پروفیسر اعجاز احمد عوامی دانشور
تاریخ میں پہلی دفعہ پاکستان کے عوام کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے نمایندوں کو منتخب کرنے کا اختیار ملا
کراچی:
70ء کی دہائی کا آغاز متحدہ پاکستان کے لیے بحرانوں سے ہوا۔ پہلے آمر جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کامیاب ہونے لگی تو جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور عام انتخابات کے انعقاد اور ون یونٹ کے خاتمہ کے اعلانات کیے۔
تاریخ میں پہلی دفعہ پاکستان کے عوام کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے نمایندوں کو منتخب کرنے کا اختیار ملا۔ 70ء کی دہائی میں ہونے والے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی دو نشستوں کے سوا باقی تمام نشستیں جیت لیں۔ پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب میں اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری۔ سابقہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے اکثریتی نشستیں حاصل کیں۔
جمہوری تقاضوں کے مطابق اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار فوری طور پر منتقل ہونا چاہیے تھا، جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا، پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کی مکمل حمایت کی۔
جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کی سول نافرمانی کی تحریک کو کچلنے کے لیے قومی آپریشن شروع کیا۔ مشرقی پاکستان کے دانشور، ادیب، صحافی اور استاد اس آپریشن کی زد میں آئے۔ دائیں بازو کے دانشوروں نے آپریشن کی حمایت کی۔ اس وقت امریکا میں تین پاکستانی اساتذہ مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کا آغا زکرچکے تھے۔ ان میں ایک ڈاکٹر اقبال احمد، دوسرے ڈاکٹر فیروز احمد اور تیسرے پروفیسر اعجاز احمد تھے۔ یہ تینوں اساتذہ مارکسزم کے طالب علم تھے اور ویتنام میں امریکی فوجی آپریشن کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے والے گروپ میں شامل تھے۔
ان تینوں اساتذہ نے انگریزی میں ایک رسالہ پاکستان فورم شایع کرنے کا عزم کیا۔ ڈاکٹر اقبال احمد اپنے خاندانی پس منظر میں بہار، پروفیسر اعجاز احمد بھارت کی ریاست یوپی اور ڈاکٹر فیروز احمد کا تعلق سندھ سے تھا، یوں ان تینوں ''احمد'' نے بنگلہ دیش کے عوام کے مصائب کو اجاگر کرنا شروع کیا۔ یہ پاکستانی شہریوں کی ادارت میں شایع ہونے والا پہلا جریدہ تھا جو مشرقی پاکستان کی حقیقی صورتحال کو عوام کے سامنے پیش کررہا تھا۔ اس زمانہ میں پاکستان فورم کا پاکستان میں لانا سنگین جرم تھا۔ کچھ سر پھرے اپنے سامان میں پاکستان فورم کی کچھ کاپیاں لے آتے تھے۔
جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کی مخلوط حکومت کو برطرف کیا اور بلوچستان میںآپریشن شروع کیا تو پروفیسر اعجاز نے غیر ملکی اخبارات میں شایع ہونے والے اپنے آرٹیکلز میں پیپلزپارٹی حکومت کے اس اقدام کو پاکستان میں جمہوریت کے اختتام سے تعبیر کیا۔ پروفیسر اعجاز پاکستان آگئے اور انھوں نے لاہور سے انگریزی ادب میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی اور نئی امریکی یونیورسٹیوں میں تدریس کا تجربہ تھا مگر پروفیسر اعجاز نے کوئی پرکشش نوکری حاصل کرنے پر توجہ نہ دی اور بائیں بازو کی جماعت مزدور پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ مزدور کسان پارٹی متحرک تھی۔
مزدور کسان پارٹی کارل مارکس کے فلسفہ، سوویت یونین کے انقلاب کے بانی لینن اور مرد آہن اسٹالن اور چین کے انقلاب کے بانی ماؤزے تنگ کے نظریات کے تابع مزدور کسان انقلاب کے لیے جدوجہد کررہی تھی۔ مزدور کسان پارٹی کے بانی رکن اور بائیں بازو کی مختلف جماعتوں کے منحرف کارکن شاہد علی ایڈووکیٹ اپنی یادداشتوں کو جمع کرکے بتاتے ہیں کہ پروفیسر اعجاز احمد نے مزدور کسان پارٹی کے کارکنوں کے نظریات کا بیڑا اٹھایا۔ وہ ملک بھر میں مختلف علاقوں میں جاتے اور اسٹڈی سرکل منظم کرتے۔
کارل مارکس کے قدر زاہد جدلیاتی مادیت لینن کے نظریات اسٹالن کی پالیسیوں اور ماؤزے تن لیگ کے کسان انقلاب کے بارے میں لیکچر دیتے۔ ان اسٹڈی سرکلز میں طلبہ، مزدور، کسان کارکن اور درمیانے طبقہ سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان کارکن شریک ہوئے جو انھی دنوں ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے تھے۔ اس زمانہ میں پنجاب میں امتیاز عالم، اشفاق مرزا، زمان خان، کراچی میں محمد میاں ،ڈاکٹر ظفر عارف، انوار کاظمی، محمد شفیع ظفر اسلم اور شاہد علی وغیرہ متحرک تھے۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی یاد میں ایک یونیورسٹی جواہر لعل یونیورسٹی (جینو)قائم ہوئی۔ اس یونیورسٹی کو قائم کرنے والے پروفیسر پرانے کمیونسٹ تھے یا مارکس کے نظریات سے متاثر تھے، یوں جینو ترقی پسند نظریات کا گڑھ بن گئی۔ جینو آج بھی ترقی پسند قوتوں کی آواز ہے اور ہندو توا کے خلاف سب سے بڑا مرکز ہے۔بھارت کی حکومت نے پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیام گاہ جس کو قومی یاد گار قرار دیا گیا ہے۔
جینو میں ایک تحقیقی انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گیا جس کا مقصد سماج کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کرنا تھا، پروفیسر اعجاز احمد کو اس کا پہلا ڈائریکٹر بنانے کا فیصلہ ہوا۔ یہ کسی غیر ملکی خاص طور پر ایک پاکستانی کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ پروفیسر اعجاز احمد نے 10سال تک اس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تحقیق کی اور نوجوانوں کو تحقیق کے طریقے سکھائے، جب اعجاز احمد کو ان کے دوستوں نے آگاہ کیا کہ مودی حکومت ان کے ویزے میں توسیع نہیں کرے گی تو انھوں نے اپنی ملازمت میں توسیع کی درخواست نہیںکی۔ اعجاز احمد نے جینو اور جامعہ ملیہ دہلی میں لیکچرز اور دوسری یونیورسٹی میں تاریخی لیکچر دیے۔ اعجاز احمد نے کچھ عرصہ بھارت کے شہر چنائے کے جرنلزم انسٹی ٹیوٹ میں بھی تدریس کا فریضہ انجام دیا۔
یہ انسٹی ٹیوٹ پرنٹ کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کا بین الاقوامی معیار کا انسٹی ٹیوٹ ہے۔ ڈاکٹر اعجاز احمد بھارت کے ممتاز جریدہ Frontline کے ایڈیٹوریل کنسلٹنٹ بنادیے گئے۔ فرنٹ لائن کے ایڈیٹر اور سینئر عملہ نے اعجاز احمد پر یہ پابندی ختم کردی کہ جتنے الفاظ پر چاہے مشتمل اپنا آرٹیکل تحریر کریں ، اعجاز احمد امریکا واپس چلے گئے۔
وہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کےUc Irvine School of humanitiesمیں چانسلر پروفیسر (Chancellors Professor) مقرر ہوئے جو بین الاقوامی سطح پر بڑا اعزاز ہے۔ پروفیسر اعجاز احمد کے نظریات سے متاثر ہونے والے دانشور وجے پرشاد نے اپنے ٹیوٹر میں لکھا ہے کہ اعجاز احمد کی سیاسی تربیت لاہور کے ہوٹلوں اور سیاسی جماعتوں کے خفیہ سیل میں ہوئی تھی۔پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد نے ڈگری تو انگریزی ادب میں لی تھی مگر وہ انتہائی آسان اردو لکھتے تھے ۔ ان کے مضامین بین الاقوامی جرائد میں شایع ہوئے۔ انھوں نے مرزا غالب کی بھی غزلوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔
اعجاز احمد 9مارچ کو 81 سال کی عمر میں کیلیفورنیا میں اپنے گھر سے دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس عظیم دانشور کی موت کا سوگ پوری دنیا میں منایا جارہا ہے۔ معروف مارکسی دانش ور طارق علی نے اعجاز احمد کو عوامی دانشور قرار دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر منظور اعجاز لکھتے ہیں کہ اعجاز احمد نے بھارت کے تناظر میں بڑھتے ہوئے Majoritarianism پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیکیولر ازم ریاست کے لیے ضروری ہے مگر اس مقصد کے لیے حقیقی سوشلسٹ سوسائٹی کا ہونا ضروری ہے۔
برطانیہ کی سوشلسٹ تحریک سے منسلک رہنے والے معمر صحافی نواب سعید حسن خان کہتے ہیں کہ پروفیسر اعجاز احمد سے ان کی دہلی میں ملاقات ہوئی تھی وہ ایک سچے مارکس دانشور تھے اور اپنے ہم عمر دانش وروں سے بہت مختلف اور سوچ فکر میں سب سے اعلی تھے،اعجاز احمد عوامی دانشور تھے۔ ان کا خواب تھا کہ بھارت پاکستان میں ایک سیکیولر معاشرہ پروان چڑھے اور پسماندہ طبقات کے نمایندے حکومت کریں۔ اپنے آدرش کی نگہبانی میں انھوں نے ساری زندگی گزار دی۔