زوال
امریکا کو کمزور کرنے اور اس کی ساکھ کو خراب کرنے میں اس کے بعض نااہل اور جذباتی صدور کا اہم کردار ہے
ABBOTABAD:
دنیا کی واحد سپر پاور کا صدر کسی ملک کے سربراہ کو فون کرے اور وہ اس کے فون کو اٹینڈ ہی نہ کرے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا مگر اب ایسا واقعہ ہو گیا ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر جوبائیڈن نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو فون کیا مگر انھوں نے فون ہی نہیں اٹھایا۔
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد زید بن النہیان کو بھی فون کیا تو انھوں نے بھی ان کے فون سے لاتعلقی برتی۔ یہ وہ ممالک ہیں جو امریکا کے خاص دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان ممالک کو آخر ہو کیا گیا کہ انھوں نے دنیا کے طاقتور ترین ملک کے صدر کے ساتھ ایسا بے رخی کا رویہ اختیار کیا۔ اس واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ امریکا اپنی ساکھ کھو چکا ہے جس کی واحد وجہ اس کی جارحانہ اور انسان کش پالیسیاں ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے جیتنے کا سہرا اپنے سر سجانے کے بعد وہ طاقت کے نشے میں ایسا بے لگام ہوا کہ دنیا کے کسی ملک کی اس کے آگے کوئی قدر و قیمت ہی نہ رہی۔ ہر ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا ،اس نے اپنا شیوہ بنا لیا اس کی جارحیت کا سلسلہ کوریا میں مداخلت سے شروع ہوا۔ وہ پورے کوریا میں اپنا پسندیدہ نظام رائج کرنے کا خواہاں تھا جبکہ وہاں کے عوام اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنا چاہتے تھے امریکی مسلح جارحیت سے کوریا دو ٹکڑوں میں بٹ گیا اور ہزاروں لوگ اس جنگ میں مارے گئے ۔اس کے بعد اس نے ویت نام میں مسلح جارحیت کی جس سے ویت نام میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور ہزاروں اپاہج ہوگئے۔
امریکا وہاں اپنی پوری طاقت جھونکنے کے بعد بھی ناکام رہا اور وہاں کے عوام سرخ رو ہوئے۔ امریکا کی دوسرے ممالک میں مداخلت کو پوری دنیا میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا مگر امریکا اپنی جارحانہ روش سے باز نہ آیا۔ اس جارحیت کے ساتھ اس نے کئی ممالک میں اپنے ناپسندیدہ سربراہان کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
یہ کام امریکی سی آئی اے انجام دیتی رہی اور پوری دنیا میں بدنام ہوتی رہی سوویت یونین بھی ماضی میں سپر پاور رہا مگر اس نے امریکا جیسی روش اختیار نہیں کی تھی۔ اس کی فوجی مداخلت کی مثال صرف افغانستان سے دی جاسکتی ہے مگر یہ مداخلت اسے ایسی مہنگی پڑی کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور اپنی سپرپاور کی حیثیت بھی کھو بیٹھا۔ اس کے بعد امریکا کو کھلا میدان مل گیا اور پھر اس نے دوسرے ممالک میں مداخلت کرنا اپنا مشغلہ بنا لیا۔
آج امریکی مداخلت کی وجہ سے عراق، لیبیا، صومالیہ، یمن، شام اور افغانستان تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔ دراصل اسلامی ممالک کو اجاڑنا امریکا نے اپنا خاص مشن بنا رکھا ہے۔ وہ سوڈان اور انڈونیشیا کو توڑ کر صرف انسانیت کی بنیاد پر جنوبی سوڈان اور تیمور جیسے ممالک کو وجود میں لے آتا ہے مگر کشمیر اور فلسطین کے برسوں پرانے قانونی حق خود اختیاری کے حامل مسائل کو حل کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ وہ چاہے تو بھارت اور اسرائیل کو لگام ڈال سکتا ہے مگر اس کے برعکس وہ ان کی پشت پناہی کر رہا ہے ساتھ ہی مہلک ہتھیاروں سے لیس بھی کر رہا ہے۔ امریکا کے خود غرضانہ رویے کی وجہ سے اب اس کے پرانے یورپی اتحادی ممالک بھی اس سے بے رخی برت رہے ہیں۔
امریکا، روس اور چین کے خلاف مسلسل جارحانہ کارروائیاں کرنے میں مصروف ہے ۔ادھر یورپی ممالک اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ امریکا اپنے مفاد کے لیے انھیں روس اور چین سے لڑانا چاہتا ہے چنانچہ وہ امریکی ناراضگی کے باوجود چین اور روس سے اپنے تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے کو بلا جواز قرار دیا جاسکتا ہے مگر یہ ایک مذہبی جنگ ہے۔ یوکرین دراصل ماسکو چرچ کے دائرہ سے نکل کر مغربی رنگ اختیار کرنا چاہتا ہے جو روس کو پسند نہیں ہے۔
اب اگر یوکرین کی وجہ سے عالمی جنگ چھڑتی ہے اور امریکا کی ایما پر یورپ میں نصب امریکی میزائل روس کی جانب داغے جاتے ہیں تو پھر اس کے جواب میں روس اپنے میزائل یورپی سرزمین پر ہی برسائے گا جس سے یورپ دوسری عالمی جنگ کے بعد پھر تباہ و برباد ہو سکتا ہے اور امریکا محفوظ ہی رہے گا۔ اس صورت حال سے یورپی ممالک بہت پریشان ہیں اور لگتا ہے وہ جلد ہی امریکی غلامی کو ترک کرنے والے ہیں۔ اس طرح امریکا جو روس کو تنہائی کا طعنہ دے رہا ہے خود بھی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔
امریکا کو کمزور کرنے اور اس کی ساکھ کو خراب کرنے میں اس کے بعض نااہل اور جذباتی صدور کا اہم کردار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بش جونیئر سے لے کر جتنے بھی لوگ امریکی صدر بنے تمام کے تمام مذہبی جنونی، انسانیت کے دشمن، جنگجویانہ ذہنیت کے مالک اور اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والے تھے۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ جب کسی ملک یا تہذیب ظلم و ستم کی حد پار کر جاتے ہیں تو اس پر ایسے حکمران مسلط ہوتے ہیں جو اپنی نااہلی سے اسے خود ہی لے ڈوبتے ہیں۔ بس اب بہت ہو چکا امریکا کا زوال یقینی ہے۔