لاہور ٹیسٹ اسپن کیلیے سازگار پچ بنانی چاہیےسعید اجمل

بولرز کواگر پچز کی شکایت ہی کرنا ہے تو کرکٹ چھوڑ دیں،سابق اسٹار


Saleem Khaliq March 20, 2022
اسپنرز کی جانب سے فلیٹ پچ کا جواز پیش کرنا درست نہیں،سابق اسٹار۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: سعید اجمل نے کہا ہے کہ اسپنرز کی جانب سے فلیٹ پچ کا جواز پیش کرنا درست نہیں،ایسا کرنا شکست تسلیم کرلینے کے مترداف ہے۔

پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو انٹرویو میں سابق ٹیسٹ اسٹار سعید اجمل نے کہا کہ اگر کوئی اسپنر میدان میں داخل ہوتے ہی پچ کو فلیٹ قرار دے دیتا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ اس نے شکست تسلیم کرلی،اگر کسی کو پچ دیکھ کر ہی بولنگ کرنا ہو تو اس کے اسپنر ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے،سلو بولرز کو بھی مثبت رہنا اور ہر طرح کی کنڈیشنز میں وکٹیں اڑانے کا ہنر آنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ راولپنڈی اور کراچی میں فلیٹ پچز تھیں،ٹیسٹ کرکٹ میں اسی طرح کے ٹریک ہوتے ہیں،پاکستان میں ہمیشہ سے اسپن پچز ہونے کا تاثر درست نہیں، یہاں تک کہ یواے ای میں کھیلتے ہوئے بھی ہمیں گیند کو اسپن کرنا پڑتا تھا،ایسا کسی جادو کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتا،دو طرح کی صورتحال ہوتی ہے کہ یا تو آپ اسپن کریں یا پچ سے مدد ملے،دونوں میں بنیادی طور پر بہت فرق ہے،جو خود اسپن کرنے کا ہنر جانتا ہو وہ ہر طرح کی کنڈیشنز میں وکٹیں حاصل کرسکتا ہے،ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم ویری ایشن کا بہتر استعمال نہیں کرتے۔

سعید اجمل نے کہا کہ نعمان علی نے نسبتا بہتر بولنگ کی ہے،کیمرون گرین کی وکٹ اس کی ایک مثال ہے،لیگ اسٹمپ پر پڑنے والی گیند اسپن ہونے کے بعد آف اسٹمپ اڑاگئی،اگرچہ اس طرح کی زیادہ گیندیں نہیں تھیں مگر ایک مثال ضرور ہے کہ سپورٹ نہ کرنے والی فلیٹ پچ پر بھی سلوبولرز کس طرح وکٹ لینے کے مواقع بنا سکتے ہیں،وکٹیں حاصل کرنے کیلیے ٹمپرامنٹ کی ضرورت پڑتی ہے،بیٹر کے ذہن سے کھیلنے کیلیے 8یا 10اچھے اوورز کرنا پڑتے ہیں،اس کے بعد ہی بولر اپنے پلان پر عمل کرسکتا ہے،اگر فلیٹ پچز کی شکایت ہی کرنا ہے تو کرکٹ چھوڑ دینی چاہیے۔

پاکستان میں پچز کے معیار کے سوال پر سعید اجمل نے کہا کہ بیرون ملک جائیں تو خود کو باؤنسی پچز کیلیے تیار رکھنا پڑتا ہے، بھارت میں اسپنرز کو بہتر انداز میں کھیلنا آنا چاہیے،پاکستان میں یہی سوچنا ہوتا ہے کہ بیٹرز کو لمبی اننگز کھیلنا ہے،بولرز کیلیے کچھ نہیں ہوگا، آسٹریلوی اسپنرز کو اچھا نہیں کھیلتے، اسپن ٹریک ہماری قوت ثابت ہوسکتے تھے، راولپنڈی میں نعمان علی نے فلیٹ پچ پر بھی 6وکٹیں حاصل کیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے اگر کنڈیشنز تھوڑی سی بھی سازگار ہوں تو اسپنرز کتنی بہتر کارکردگی دکھاسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے پاس اسپن بولنگ میں ورائٹی نہیں، دونوں روایتی اسپنرز ہیں،میں اس بات سے بھی 100فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ لاہور ٹیسٹ کیلیے اسپن پچ بنانی چاہیے۔

شاداب کو ٹیسٹ کرکٹ میں جگہ بنانے کے لیے وقت چاہیے

سعید اجمل نے کہا کہ شاداب خان کو ٹیسٹ کرکٹ میں جگہ بنانے کیلیے وقت چاہیے، لیگ اسپنر میں بڑی انرجی اور بولنگ میں ویری ایشن ہے،وہ فیلڈنگ بھی عمدہ کرتے ہیں،ورلڈکپ اور پی ایس ایل میں زبردست پرفارم بھی کیا، 10یا 12اوورز کی بات تو ٹھیک ہے مگر ٹیسٹ کرکٹ میں لمبے اسپیل کرنا پڑتے ہیں،اس کیلیے ایکشن بھی آسان ہونا چاہیے، شاداب خان کو انجریز بھی رہی ہیں، میرے خیال میں ٹیسٹ کرکٹ میں جگہ بنانے کیلیے ابھی انھیں وقت درکار ہوگا۔

شاہین آفریدی کو ضرورت ہوتو آرام دینا چاہیے

سعید اجمل نے کہا کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی ٹیمیں اپنے پیسرز کو آرام دیتی ہیں، پاکستان کے پاس اتنے زیادہ باصلاحیت کرکٹرز نہیں کہ کسی کو باہر بٹھائیں تو متبادل بھی اسی معیار کا ہوا،تینوں فارمیٹ کھیلنے والے ویسے بھی بہت کم کھلاڑی ہیں، شاہین شاہ آفریدی کو بھی ضرورت ہوتو آرام دینا چاہیے،بولر کو خود بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فٹنس کیلیے کیا ضروریات ہیں۔

بابر اعظم جیسے کرکٹرز صدی میں1،2 ہی پیدا ہوتے ہیں

سعید اجمل نے کہا کہ کراچی ٹیسٹ میں بابر اعظم،محمد رضوان اور عبداللہ شفیق نے تاریخی کارکردگی پیش کی،پاکستان نے مگر مچھ کے منہ سے نوالہ چھین لینے والا کام کیا، 172اوورز کھیل کر میچ ڈرا کرنا حیران کن پرفارمنس ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے،اس کارکردگی کو آسٹریلوی ٹیم اور بھارتیوں نے بھی سراہا ہے، انھوں نے کہا کہ بابر اعظم جیسے کرکٹرز صدی میں 1، 2 ہی پیدا ہوتے،گذشتہ عہد ویراٹ کوہلی کا تھا، اب بابر اعظم کا ہے،اس طرح کے کرکٹرز زیادہ دیکھنے کو نہیں ملتے۔

انھوں نے کہا کہ رضوان نے جس انداز میں اپنی صلاحیتیں نکھاریں اس کی بھی انٹرنیشنل کرکٹ میں مثال نہیں ملتی،انھوں نے میچ کے صورتحال کے مطابق محتاط یا جارحانہ کھیلنے کا ہنر سیکھ لیا اور تسلسل کے ساتھ پرفارم کررہے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔