کیا نیا سیاسی مکالمہ ممکن ہوسکے گا
اس وقت ریاستی، حکومتی، سیاسی، انتظامی، قانونی اور اسٹیبلیشمنٹ کی سطح پر ایک بڑا ’’ مکالمہ ناگزیر ‘‘ ہوگیا ہے
پاکستان کا سیاسی بحران یا کسی ایک حکومت کی حمایت یا مخالفت سے جڑا ہوا نہیں ہے ۔ یہ ایک بڑا ریاستی یا طرز حکمرانی کی سطح کا بحران ہے جو تمام فریقین کی سطح پر ایک سنجیدہ اور بامعنی مکالمہ کا تقاضہ کرتا ہے۔
اس بحران کا حل نہ توکسی سیاسی تنہائی میں ممکن ہوسکے گا اور نہ ہی اس کا حل کسی ایک فرد یا ادارہ کے پاس موجود ہے۔اسی طرح ہم جس بحران سے گزررہے ہیں وہ آج کا پیدا کردہ بھی نہیں بلکہ ماضی سے لے کر آج تک جو ریاستی یا حکومتی سطح پر فیصلہ سازی کا عمل موجود تھا یا جو طور طریقے ہم نے بطور حکومت کی سطح پر اختیار کیے وہی ہمیں سیاسی گرداب میں پھنسائے ہوئے ہے۔پاکستان کی اس سیاسی تجربہ گاہ میں سیاسی اور غیر سیاسی قیادت نے کئی تجربات کیے لیکن اس کا نتیجے ایک مضبوط ریاست کے طور پر نہیں دیکھا جا سکا ۔
اس وقت بھی ملک میں ''حکومت بچاؤ یا حکومت گراؤ مہم'' عروج پر ہے۔ تمام سیاسی فریقین سمیت میڈیا کا ایک بڑا حصہ یہ ہی سمجھتا ہے کہ اس بحران کے نتیجے میں حکومت کو گرانے یا بچانے سے ہی حکمرانی کی سطح پر جو بحران ہے وہ ختم ہوسکے گا۔ حالانکہ حکومت برقرار رہے یا گھر بھی چلی جائے اور اس کے نتیجہ میں نئی حکومت بھی بن جائے ہم بحرانی کیفیت سے باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ جب قومی سیاسی بحران کو محض افراد یا اوپر کی سطح کے مسائل کی بنیاد پر نمٹنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے نتیجہ میں بحران کم نہیں اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ بحران کا جو بھی نتیجہ کسی کے حق میں یاکسی کی مخالفت میں آتا ہے تو اس سے بحران کی کئی اور نئی شکلیں جنم لیں گی جو ہمیں آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیلیں گی ۔
اصل بحران یہ ہے کہ ہمارے سیاسی فریقین کے سامنے ایک بڑا ایجنڈا ملکی سطح پر موجود مسائل سے نمٹنے کے لیے سیاسی ، سماجی ، معاشی ،قانونی یا انتظامی اصلاحات کا نہیں بلکہ ایک طاقت اور اقتدار کی جنگ کا ہے۔ اس جنگ میں کوئی بھی اصولی کارڈ کھیلنے کے بجائے جائز یا ناجائز طور پر اس جنگ کو اپنے حق میں جیتنا چاہتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اصول، نظریات یا سیاسی و جمہوری روایات کے مقابلے میں غیر جمہوری یا غیر سیاسی طرزعمل کی بالادستی زیادہ غالب نظر آتی ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ کون درست ہے اور کون غلط بلکہ اس سے بھی زیادہ سنجیدہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کھیل میں ذاتیات، کردار کشی ، تضحیک اور انتہا پسند رجحانات کو مضبوط کرکے اپنے ہی کمزور جمہوری نظام کو اور زیادہ کمزور کرنے کے کھیل کا شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ بن گئے ہیں ۔اس لیے جو بھی حالیہ سیاسی کھیل ہے اس کا جو بھی نتیجہ نکلے یہ اس ملک کی سیاست اور قانون کی حکمرانی کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
جمہوری روایات میں اہم بنیادی نقطہ مکالمہ ہوتا ہے۔ سیاست اور جمہوریت کی اہم خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اختلافات کو ذاتی جنگ بنانے کے بجائے اسے مکالمہ کی بنیاد پر ہی حل کرنے کی نہ صرف کوشش کرتا ہے بلکہ آگے بڑھنے کا راستہ بھی تلاش کرتا ہے۔لیکن یہاں سیاست اور جمہوریت کا نام نہاد کھیل مکالمہ کو کمزور کرنا اور سیاست میں موجود دروازوں کو بند کرکے معاملات کو بند گلی میں دھکیلنا ہوگیا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم معاملات کو سلجھانے کے بجائے اسے بگاڑنے کے کھیل میں زیادہ حصہ دار بن گئے ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں حکومت اور حزب اختلاف دونوں ایک دوسرے کے سیاسی وجود یا مینڈیٹ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ مکالمہ کا راستہ بند اور محاذ آرائی کا راستہ بڑھ گیا ہے اور ملک غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔
ایک طاقت ور طبقہ چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں یا وہ ریاست کے مختلف طبقات یا اداروں سے جڑا ہو وہی طبقہ مضبوط اصلاحات میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔یہ طاقت ور طبقہ ملک کو قانون اور جمہوری خطوط پر چلانے کے بجائے اسے اپنی مرضی پر چلانا چاہتا ہے۔ اس کے پاس اپنے مفادات کی جنگ میں جمہوریت،انسانی حقوق، آئین اور قانون کی پاسداری جیسے خوبصورت نعرے ہیں جسے یہ بڑا طبقہ ''بطور سیاسی ہتھیار'' کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ریاستی یا حکمرانی کے محاذ پر بحران ہے اس سے نکلنے کا کیا راستہ ہونا چاہیے ؟ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا یہ ہی حل ہے کہ جس انداز سے موجودہ ریاستی یا حکومتی یا ادارہ جاتی نظام چل رہا ہے اسے چلنے دیا جائے۔ اس طبقہ کے بقول نظام کی درستگی اسی نظام کے چلنے سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ سوچ اور فکر آج کے حالات میں درست نہیں۔ کیونکہ روایتی، فرسودہ خیالات اور پرانے طور طریقے یا پہلے سے موجود حکمرانی اور ادارہ جاتی انداز سے کچھ تبدیل نہیں ہوسکے گا۔
کینسر کے مرض کا علاج جب بھی ڈسپرین کی گولی سے کرنے کی ہم کوشش کریں گے تو علاج کی درستگی کم اور بگاڑ زیادہ ہوگا۔ ہمیں جو حکمرانی کے محاذ پر جن غیر معمولی مسائل کا سامنا ہے اس کا بڑا علاج بھی '' غیر معمولی اقدامات '' کی مدد سے ہی ممکن ہوسکے گا۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے سیکھنا ہوگا کہ انھوں نے ہماری طرز کے بحران کا کیسے مقابلہ کیا اور ان کی کیا حکمت عملی تھی۔لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم دنیا کے تجربات سے بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور ان ہی غلطیوں کو دوبارہ دہرانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں جو بحران کے حل میں رکاوٹ ہے۔
جمہوری و سیاسی نظام میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ ہی وہ فورم ہے جہاں مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر مسئلہ کے حل کی طرف پیش قدمی کی جاتی ہے۔ لیکن ہمارا مجموعی پارلیمانی نظام سمیت سیاسی نظام اپنی افادیت کھورہا ہے۔جب فیصلہ سازی کا عمل پارلیمنٹ میں نہیں ہوگا اور فیصلہ ساز پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے یا اس میں خود کو جوابدہ بنانے کے لیے تیار ہی نہیں تو یہ پارلیمانی نظام کیسے اپنی سیاسی ساکھ قائم کرسکے گا۔
ہم خود سیاسی لوگ بھی پارلیمنٹ کی بے حرمتی یا اسے کمزور کرنے کے کھیل میں برابر کے حصہ دار ہیں اور پارلیمانی نظام یا پارلیمنٹ کو بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا کردار مسئلہ کا حل نہیں بلکہ ہم مسئلہ کے بگاڑ کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔جو سیاسی کھیل تماشہ اس وقت چل رہا ہے اس میں کسی کے پاس کوئی متبادل نظام نہیں ہے جو ظاہرکرتا ہے کہ حالات کی سنگینی ہم سے کچھ اور تقاضہ کرتی ہے۔
اس وقت ریاستی ، حکومتی ، سیاسی ، انتظامی ، قانونی اور اسٹیبلیشمنٹ کی سطح پر ایک بڑا '' مکالمہ ناگزیر '' ہوگیا ہے ۔ ہمیں مل بیٹھ کر ایک بڑے روڈ میپ کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسا روڈ میپ جو ہمیں آگے بڑھنے کی ایک بنیادی نوعیت کا فریم ورک دے اور جس پر سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر سب فریقین کا اتفاق ہو۔
کیونکہ ہمیں داخلی،علاقائی اور خارجی سطح پرجن سنگین حالات کا سامنا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے موجودہ طرز عمل میں تبدیلی لائیں اور ایک نئی سوچ اور فکر کے ساتھ ملکی حالات کو درستگی اور اصلاح کی طرف لے کر جائیں اور اسی میں ملکی مفاد بھی ہے ۔