سوچیں اشیاء ہیں
قید کی اس کوٹھری کی طرح جہاں روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی کسی مقبرے کی طرح جو زندگی کو مسترد کرتا ہے
جہاں ہمیں دیگر خوش فہمیاں اور ہیں،ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہم سوچتے ہیںاور یہ بھی کہ کیاخوب سوچتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جویہ سوچتے ہیںکہ وہ سوچتے ہیںان کی یادداشت ہی جاچکی ہے جنہیں یہ تک یاد نہیں ہے کہ وہ کون ہیں؟کیا ہیں؟وہ چاہتے کیاہیں ؟ان کی مرضی کیا ہے ؟ان کے حقوق کیاہیں؟ان کی ضروریات کیا ہیں؟ ان کے فرائض کیاہیں ؟پھر بھی اس بات پر بضد رہتے ہیں کہ وہ سو چتے ہیں۔
واہ صاحب واہ کیاخوب ہیں،ہمارے لوگ آپ اس وقت سو چتے ہیںجب آپ سچ اور جھوٹ ، غلط اور صحیح میںامتیا ز کرتے ہیں۔سوچنے کے معنی انتخاب کرنا ہیںآپ کو ہاں یا نہیں کہنے کااختیا ر حاصل ہے۔ آپ کو یہ اہلیت حاصل ہے کہ قبول کریں یا مسترد کریں جو بھی اشیاء صحیح ہیں جو بھی اشیا درست ہیںجو بھی اشیا ء منصفانہ ہیںجو بھی اشیاء خالص ہیںجو بھی اشیا ء ایمان دارہیں۔
پرنٹائس امریکہ کے شہر ساگ ہاربر میں1834 میں پیدا ہوئے انہیں اپنے وقت کا عجیب ترین آدمی کہاجاتا تھا جس نے ہوائی جہاز اور ریڈیو کا تصور پیش کیا اور ذہنی ٹیلی پیتھی کی نہ صرف پیشگوئی کی بلکہ وہ اس کی پریکٹس بھی کرتے تھے۔ آج بھی ا ن کی قبر پر ایک بڑا کتبہ لگا ہوا ہے، جس پر تحریر ہے ''سوچیں اشیاء ہیں '' ۔ وہ اشیا جو عزت کے قابل ہیں جو محبت اور پوجا کے لائق ہیں لیکن ہم اس بات کو کیوں کر سمجھ سکتے ہیں۔
اس بات کو وہ ہی سمجھ سکتے ہیں جو سوچتے ہیں اور ہم 22 کروڑ تو بس چوراہے پر بیٹھے چاروں طرف سے آنے والی چیختی اورچلاتی آوازوں کو سن رہے ہیں۔ایک سے ایک سریلی آوازیں ایک سے ایک بھدی آوازیں چاروں طرف سے بس آوازیں ہی آوازیں، پکار ہی پکار ،بلاوہ ہی بلاوہ، کہیں سے یہ آواز آرہی ہے۔
یہ ملک ہمارا ہے یہاںہمارا نظام آئے گا کوئی چلا رہاہے لبرل ازم آئے گا کوئی چیخ رہاہے یہاں طالبان کا نظام آئے گا کوئی چلا رہا ہے، داعش سب سے بہتر ہیں ،کوئی چیخ رہا ہے یہ زندگی بے کار ہے ابدی زندگی کی فکر کرو کوئی چلا رہا ہے صرف میں مسلمان ہوں ،باقی نہیں ہیں۔ اتنے میں ایک نئے صاحب آکر چلانا شروع کردیتے ہیں سب کے سب میرے جیسے مسلمان نہیں صرف میں ہی مسلمان ہوں میراکہنا مانو کوئی کہہ رہا ہے مسئلوں کا حل نئے صوبے میںہے تو کوئی کہہ رہا ہے صوبے میں نہیں بلکہ نئے صوبوں میںہے ۔
اتنے میں نیا شورپیداہوجاتاہے کہ تبدیلی آرہی ہے لوگ چاروں طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں کہ کہاں سے تبدیلی آرہی ہے۔ اسی دوران ایک نیا شور اٹھتا ہے، ملک میںخو شحالی آگئی ہے اور لوگ چاروں طرف خو شحالی کو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں چاروں طرف بڑاہی مزیدار ، دلچسپ کھیل تما شا لگا ہوا ہے ہر نئے شور پر یہ جو 22 کروڑ ہیںدل کھول کر تالیاں بجانا شروع کردیتے ہیںاور پھر دوسرے نئے شور پر سو چے سمجھے بغیر اچھلنا کودنا شروع کردیتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ سب سے انفرادی طور پر ان کے متعلق پوچھیں تو سب متفقہ طور پر یہ ہی کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیںلیکن جب بھی نیا شور اٹھتا ہے تو سب سے پہلے اس کی طرف دوڑ لگانے والوں میںوہی شامل ہوتے ہیں۔یہ جو22کروڑ ہیں سب کی سن رہے ہیںسب کو دل کھو ل کر داد دے ر ہے ہیں،لیکن اس سارے شور شرابے میںوہ کہیں گم ہو گئے ہیںکہیں کھو گئے ہیں اور کسی کو بھی وہ یاد تک نہیں ہیں کوئی بھی ان کے متعلق جاننے تک کے لیے تیار نہیں ہے سب کوبس اپنی اپنی پرفار منس کی پڑی ہوئی ہے۔
سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر شور مچانے میںلگے ہوئے ہیں، اس سے زیادہ دہشت ناک منظر نامہ کوئی اور ہوہی نہیں سکتا ہے جس میں22 کروڑ جیتے جاگتے انسان محض تماشائی بنے ہوئے ہیںجو سب کچھ کرسکتے ہوں لیکن کچھ بھی نہیں کررہے ہوں جنہیں چند سو وہ لوگ جو صرف اپنے معاشی مفادات کے غلام ہیںاپنی اپنی مفادات کی گاڑیوں کا بیل بنانے میں مصروف ہوں اوربیل بھی وہ جو کبھی اپنے متعلق نہ سو چے جو کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے بس سر جھکائے صرف مفادات کی گاڑی کو کھینچتا رہے۔
اب سارا قصور کس کا ہے یہ بتانے کی کوئی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر آپ خوشی خو شی بیل بننے کے لیے تیار اور راضی ہیںتو ظاہرہے گاڑی والے کو کسی پاگل کتے نے تھوڑی کاٹا ہے جو وہ آپ کو بیل بننے کے لیے منع کر ے گا، یا روکے گا یا آپ کو سیدھی راہ دکھائے گا جب آپ اپنے لیے نہیں سو چ رہے ہیں،جب آپ دوسروں کو اپنے سارے فیصلے کرنے کااختیار دے رہے ہیںتو پھر وہ آپ کو توبیل ہی بنائیں گے ،سر پر تھوڑی بٹھائیں گے۔ اصل میںاصل مسئلہ ہی سو چنے کا ہے لیکن اس کے لیے پہلے یادداشت کا واپس آنا ضروری ہے ۔
ایک ہاسدی قصے میں لکھا ہے کہ نیک نامی کے مالک ریبائی بعل ، شم ، تو نے جس کو ہشیت کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ایک اشد ضروری مگر خطرناک مہم شروع کی تھی۔ تمام انسانیت کے لیے جو بڑی مشکل میںگرفتار تھی اورجن کو بہت ساری برائیا ں گھیرے ہوئے تھیں ،ان کو فوراً بچایاجانا تھا تاریخ میںدخل اندازی کے لیے ہشیت کو سزا دی گئی تھی ایک دور افتادہ جزیرے پر اپنے ایک مخلص ملازم کے ساتھ جلاوطنی کی مایوسی کے عالم میں ملازم نے اپنے آقا سے درخواست کی کہ وہ اپنی پراسرار طاقت سے دونوں کو گھر واپس پہنچا دے۔ ناممکن !
ہشیت نے جواب دیا ''میری طاقت مجھ سے چھین لی گئی ہے تو آپ کوئی دعا کیجئے ،مغفر ت کی دعاکیجئے یا کوئی معجزہ کیجئے '' میںسب کچھ بھول گیاہوں '' اور پھر دونوں ساتھ مل کر رونے لگے پھر اچانک آقا اپنے ملازم سے مخاطب ہوا ''ذرا مجھے دعا یادکرائو کوئی بھی دعا '' دیکھیے اگر میںکرسکا ملازم نے جواب دیا '' میں خود بھی سب کچھ بھول چکاہوں'' سب کچھ بالکل سب کچھ جی ہاں سوائے ...! سوائے کیاسوائے حروف کے ہشیت یہ سنتے ہی خوشی سے چلایا'' توپھر تمہیں انتظار کس بات کا ہے تم حروف کی تلاوت شروع کرو اور میںتمہارے ساتھ ساتھ دہراتا جائوں گا ''۔ اور پھر دونوں جلا وطنوں نے تلاوت شروع کی پہلے سر گو شی میں پھر ذرا اونچی آواز میں ''الف ، بے ، جیم ، دال اوریہ عمل باربار کرتے رہے ، ہر بار زیادہ قوت سے زیادہ گرم جو شی سے حتیٰ کہ ہشیت میںاس کی طاقتیں عود کرآئیں اور اس کی یاداشت واپس آگئی ۔
یاداشت کے بغیر ہمارا وجود بانجھ اور تاریک ہوجاتا ہے قید کی اس کوٹھری کی طرح جہاں روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی کسی مقبرے کی طرح جو زندگی کو مسترد کرتا ہے جب آپ کی یاداشت واپس آجائے تو پھر سو چنا یہ ملک کیوں بنایاگیا تھا ،اس کے مقاصد کیاتھے ۔ بانیا ن پاکستان کے ذہنوں میںنئے ملک کا تصور کیا تھا ،انھوں نے اپنی تقاریر میں کیا کہا تھا اور یہ بھی سوچنا کہ کیاساری زندگی تمہیں بیل ہی بنے رہناہے یا تمہیں اپنی زندگی کامالک بننا ہے اور جنہوں نے تمہیں بیل بنا رکھا ہے کیاانہیں سزا دینی ہے یا نہیں۔