا گراف بڑھتا جا رہا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی امریکا بھی اس جنگ میں روس کے خلاف میدان میں اترے، اس کے لیے فوجی مشقوں میں تو مصروف ہے، گو یہ خبریں تو کافی دنوں سے گردش میں ہیں لیکن عملی طور پر امریکا کی اس جنگ میں انٹری دنیا بھر میں تہلکہ مچا دے گی، امریکا نے روس کے خلاف پابندیاں تو عائد کردی ہیں لیکن اس سے پہلے روس نے امریکا کو خلائی منصوبوں سے منسلک رسد فراہم کرنے سے باآواز بلند انکار کردیا ہے یہ بندش یقینا امریکا کو بہت تکلیف دے گی۔
بقول روس کے خلائی آلات سے منسلک اعلیٰ حکام کے اب امریکا جھاڑو پر بیٹھ کر ہی خلا میں جائے، گویا ڈزنی لینڈ کی جھاڑو والی جادوگرنی کا سچ مچ کوئی وجود ہے، یہ مناظر بچپن میں کبھی فلموں میں دیکھا کرتے تھے اور سوچتے تھے کہ کیا خوب سواری ہے جھاڑو بھی۔ یقینا جھاڑو پر سواری کا آئیڈیا پہلی بار کسی انتہائی ذہین انسان نے پیش کیا ہوگا لیکن اتنی بڑی طاقت امریکا کے لیے ایسا سنجیدہ مذاق شاید پہلے کبھی منظر عام پر نہ آیا ہو۔
اس کے بعد امریکا نے بھی روس کے ساتھ تجارت بالکل منقطع کردی ہے شاید ان چند دنوں میں یہی اندازے لگ رہے تھے کہ اب کیا قدم اٹھایا جائے لیکن روس اپنے رویے میں ہرگز محتاط نظر نہ آیا بلکہ کھلے عام ویڈیوز میں شہری آبادی کو بموں سے اڑاتے دیکھا جاسکتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ سڑک پر چلتے اور محفوظ مقامات کو ڈھونڈتے اور ان تک پہنچنے سے پہلے ہی انھیں ٹارگٹ کرکے نشانہ بنایا گیا غالباً یہ تاک کر نشانے کی ترکیب دنیا میں کوئی خاص پیغام دینا چاہتی ہے یعنی اقوام متحدہ اور امریکا کے اصول و ضوابط کی اب روس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں، یوکرین کے عوام چیخ چیخ کر تمام ممالک کو احساس دلا رہے ہیں کہ وہ بھی یورپین ہیں کیونکہ ان کی رنگت سفید، بال سنہری اور آنکھیں نیلی ہیں۔
لہٰذا انھیں کسی تیسری دنیا کا ملک سمجھ کر نہیں بلکہ یورپین سمجھ کر ان کی مدد کی جائے اور ایسا ہوا بھی ہے یورپین ممالک میں یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے، پہلے جی سیون نے روس پر پابندیاں عائد کیں، اس کے بعد امریکا نے بھی روس سے ہیرے اور شراب کی امپورٹ پر پابندی لگا دی صرف یہی نہیں بلکہ ہر قسم کی درآمد اور برآمد پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے بھی روس کی امداد پر پابندی لگا دی ہے یوں دیکھا جائے تو روس کے خلاف ہر جانب سے شکنجہ تنگ کیا جا رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ یوکرین پر روس کا حملہ دنیا بھر میں غم و غصے کا باعث بن رہا ہے لیکن دوسری جانب دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی جنگوں اور علاقوں میں تعصبات کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خاموشی اور درگزر کرنے کا رویہ کیوں برتا جا رہا ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملوں میں انسانی جانوں کو اڑا دینے والے آج کس قدر بڑھ بڑھ کر بول رہے ہیں، کشمیر میں بھارت کی ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک پر آنکھیں بند کرلی گئیں۔
یاد رہے کہ بھارت روس کے مقابلے میں فوجی اعتبار سے کسی بھی درجے پر ہو لیکن روس بھارت کے سامنے کتے اور چیتے کی سی مثال ہے لہٰذا کتے کو تو چھیچھڑے ڈال کر قابو کیا جاسکتا ہے لیکن چیتے کے آگے چند چھیچھڑے ڈالنا اپنے آپ کو بھی موت کے کنویں میں ڈالنے کے مترادف ہو سکتا ہے، لیکن پھر بھی کسی یورپی ملک نے بھارت سے کشمیر اور مسلمانوں پر مظالم کے خلاف تجارت پر پابندی عائد نہیں کی، اس ڈبل اسٹینڈرڈ کا کیا مطلب ہے؟
ہاں البتہ روس اور یوکرین کی لڑائی میں شہری علاقوں پر بمباری کے خلاف بھارتی میڈیا نے جس قدر واویلا مچایا اور جنیوا کنونشن کی دھجیاں بکھیرنے کی بات کی کہ ان قوانین کو تو کوئی بڑی طاقت نہیں مانتی تو پھر حالیہ نو مارچ کو بھارت کی جانب سے میزائل چلنے کے حوالے سے کیا کہا جاسکتا ہے۔
اس میزائل کو کس طرح، کس کی اجازت سے چلنے کا سگنل دیا گیا تھا اور اس کا ٹارگٹ پاکستان میں میاں چنوں کو ہی کیوں منتخب کیا گیا، اگر یہ غلطی یا کوئی تکنیکی خرابی کے باعث بھی ہوا ہے تو اس کا رخ بھارت میں ہی کسی شہر کی جانب کیوں نہ ہوا، کیا یہ جنیوا کنونشن کے زمرے میں نہیں آتا، یا یہ بھی کسی اشارے کی جانب متوجہ کرتا ہے کہ جب روس یوکرین پر چڑھائی کرسکتا ہے تو بھارت بھی کمر کس سکتا ہے، ظاہر ہے کہ مودی جی کرسی تیسری بار تھامنے کی کوشش میں ہر طرح کی جنگ میں اپنے عوام کو جھونکنے کے لیے تیار ہیں اب اس زد میں کون کیسے اور کب آتا ہے یہ بعد میں سوچا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کی نیت کے فتور سے تو ایک دنیا واقف ہے۔