سندھ اور برصغیر کا عظیم ہیرو سورھیہ بادشاہ

ایسے درجنوں عظیم ہیروز ہوںگے۔ بھگت سنگھ، سورھیہ بادشاہ ، سبھاش چندر بوس جو ہم سے انصاف کی نگاہ مانگتے ہیں


جاوید قاضی March 20, 2022
[email protected]

سوچا تھا اپنے اس سلسلے کو جو آپ کی نظر اسی دن ہر ہفتے کرتا ہوں، اسے صرف اور صرف تاریخ تک محدود رکھوں، ہماری تاریخ جو کہیں کھو گئی ہے؟ کھو کیا گئی ہے؟ ہم نے دراصل خود کھوئی ہے اور اب تو ہمیں کچھ خبر بھی نہیں ہے، جنگ آزادی میں وہ بھی شامل تھے جن کا مسلم لیگ سے تعلق نہ تھا۔ وہ نہ صرف انگریز سے لڑے بلکہ شہید بھی ہوئے اور تنہا نہیں اپنے سیکڑوں مداحوں کے ساتھ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔

آج میں اس باغی کا ذکر کرنا فرض سمجھتا ہوں ، جس کو خود سندھ کے لوگ بھی وہ مقام نہ دے سکے جو اس کا حق بنتا تھا۔ ہم پیر پگاڑا کا نام تو بہت سنتے ہیں لیکن اس باغی پیر پگاڑا کے بارے میں نہیں جانتے جو 20 مارچ 1943 کو 33 سال کی عمر میں انگریز کے بنائے ہوئے بغاوت کے مقدمے سے ملی سزائے موت کے نتیجے میں حیدرآباد جیل کے پھانسی گھاٹ پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور یوں پھر ایک طویل پس منظر ہے ان سیکڑوں حروں کا جو اپنے اس پیر پگاڑا کے حکم پر جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ انگریز سامراج کو للکارنے والی اس تحریک کو ''حر تحریک'' کے نام سے تاریخ یاد کرتی ہے جس کے سالار پیر پگاڑا صبغت اللہ شاہ راشدی عرف سورھیہ بادشاہ تھے۔

بارہ سال کی عمر میں سورھیہ بادشاہ اپنے گرد ونواح کوگہری نظر سے دیکھتا ہے۔ اسے ہر طرف غلامی کے طوق نظر آتے ہیں، ہر طرف غربت اور افلاس دکھائی دیتا ہے۔ انگریز سامراج اس انتہائی اثرو رسوخ والی روحانی شخصیت کو باریک بینی سے دیکھ رہا تھا۔ جس کے حر (مرید ) بہت شورش پسند اور انگریز سامراج سے نفرت کرتے تھے۔

انگریز سامراج نے پھر ایک جھوٹا مقدمہ درج کیا، سورھیہ بادشاہ کو بائیس سال کی عمر میں آٹھ سال کی سزا ہوئی اورجیل بھیج دیے گئے تاکہ ان سے انکے حروں کا ملنا جلنا کم ہو۔ بہت سارا وقت بنگال کی جیلوں میں گزارا وہاں ان آزادی کے متوالے بنگالیوں سے ملے جو سبھاش چندر بوس کے پیروکار تھے اور اس طرح انگریز کو سورھیہ بادشاہ کو بنگال جیل میں رکھنا مہنگا پڑ گیا۔

جیل کاٹ کے واپس لوٹے تو اپنے خاص حروں کو بنگال ٹریننگ کے لیے بھیجا ۔ پہلی ٹرین جو ٹنڈوآدم میں ڈی ریل کی گئی، یہ ان کے حروں کا کارنامہ تھا، انگریز بھانپ گیا۔ جب انگریز دوسری جنگ عظیم میں کمزور ہوا اورکانگریس نے ''ہندوستان چھوڑو'' (quit india movement) تحریک شروع کی تو سندھ میں حروں نے اپنی حر موومنٹ تحریک شروع کی ۔

سورھیہ بادشاہ دوسری مرتبہ گرفتار ہوئے۔ حر پاگل ہوگئے۔ خیرپور ریاست کے آئی جی پولیس نے اسے گرفتار کیا گیا۔ سید غلام رسول شاہ جو ہمارے گائوں کے اور ہمارے پڑوسی تھے،اس کو نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے ۔ سورھیہ بادشاہ نے جیل سے بغاوت کرنے کے واضح احکامات دے دیے اور اس طرح سندھ میں ''حر موومنٹ'' شروع ہوتی ہے۔

سیکڑوں حر پھانسی کے پھندے پر وارے گئے۔ ایچ ٹی لیمبرک حیدرآباد کے کمشنر تھے، جن کو حر تحریک کوکچلنے کا کام سونپا گیا۔ برصغیرکی کسی جگہ پر اگر پہلا انتظامی مارشل لاء لگا تو وہ سانگھڑ تھا اور پھر Sind Suppression of Hur-Outrages Act 1942 کے ذریعے انگریز نے حر لفظ کے معنی دہشت گرد قرار دیے۔

اس زمانے میں ایئر مارشل اصغر خان انڈین ایئر فورس میں پائلٹ تھے۔ حکم ہوا کے جہاز اڑاؤ اور سانگھڑ کے نواح میں حروں پر بمباری کرو۔ یہ بات خود اصغر خان نے مجھے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتائی کہ جب وہ جہاز بمباری کیلیے حیدرآباد سے اڑا کر وہاں پہنچے تو انھیں درجنوں بیل گاڑیاں نظر آئیں جن پر بچے اور خواتین بیٹھی تھیں ، جہازکو پلٹایا اور واپس چلے آئے اور انگریزکا حکم ماننے سے انکار کردیا ، اس بات پر اصغر خان کا کورٹ مارشل ہوا۔ اصغر خان نے کورٹ مارشل کا زمانہ سکھر جیل میں گذارا۔

انگریز نے سندھ کے سارے حروں کو، بچوں اور عورتوں سمیت کیمپوں میں منتقل کیا۔ بھائی بہن سے بچھڑگئے۔ خاندان کٹ گئے اور یہ عمل دس سال تک لاگو رہا۔ آئے دن کسی نہ کسی حرکو پھانسی دی جاتی تھی۔ میرے والد نے 1948 میں مولانا حسرت موہانی کو نواب شاہ آنے کی دعوت دی جو یہاں آئے اور ان حروں کی کیمپوں کا دورہ کیا ان کی حالت زارا دیکھی اور یہ روداد خود پارلیمنٹ میں بیان بھی کی۔

سندھ کی اس حر تحریک میں عورتوں کا کردار بہت عظیم و شاندار رہا، وہ مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑیں۔ یہ حر تحریک برصغیرکی تمام تحاریک میں اپنا مقام اونچا کچھ اس طرح بھی رکھتی ہے کہ جو اس جنگ میں خواتین مردوں کے ساتھ کھڑے ہوکے لڑیں، وہ بات کسی بھی برصغیرکی تحریک میں اتنی واضح طرح نہیں ملتی۔

کہنے کا مقصد یہ کہ ہمیں بھگت سنگھ کے حوالے سے تو بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے لیکن اس شخص کو سب نے بھلا دیا۔ یہاں اس لیے کہ وہ مسلم لیگ سے نہ تھے حالانکہ وہ توکانگریس سے بھی وابستہ نہ تھے۔ جب بلاول بھٹو نے سندھ کی تاریخ سے ''ہوشو شیدی ''کو اٹھایا تھا جس نے 1843 میں چارلس نیپیئر سے جنگ لڑی تھی اور ''مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں '' کا نعرہ لگایا تھا مگر پیپلز پارٹی نے سورھیہ بادشاہ کو وہ مقام نہ دیا حالانکہ ان کی شہادت اور جدوجہد سندھ کی تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔

سورھیہ بادشاہ کے دونوں بیٹوں کو انگریز نے اپنی کسٹڈی میں لے لیا جن کی عمر اس وقت تیرہ اور چودہ سال تھی، کچھ عرصہ علی گڑھ اور باقی دس سال لندن میں رکھا۔ ان کی تعلیم کیلیے ٹیوٹر اور نصاب کا انتخاب خود کیا، یہ لیاقت علی خان تھے جو ان کو واپس لائے ۔قصہ مختصر 33 سالہ اس آزادی کے عظیم ہیرو سورھیہ بادشاہ کو پھانسی دینے والا کام کرنل کارگل کو سونپا گیا جو سورھیہ بادشاہ کا ان دنوں میں بہت گہرا دوست بھی بن گیا تھا اور صرف اس شخص کو سورھیہ بادشاہ سے ملنے کی اجازت تھی، وہ آپس میں شطرنج بھی کھیلتے تھے۔ یہ ساری بات کارگل نے خود تحریر بھی کی ہے اور بلاخر جب پھانسی دینے کا دن آیا تو رات کو دونوں نے پہلے شطرنج کھیلی جس میں کارگل کو مات ہوئی۔

کارگل حیران تھا کہ اس چہرے پر ایک لمحے کو بھی موت کا ڈر نہیں۔سورھیہ بادشاہ نے بعد ازاں نماز پڑھنے کی مہلت مانگی اورکارگل کو ہنس کر کہا کہ'' اب تم اپنا کام کر سکتے ہو'' اپنے پاؤں پر چل کر تختہ دار پر گئے اور اسی طرح اس آزادی کے متوالے نے وطن کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔ 33 سال کی عمر میں دس سال پابند سلاسل رہا۔ اس کی حر تحریک نے جو آزادی کا نعرہ دیا تھا وہ یہی تھا کہ ''وطن یا کفن'' اور اس طرح اس شخص نے آزاد وطن نہ ملنے پر کفن کو لباس جانا۔

انگریز نے اسکے جسد خاکی کو تو پایا مگر پریشانی یہ تھی کہ اسے اب دفنائے کہاںکیونکہ اسکی قبر اسکے زندہ ہونے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی تھی اور اسی طرح آج تک یہ کسی کو خبرنہیں کہ اس باغی کی قبرکہاں ہے۔

ایسے درجنوں عظیم ہیروز ہوںگے۔ بھگت سنگھ، سورھیہ بادشاہ ، سبھاش چندر بوس جو ہم سے انصاف کی نگاہ مانگتے ہیں۔ خود سبھاش چندربوس کو توکانگریس نے بھی اپنی صفوں سے الگ کردیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔