دنگل
تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری عمل ہے، اسے جمہوری طریقے ہی سے مکمل ہونا چاہیے
معروف صوفی دانشور واصف علی واصف اپنی کتاب حرف حرف حقیقت میں لکھتے ہیں کہ بعض اوقات ہم اکثریت کے فیصلے پر سفر اختیار کرتے ہیں۔ یہ سفر بھی مشکوک ہوتا ہے،اکثریت متلون ہو سکتی ہے، بے خبر ہو سکتی ہے، بے علم ہو سکتی ہے، غافل ہو سکتی ہے، آرام پرست اور آرام طلب ہو سکتی ہے۔
جہاں اکثریت کاذب ہو، وہاں صداقت کا سفر کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر منافقین کو اکثریت کے حوالے کردیا جائے تو فیصلہ غلط ہوگا۔ جھوٹے لوگ سچ بولیں تو بھی جھوٹ، وہ کوئی صحیح فیصلہ کریں تو بھی غلط ہے، وہ کسی صحیح منزل کی نشاندہی کریں تو بھی نتیجہ غلط ہوگا۔
سچ وہ جو سچے گروہ کا فیصلہ ہو، سچی اقلیت کاذب اکثریت سے بہت بہتر ہے۔ محض اکثریت پر مبنی سب فیصلے قابل غور ہیں، جب تک سچے لوگوں کی اکثریت نہیں ہوتی، جمہوری فیصلے غلط ہیں، سربراہ امیر المومنین ہونا چاہیے۔ امیرالکاذبین اور امیرالمنافقین ملت پر عذاب کے نزول کا باعث ہو سکتے ہیں، جھوٹے کے مقدر میں آدھا راستہ ہے، جھوٹے راہی کی منزل آدھا راستہ ہے، صداقت کی منزلیں صادقوں کے لیے ہیں کہ امیر کی صداقت قوم میں صداقت فکر پیدا کردیتی ہے۔
وہ آگے مزید لکھتے ہیں کہ قائد اعظم کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ صادق تھے اور صداقت ہی ان کی خودی تھی۔ ان کا اپنا کردار قوم میں وحدتِ کردار پیدا کر گیا۔ لوگ ان کے حکم پر مر مٹے، وطن سے بے وطن ہوئے، مہاجرین بن گئے۔
سب کچھ لٹا کے بھی خوش بختی کا احساس رہا۔ ایک عظیم مقصد کے لیے جان اور آن کی پروا کیے بغیر لوگ آمادہ سفر ہوئے۔ جب وحدت کا تصور دینے والا قائد مر گیا تو قوم میں انتشار پیدا ہو گیا۔ قائد کی موت نے سفر کی رفتار کم کردی، سفر کا رخ وہ نہ رہا۔
ان کی بنائی ہوئی صادق اکثریت، بے مقصد ہجوم میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر اکثریت کو صداقت آشنا کیا جائے اس میں حق گوئی اور بے باکی پیدا کی جائے تب ہی جمہوریت کو بہتر کیا جا سکتا ہے ورنہ وہی بات کہ بس آدھا سفر۔۔۔۔آدھا راستہ۔۔۔۔بقول صوفی دانش ور انسان فطری طور پر انقلاب پسند ہے اسے یکسانیت پسند نہیں ہے۔ یہ تبدیلی چاہتا ہے اور بدلتا رہتا ہے جس طرح یہ لباس بدلتا ہے بعینہ لہجے بدلتا ہے، دوست بدلتا ہے، جماعتیں بدلتا ہے، ہارس ٹریڈنگ کرتا ہے، احسان فراموشیاں کرتا ہے، رشتے اور تعلق بدلتا ہے اور یہاں تک کہ اپنی غرض کی خاطر مقصد بھی بدل دیتا ہے۔ اس کے پاس ہر کام کا جواز ہے۔
پرانے فیصلے کا اس کے پاس قوی جواز تھا اور آج نئے فیصلوں کا جواز ہے۔ ہم کسی ایک زمانے میں کسی آنے والے زمانے کے لیے ایک مقصد بناتے ہیں تاکہ وہ آنے والا جو زمانہ ہے وہ آسانی سے گزرے، لیکن جب وہ زمانہ آتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ جسے آنا تھا وہ نہیں آیا بلکہ کچھ اور ہی آگیا۔
آج وطن عزیز کچھ ایسی ہی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ عوام سے لے کر خواص تک، سیاست سے لے کر صحافت تک اور انصاف سے لے کر معاشرت تک جھوٹ، نفرت، کینہ، بغض، عداوت اور منافقانہ طرز عمل نے پورے ملک کے ماحول کو پراگندہ کر رکھا ہے، بقول علامہ اقبال ''ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ'' لیکن یوں لگتا ہے کہ ہر فرد ملت کی بربادی کا استعارہ بن گیا ہے، سچائی، حقیقت، کردار، وقار، متانت، سنجیدگی، حسن اخلاق، رواداری، تحمل، برداشت اور ایک دوسرے کے لحاظ کی تمام روایات اور آداب کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔
خود کو صالح، نیک، پاک باز، صاحب کردار، مخلص وطن، ہمدرد قوم اور صداقت آشنا قرار دیا جا رہا ہے، جمہوریت کا سب سے بڑا عاشق صادق اور عوام الناس کے جملہ مسائل اور ملکی پریشانیوں کا واحد حل قرار دیا جا رہا ہے۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فلسفہ، تصورات اور نظریے کے مطابق وطن عزیز کو ڈھالنے کے دعوے اور وعدے کیے جا رہے ہیں۔ سات دہائیاں گزر گئیں من الحیث القوم ہمارے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم آنے والے نئے زمانے کی تعمیر کے دعوے کرتے ہوئے رہنمائے قوم کو دیکھتے ہیں تو مایوسی، ناکامی، بدنامی، محرومی اور کف افسوس ملنے کے سوا اور کوئی راہ نظر نہیں آتی۔
آپ تازہ سیاسی صورت حال کا جائزہ لے لیں تو صرف اور صرف ابتری ہی نظر آتی ہے۔ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک جمہوری اقدار کی پاسداری کی بجائے دو طرفہ مخاصمت، دشمنی اور تصادم کی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے، نہ لہجوں میں شائستگی ہے، نہ مروت، نہ لحاظ اور نہ اخلاقی قدروں کا کچھ پاس۔ ہر دو فریق ایک دوسرے کے مقابل یوں کھڑے ہیں کہ جیسے محاذ جنگ پر دشمن ایک دوسرے پر جھپٹنے کے لیے بے چین ہو۔
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیا پیش ہوئی بس ان کا مزاج انتقام کے شعلے اگل رہا ہے۔ ڈاکو، چور، لٹیرے جیسے القابات کے بعد اب وہ اپوزیشن رہنماؤں کو مسخرے، گیدڑ اور چوہے جیسے غیر مہذب ناموں سے پکار رہے ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ انھوں نے ''نیوٹرل'' رہنے والوں کو ''جانور'' سے تشبیہ دے کر ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔
ملک کے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں وزیر اعظم کی نرالی منطق پر اظہار تاسف کیا جانا ناقابل فہم نہیں کہ انسان جب کسی بڑے منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس کے اندر بجائے غرور و تکبر کے عاجزی و انکساری آتی ہے جس ڈالی پر پھل لگا ہوتا ہے وہ مزید جھک جاتی ہے نہ کہ اونچی ہو کر دسترس سے باہر۔ اور جو شخص ریاست مدینہ کے نظام کی بات کرتا ہو تو کیا اسے ریاست مدینہ کے حاکموں کے طرز زندگی اور انداز گفتگو کا کچھ اندازہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے کس لب و لہجے میں بات کرتے تھے اور کس طرح کا سلوک روا رکھتے تھے اور آپ انھی کے نام کی مالا جپتے ہیں، انھی کا نظام ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا انداز تکلم اپنانے سے گریزاں نظر آتے ہیں، اسی کو قول و عمل کا تضاد کہتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری عمل ہے۔ اسے جمہوری طریقے ہی سے مکمل ہونا چاہیے۔ بعینہ اپوزیشن اور وزیر اعظم کو بھی جمہوری انداز سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے نہ کہ ڈی چوک پر دس لاکھ کے مجمع اور اپوزیشن کو بیس لاکھ کے جلسے سے اسے تصادم کی شکل دے کر دنگل کا شو بنانا چاہیے۔