یاور مہدی ریڈیو کے آئی کون تھے
ریڈیوان کی زندگی کااوڑھنا بچھوناتھا ریڈیوان کا گھرآنگن تھااوربقول ان کی بیگم صاحبہ کے یاورمہدی نے ریڈیوسے شادی کرلی ہے
جب ٹیلی وژن کا آغاز نہیں ہوا تھا، تو صرف ریڈیو ہی سب کی امنگوں کا مرکز تھا اور ساری قوم ریڈیو ہی جی جان سے سنا کرتی تھی۔ ریڈیو کے پروگراموں کی سارے ملک میں دھوم ہوتی تھی۔
ریڈیو کے مقبول ڈراموں کا گھر گھر چرچا رہتا تھا۔ ریڈیو کے فنکاروں کو لوگ بہت پسند کرتے تھے۔ ریڈیو کے ڈراموں کے ساتھ ریڈیو سے قوالی، نعتوں اور طالب علموں کے لیے جوانوں کے پروگرام بھی بڑے مقبول ہوا کرتے تھے۔ ایسے ہی پروگراموں میں نوجوان طلبا کے لیے ریڈیو سے ایک پروگرام ''بزم طلبا'' کے نام سے نشر کیا جاتا تھا۔ جس طرح خواتین اپنی پسند کے پروگرام بڑے شوق سے سناکرتی تھیں اور ان پروگراموں کا ہفتہ بھر انتظار کیا کرتی تھیں، اسی طرح رات کو اسٹوڈیو نمبر 9 سے جو پروگرام نشر کیا جاتا تھا اس پروگرام کی بھی بڑی دھوم ہوتی تھی۔
وہ ہمارا طالب علمی کا زمانہ تھا اور نوجوان اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام بزم طلبا سے جڑے ہوتے تھے۔ اس میں جوق در جوق حصہ لیا کرتے تھے اور اس پروگرام کے پروڈیوسر یاور مہدی ہوا کرتے تھے جو سیکڑوں طالب علم صداکاروں اور لکھنے والوں کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ اس زمانے کا یہ سب سے مقبول ترین پروگرام ہوا کرتا تھا، گزشتہ دنوں یاور مہدی مرحوم کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس میں، میں نے بھی شرکت کی تھی، یہ ایک تعزیتی تقریب تھی اور میں امریکا سے پاکستان آیا ہوا تھا۔
تقریب کا آغاز مصطفیٰ عازم اشرفی نے تلاوت کلام پاک سے کیا، پھر معروف شاعرہ شہناز رضوی نے روح پرور انداز میں نعتیہ کلام پیش کیا۔ ان کے بعد مشہور براڈ کاسٹر و شاعر خالد عمران نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یاور مہدی ریڈیو پاکستان کی نہ صرف نامور شخصیت تھے بلکہ وہ ریڈیو پاکستان کی پہچان تھے۔ انھوں نے ریڈیو کی زندگی کو اپنی زندگی کا محور بنالیا تھا۔
صدیق راز ایڈووکیٹ نے کہا کہ یاور مہدی نوجوانوں کو کثیر تعداد میں اپنے پروگرام کی بدولت منظر عام پر لے کر آئے اور ان کی بطور رائٹر اور براڈ کاسٹر بہت ہی بہتر انداز میں تربیت کی۔ کراچی کی مشہور سماجی شخصیت نفیس خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یاور مہدی اپنی ذات میں ایک نفیس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ نوجوان فنکاروں اور ادیبوں و شاعروں کے لیے مشعل راہ بھی تھے وہ ہمہ وقت چاق و چوبند رہتے ہوئے اپنے ہر پروگرام کو کامیابی کی منزل تک لے جا کر ہی دم لیتے تھے وہ ہر ایک کے نہ صرف کام آتے تھے بلکہ اس کے کام کو آگے بڑھانے میں اسے روشنی دکھاتے تھے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریڈیو سے تجربہ حاصل کرکے بے شمار افراد نے ٹیلی وژن اور پھر فلم کی دنیا میں بھی نام کمایا اور اپنی شاندار شناخت پیدا کی۔
یاور مہدی صاحب نے مشہور عام پروگرام ''بزم طلبا'' کے علاوہ بے شمار کوئز مقابلے، بے شمار نوجوانوں کے مختلف پروگرام، ادبی عدالت عالیہ، جشن طلبا، شب کو ہے گنجینہ گوہر کھلا، پہچان پر ہے ناز تو پہچان جائیے، داستان بنتی گئی سفر نامے، خطوط کے آئینے میں اور پھر پہلی بار ریڈیو پاکستان سے کرکٹ میچ کی اردو کمنٹری کا آغاز بھی کیا گیا جس کا کریڈٹ بھی یاور مہدی اور ان کی ٹیم کے دیگر ممبران کو جاتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر وسیم الدین نے اپنی گفتگو کا آغاز ایک خوبصورت شعر سے کرتے ہوئے کہا:
وہ پیڑ جن پہ پرندوں کے گھر نہیں ہوتے
دراز کتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے
اور یاور مہدی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس شعر کی حقیقت کے ساتھ یاور مہدی کی شخصیت اور ان کی گراں قدر خدمات کا احاطہ کیا گیا ۔پھر اس تقریب سے سابقہ دور میں کئی بار وزیر رہنے والے نامور کالم نگار، براڈ کاسٹر اور ٹی وی اینکر آغا مسعود حسین نے یاور مہدی کی شخصیت پر ایک سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یاور مہدی جیسی شخصیات بہت کم جنم لیتی ہیں، جو دوسروں کے لیے سوچتی ہیں، جو دوسروں کو کامیابی کی منزلوں کی طرف لے کر جاتی ہیں وہ ایک نفیس ترین انسان تھے انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ریڈیو پاکستان کے لیے وقف کردیا تھا۔
انھوں نے نہ صرف ریڈیو پاکستان کے لیے بہت کچھ کیا بلکہ انھوں نے کراچی آرٹس کونسل کے لیے بھی وہ کام کیا جو کوئی دوسرا نہ کرسکتا تھا۔ نامساعد حالات اور حکومت کی معمولی امداد کے باوجود کراچی آرٹس کونسل کو سارے پاکستان میں ایک فعال ادارے کے طور پر نہ صرف متعارف کرایا بلکہ آرٹس کونسل کراچی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرتے ہوئے ایک مثالی ادارہ بھی بنایا۔
شگفتہ فرحت اور اویس ادیب انصاری نے یاور مہدی کی شخصیت پر بڑے پرسوز انداز اور محبتوں کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا اور ان کی زندگی کے ان گوشوں کو بھی بیان کیا جو بڑے دلچسپ تھے اور ان سے صرف اویس ادیب انصاری ہی واقف تھے۔ یاور مہدی نے شگفتہ فرحت اور اویس ادیب انصاری کو اپنی منہ بولی اولاد کا درجہ دیا ہوا تھا اور جب تک یاور مہدی حیات رہے ان سے محبت اور حسن سلوک کے رشتے قائم رہے۔
یاور مہدی کے صاحبزادے ظفر مہدی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا محبان بھوپال فورم کی شگفت فرحت صاحبہ اور تنظیم فلاح خواتین کراچی کی چیئرپرسن محترمہ قمرالنسا قمر کا میں بہت ہی مشکور و ممنون ہوں کہ انھوں نے میرے والد کو خراج تحسین پیش کرنے اور تعزیتی ریفرنس کے نام سے ایک بڑے پیمانے پر تقریب کا اہتمام کرکے ہم سب گھر والوں کے دل جیت لیے ہیں،ہمیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ ہمارے والد کے ساری دنیا میں چاہنے والے بے شمار ہیں۔یہ ہمارے لیے ایک فخر کے ساتھ ساتھ ایک اعزاز کی بات بھی ہے۔
ظفر مہدی کے بعد براڈ کاسٹر، رائٹر اور ٹیلی وژن کے نامور پروڈیوسر محترم قاسم جلالی نے بہت نپے تلے انداز میں اپنی گفتگو میں یاور مہدی صاحب کو خوبصورت خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یاور مہدی نے پاکستان ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم کے لیے جہاں فنکاروں کی ایک کھیپ دی ہے وہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں بھی نوجوانوں کو ترقی کی راہیں دکھائی ہیں۔ انھیں کامیاب زندگی گزارنے کی سوچ دی ان کی قدم قدم پر اس طرح رہنمائی کی جس طرح کسی خاندان کا کوئی بڑا اپنے چھوٹوں کو منزل تک پہنچنے کے لیے سنگ میل دکھاتا ہے۔
کسی مقرر نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت نے یاور مہدی کی خدمات پر انھیں کسی قسم کے ایوارڈ سے نہیں نوازا اس بات پر قاسم جلالی نے جلال میں آتے ہوئے کہا کہ یاور مہدی کو حکومت کے کسی ایوارڈ اور تمغے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ان کی شخصیت کا سب سے بڑا ایوارڈ یہی ہے کہ ان کا کام پاکستان کی پہچان بنا رہا اور آج ساری دنیا میں ہزاروں نوجوان کامیاب زندگی گزار رہے ہیں جن کے سرپرست یاور مہدی صاحب تھے۔
وہ فن پرست بھی تھے اور فنکار گر بھی تھے۔ ان کی شاگردی میں آگے بڑھنے والے فنکار ٹیلی وژن اور فلموں کے ایوارڈ یافتہ فنکار ہیں۔ یہی ان کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے اس تقریب سے راقم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یاور مہدی ریڈیو کی ایک تاریخ تھے ،ایک دور تھے اور بلاشبہ انھیں ریڈیو کا آئی کون کہا جاتا ہے اس خطاب کے وہی حق دار ہیں۔
یاور مہدی کی شخصیت پر دلچسپ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان میں چار بھائی بہت مشہور ہوئے۔ ایک سیاست میں الطاف بھائی، دوسرے ادب میں منو بھائی، تیسرے فلم کی دنیا میں علی بھائی (محمد علی) اور چوتھے ریڈیو کے یاور بھائی۔ اس خوبصورت تکرار پر محفل میں کافی دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ پھر راقم نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ یاور بھائی ریڈیو کی دنیا میں صرف ایک ہی تھے، ان کے بعد اب کوئی دوسرا یاور بھائی نہیں آئے گا۔
ریڈیو ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ ریڈیو ان کا گھرآنگن تھا اور بقول ان کی بیگم صاحبہ کے یاور مہدی نے ریڈیو سے شادی کرلی ہے۔ ریڈیو ان کی دوسری بیگم اور پہلی بیگم کی سوکن کا کردار بن چکا ہے۔ یاور مہدی کی شخصیت میں ایک سحر تھا، ایک طلسم تھا جو بھی ان سے ایک بار ملتا تھا وہ پھر انھی کا ہو جاتا تھا، پھر ایک قطعہ پر اپنی گفتگو کا اختتام کیا:
وہ ایک دور تھا اور ایک شخصیت بھی تھا
کہ جس کی ذات سے چشمے وفا کے پھوٹتے تھے
مسرتوں سے بھرا تھا خلوص کا وہ شجر
کہ سارے دوست محبت کا ثمر لوٹتے تھے
اس تقریب کے آخر میں مشہور مصور ندیم سبطین نے شگفتہ فرحت اور اویس ادیب انصاری کی خدمات پر ایک خوبصورت پورٹریٹ پیش کیا اور پھر اویس ادیب انصاری نے تقریب کے تمام شرکا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور آخر میں ان کے لیے مغفرت کی دعا کی گئی، اللہ ان کے درجات بلند کرے۔( آمین۔)