او آئی سی کانفرنس خوش آیند مگر حاصل کچھ نہیں
او آئی سی یہ اعلامیہ جاری کرے کہ اسرائیل سے پوری مسلم اُمہ اُس وقت تک بائیکاٹ کرے گی جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا
ISLAMABAD:
پاکستان آج اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کے 48ویں وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔او آئی سی کے رکن اور مبصر ممالک کے وزرائے خارجہ اور اعلیٰ شخصیات وزرائے خارجہ کے کونسل اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ وہ بطور مہمان اعزازی 23مارچ 2022کو یوم پاکستان پریڈ کا بھی مشاہدہ کریں گے۔
اس اجلاس میں سیاسی، سیکیورٹی، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں مسلم دنیا کے سامنے مواقعے اور چیلنجوں کو ڈسکس کیا جائے گا۔جیسے فلسطین' افغانستان اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ دیرینہ یکجہتی اور حمایت کی توثیق کی جائے گی۔بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ اور ایس ڈی جیز کے حوالے سے پیش رفت میں موسمیاتی تبدیلی، ویکسین کی عدم مساوات اور زمین کے کٹاؤ کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال ہوگا۔ گزشتہ اجلاس بھی پاکستان میں منعقد ہوا تھا مگر اُس میں کورونا کی وجہ سے متعدد شرکاء نے آن لائن ہی شرکت کی تھی لیکن اس مرتبہ سبھی وزرائے خارجہ اپنے اپنے ملک کی نمایندگی کے لیے پاکستان میں موجود ہوں گے۔
ادھر ان دنوں اسلام آباد کی سیاسی فضا بھی بہت کشیدہ ہے۔ سیاسی محاذ آرائی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔اپوزیشن اور حکومتی رہنمایان اشتعال انگیزی پھیلانے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ بہر حال ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ وزرائے خارجہ اجلاس ایک غیر معمولی ایونٹ ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جو معاشی طور پر کمزور ہے۔
اس طرح کے ملک میں دنیا کے امیرممالک کے وزرائے خارجہ کا جمع ہونا ایک اعزاز کی بات ہے۔کاش ملک کے سیاسی حالات ایسے ہوتے کہ حکومت اور اپوزیشن اس معاملے میں ایک ہوتے۔ وزیراعظم یا صدر کی طرف سے دیے جانے والی استقبالی تقریبات میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا۔اس طرح دنیا میں اتحاد اور اتفاق کا پیغام جاتا۔اسلام آباد میں قائم اسلامی ممالک کے سفارت خانے لمحے بہ لمحے اپنی حکومتوں کو پاکستان کے بحران کے بارے میں آگاہ کر رہے ہوں گے۔ بے یقینی کی موجودہ کیفیت میں اوآئی سی وزرائے خارجہ بھی سوچتے ہوں کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ او آئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوتو جائے گا لیکن وزیراعظم عمران خان سمیت کوئی بھی پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ اس میں شرکت کرسکے گا اور نہ ہی اسے پاکستان کے لیے مفید بنایاجاسکے گا۔ کاش! پیپلزپارٹی، نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام حالات کی نزاکت کا کچھ خیال کرتیں اور چند دن اور انتظار کرلیتیں۔تاکہ ہم اوآئی سی کانفرنس کے ثمرات سمیٹ سکتے۔
بہرکیف اُمید ہے کہ اس کانفرنس میں معقول فیصلے کیے جائیں گے جس کے بعد مسلم اُمہ کی گرتی ہوئی ساکھ سنبھل سکے گی، کیوں کہ اس سے پہلے اس تنظیم کی جانب سے جتنے بھی فیصلے کیے گئے اُن کا معیار یہ تھا کہ اُس میں سے99فیصد آج بھی زیر التوا ہیں۔ اور پھر یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ پلیٹ فارم دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اجتماعی آواز ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے مسائل کو اُجاگر کرنے، انھیں حل کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس تنظیم کے بڑے بڑے ممالک خود مختار ہونے کے بجائے مغربی قوتوں کی چھتر چھایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، ترکی، ملائیشیا ، پاکستان اور انڈونیشیا وغیرہ جیسے امیر اور اسلحہ سے مالا مال ممالک بھی مغربی ممالک کے مرہون منت ہیں۔
معذرت کے ساتھ یہ تنظیم اسلام کے نام پر بنی لیکن اس میں موجود تمام اسلامی ممالک کے دوسرے ملکوں کے ساتھ مفادات جڑے ہیں اور یہ ممالک انھی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے اس تنظیم کی کارکردگی اُتنی اچھی نہیں ہے جتنی دنیا کی دیگر ذیلی تنظیموں کی ہے۔ او آئی سی کی غیر فعالیت کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس تنظیم میں موجود ہر ملک اپنے مفادات کی تلاش میں اجتماعی مفادات کی اہمیت کو کھو بیٹھا ہے۔
بہت پہلے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی ایک بہت موثر اور طاقتور پلیٹ فارم ہوا کرتی تھی، جس کا اجلاس ہوتا تو دنیا کے طاقتور ممالک کو کسی بڑے ردعمل کی فکر ہو جاتی۔ تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی کارگر ہوتی اور مغرب اپنی معاندانہ سوچ ، اپنی اوچھی حرکتوں اورخاص طور پر اسرائیل کی حمایت سے کسی حد تک ہاتھ کھینچ لیتا تھا، مگر پھر رفتہ رفتہ سب نے دیکھا کہ او آئی سی ایک بے جان تنظیم بن کر رہ گئی۔ اس کا ثبوت اس کے حالیہ اجلاسوں سے بھی مل جاتاہے۔ جن میں کشمیر، فلسطین جیسے دیگر متنازعہ علاقوں کے بارے میں صرف رسمی بات چیت کی گئی۔
حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ او آئی سی یہ اعلامیہ جاری کرے کہ اسرائیل سے پوری مسلم اُمہ اُس وقت تک بائیکاٹ کرے گی جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا، پھر بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی اسی قسم کا فیصلہ کرے، اور پھر افغانستان کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ تمام اسلامی ممالک افغانستان کی معیشت کی بحالی کے لیے مل کر کام کریں گے ، اور جو ملک ان فیصلوں سے پیچھے ہٹے اُس کے ساتھ تجارت ختم کردی جائے اور اُسے تنظیم سے نکال دیا جائے ۔ لیکن افسوس ایسے فیصلے محض خام خیالی ہیں، اس کی فی الوقت توقع بھی نہیں کی جاسکتی ۔