میرا اسکول فیلو
بھٹو صاحب کے برابر لگی تصویر پر نظر پڑی جس میں پاکستان کا نیو کلیئر سائنسدان ڈاکٹر جاوید ارشد مرزا تھا
کراچی:
گزشتہ ہفتے کالم لکھنے سے پہلے میری نظر اپنے ٹی وی روم کے داخلی دروازے کے اندر پڑی جہاں مجھے بھٹو صاحب کی فریم میں لگی تصویر نظر آئی تھی تو میری یاداشت نے فوراً ان کا پیچھا کیا تھا اور انھیں کے حوالے سے کالم مکمل ہو گیا تھا۔
آج میں ٹی وی روم میں داخل ہو رہا تھا تو بھٹو صاحب کے برابر لگی تصویر پر نظر پڑی جس میں پاکستان کا نیو کلیئر سائنسدان ڈاکٹر جاوید ارشد مرزا تھا۔ اس کیساتھ ہی مجھے جاوید ارشد سے اپنے تعلقات کی یاد آگئی۔ جاوید اور میں گورنمنٹ ہائی اسکول سیالکوٹ میںپانچویں جماعت سے دسویں تک کلاس فیلو رہے تھے۔ یہ تصویر لا ہور جمخانہ کلب کے باہر 22 سال پہلے لی گئی تھی۔ تب جاوید پاکستان کا نیو کلیئر سائنسدان تھا اور میں نے پندرہ ، بیس مہمانوں کو رات کے کھانے پر دعوت دے رکھی تھی۔
جاوید ارشد کی تصویر کے دائیں طر ف میں ہوں اور اسکے بائیں ہاتھ کرکٹر عمران خان ہے۔ پاکستان نیو کلیئر پاور بنا تو اس میں پانچ چھ دیگر سائنسدانوں کے علاوہ ایک ڈاکٹر جاوید ارشد تھا۔ اسکول کے دنوں کے کچھ اور دوست سلیم مرزا ، ڈاکٹر علوی، سعید احمد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور شفقت بخاری سینیئر بینکر بھی شامل تھے ۔
اسکول کے دنوں میں جس طرح اور اسٹوڈنٹس نے استادوں سے ہاتھوں پر چھڑیاں کھائیں اسی طرح باوجود نہایت قابل ہونے کے ڈاکٹر جاوید ارشد نے بھی استاد کی مار کھائی۔ ڈاکٹر جاوید ارشد نے تین ملکوں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لیں لیکن یہ اسکی ذاتی قابلیت اور دلچسپی تھی کہ اس کا شمار پاکستان کے نیوکلیئر سائنسدانوں میں ہو تا ہے۔ وہ دوستوں میں بیٹھا ہوا بھی اس مو ضوع پر بات کر نے سے گریز کر تا ہے اور جب وہ سروس میں تھا تو دوست احباب کی محفلوں میں بھی کبھی نہیں جاتا تھا۔
جب میں نے دیکھا کہ مہمانوں میں عمران خان موجود نہیں ہے تو اسے ٹیلی فون کیا، اس نے جواب دیا کہ اس کی موٹر ایک عزیز لے گیا ہے جس وجہ سے وہ نہیں پہنچ سکا۔ اس کا گھر جمخانہ کلب سے زیادہ دور نہیںاس لیے میں اور جاوید اقبال کارٹونسٹ اپنی گاڑی پر گئے اور عمران خان کو اس کے گھر سے لے آئے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر جاوید ارشد کو سر کار نے PCSIR کا چیئر مین بنا دیا۔ اور اس عہدے پر وہ دو سال تک رہا۔PCSIR کا مطلب ہے Pakistan Council of Scientfic and Industrial Research اور اس کے چیئر مین کا عہدہ قابل ترین لوگو ں کو دیا جاتا ہے۔ جاوید ارشد نے اس عہدے پر رہ کر بھی بڑا نام کمایا۔ یہاں سے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد جاوید ارشداسلام آباد میں مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے کے لیے بلا یا جا تا ہے۔اس طرح وہ آج بھی فارغ نہیں ہے اور اپنی قابلیت یونیورسٹی طالب علموں میں تقسیم کرتا رہتا ہے۔
اتفاق سے آٹھ ، دس دوست جو گورنمنٹ ہائی اسکول میں اکٹھے تعلیم حاصل کر تے تھے لاہور میں موجود ہیں اور مہینے دو مہینے کے بعد اکھٹے ہو تے ہیں۔ اُن کو کھانے پر بلا کر اسکول کے دنوں کو یاد کرنے کیلیے انتظام عبدلمعتی بخاری کرتا ہے، وہ بنک کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوا اور اپنے تین کنال کے پلاٹ پر اس نے شادی گھر بنا کر کاروبار شروع کر رکھا ہے۔
اسی شادی ہال کے ایک کمرے میں بخاری کھانے کا اہتمام کرتا ہے اور تمام پرانے اسکول فیلوز کو دعوت دیتا ہے۔ ان ساتھیوں میں ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد سعید ہے، دوسرا شفقت بخاری سابق سینئر بینکر ہے اور سلیم مرزا کرکٹر ہے۔ باقی دو تین ساتھی بھی اعلیٰ پوزیشن پر رہے ہیں جن میں ایک ڈاکٹر علوی ہے جس نے انجینئرنگ یونیورسٹی کی اعلی ٰ پوزیشن پر کام کیا تھا۔ باقی دوست بھی خدا کے فضل سے اعلیٰ اور اہم پو زیشنوں پر رہے۔
ڈاکٹر جاوید ارشدنے اگرچہ تین بیرونِ ملک یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ کی لیکن وہ اپنی نیوکلیئر سائنسدان کی پو زیشن کے بارے میں پبلک میں نہ بات کر نا پسند کرتا ہے نہ محفلوں میں جاتا ہے ۔
جب میں نے اُسے لاہور جم خانہ میں بائیس سال پہلے ڈنر پر بلایا تھا تو اس نے مجھے سختی سے منع کیا تھا کہ کلب کو اس کی پو زیشن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہونا چاہیے ۔ اب بھی ہفتہ میں ایک آدھ بار بات ہوتی ہے تو وہ مجھ سے اپنی سابقہ نیو کلئیر سائنٹسٹ سے مطلق بات کرنے سے گُریز کرتا ہے۔