میٹرک کے بعد ساری تعلیم پرائیوٹ حاصل کی معروف ماہر لسانیات ڈاکٹر رﺅف پاریکھ کی کتھا
زبان کوئی بھی ہو، ٹھیک بولنی چاہیے، اسکول میں قافیہ پیمائی کی تو ریاضی کے استاد نے اصلاح کی
غلط اردو پر میری ڈانٹ سے بچنے کے لیے بچے انگریزی بولتے ہیں، فوٹو: ایکسپریس نیوز
PAKISTAN/
کراچی:
اُن کی والدہ ہندوستان سے آنے والے گجراتی رسائل سے انہیں کہانیاں پڑھ کر سناتیں ذرا بڑے ہوئے تو اپنے بھائی سلیمان پاریکھ کے بچوں کے رسائل اور کتب سے استفادہ کیا، کہتے ہیں کہ ساتویں جماعت میں ایک انگریزی لفظ کے معنی کے لیے "انگریزی سے انگریزی اور اردو" لغت میں لفظ کا ہم معنی انگریزی لفظ دیکھا، تو پھر اس کے معنی کھوجے وہاں دیکھا تو وہی پہلا لفظ پھر آگیا یہ پہلا موقع تھا، جب انہوں نے لفظوں اور معنی کے بارے میں غور کیا۔
یہ ذکر معروف ماہر لسانیات ڈاکٹر رﺅف پاریکھ کا ہے۔ انہوں نے 26 اگست 1958ءکو آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم باغ ہالار اسکول سے لی، پھرسیفیہ اسکول سے میٹرک کیا، جہاں ہم جماعتوں کے غلط الفاظ، تلفظ اور محاورے ٹھیک کرتے اور اردو کے استاد سید محمد طاہر سے داد پاتے، جو پٹنہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ اساتذہ کے احسان مند ڈاکٹر رﺅف پاریکھ بتاتے ہیں کہ انگریزی کے استاد الیاس رضوی جب کوئی لفظ بتاتے، تو اس کی اسم، صفت، فعل اور اس سے ملتی جلتی ہجے اور محاورے تک لکھتے چلے جاتے۔
آٹھویں جماعت میں جب رﺅف پاریکھ نے قافیہ پیمائی کی، تو ریاضی کے استاد محمد احمد قرار نے اُن کی اصلاح کی۔ طبعیات کے استاد شبیر حسین نے مطالعے کے لیے ادب کی بیس، پچیس کتب تجویز کیں۔ وہ بولے 'بہ جنگ آمد' تین دفعہ پڑھی اور ہر دفعہ الگ مزہ آیا۔ جس پر رﺅف پاریکھ نے اُن کا ریکاڈ توڑنے کے لیے یہ چھے مرتبہ پڑھی۔ کہتے ہیں سمجھنے کی شرط نہیں، آج کوئی نویں کا طالب علم وہ پڑھ بھی سکتا ہے؟
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ کہتے ہیں کہ میں نے لکھنا پڑھنا 'نونہال' سے سیکھا۔ اُن کی پہلی کہانی 1973ءمیں 'تعلیم وتربیت' میں شایع ہوئی، اس وقت ساتویں جماعت میں تھے۔ ایک بار 'نونہال' میں تحریر شایع نہ ہوئی، تو مسعود احمد برکاتی کے پاس پہنچ گئے، انہوں نے حوصلہ بڑھایا۔ 'جگنو' لاہور میں کہانیاں شایع ہوئیں، پھر بڑوں کے حصے میں بھی شایع ہونے لگے۔ تحریروں میں مزاح کا عنصر وہ اپنے تایا اور ماموں کی خوش گفتاری کا نتیجہ کہتے ہیں۔ انہوں نے 20 سال کی عمر میں ایک جاسوسی ناول لکھا اور فیروز سنز کو بھیجا، تو انہوں نے شایع کر دیا۔ 1978ءمیں 150 صفحات کا 400 روپے معاوضہ بھی دیا۔ چار ہزار نسخے چھپے، آج 300 ادبی کتب 10 سال میں بھی ختم نہیں ہوتیں، لیکن علمی کتب چھپنی چاہیں، یہ کام منافع کے لیے نہیں۔ کتابیں سستی رکھیں، اچھی کتب آج بھی بک جاتی ہیں، پچھلے برس مختار مسعود کی کتاب آئی، جس کے دو ہزار نسخے پندرہ دن میں ختم ہو گئے۔
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ کی دوسری کتاب بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ 'پٹاخوں کا ہنگامہ' کے عنوان سے 1987ءمیں شایع ہوئی، پھر 1992ءمیں مزاحیہ مضامین بہ عنوان 'ہوائیاں' اور بچوں کی کہانیاں 'نازک صاحب کا بکرا' چَھپیں۔ پی ایچ ڈی کا مقالہ 'اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی وسماجی پس منظر' چھپا۔ 2001ءمیں انگریزی مزاح کا اردو ترجمہ 'سرخاب کے پر' کے نام سے منظر عام پر آیا، اس کے بعد تدوین، تالیف اور ترجمے شمار کریں، تو اب تک35 کتب آچکی ہیں۔
میٹرک کے بعد کچھ مسائل کے سبب ساری تعلیم پرائیوٹ حاصل کی، جس کا انہیں افسوس بھی ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات کالج اور جامعات سے نکلنے والوں کی حالت دیکھ کر شکر پڑھتے ہیںکہ وہ اس سے 'محفوظ' رہے۔ کہتے ہیں باقاعدہ کسی سے ٹیوشن نہیں لی، تاہم جمیل الدین عالی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور افتخار عارف وغیرہ سے بہت کچھ سیکھا۔ پی ایچ ڈی کے دوران نظامی پریس (بدایوں) کے مونس نظامی کے توسط سے کتب منگائیں، یوں ہندوستان جائے بغیر ان کی تحقیقی ضروریات پوری ہوگئیں۔ کہتے ہیں کہ انجمن ترقی اردو، بیدل، غالب اور مشفق خواجہ کے کتب خانوں میں بہت بڑے خزانے ہیں۔
1988ءمیں عبدالرﺅف عروج کی تحریک پر 'حریت' کے ادبی صفحے پر لکھنا شروع کیا، پھر ان کے کالم ادارتی صفحے پر شایع ہونے لگے۔ ڈیڑھ دو سال بعد 'جسارت' میں پہلے ادبی اور پھر ادارتی صفحے پر کالم لکھے، یہاں قلمی نام 'محمد عبدالرﺅف' اپنایا، جسے مشفق خواجہ نے پہچان لیا۔ 'جسارت' میں تین سال صحت زبان پر کالم لکھا، جسے جمع نہ کر سکے۔
1988ءمیں لاہور کے ایک انگریزی اخبار میں 'اودھ پنج' پر ایک مضمون چھپا، 'ڈان' میں انہوں نے اس کا جواب لکھا۔ 2005-06ءمیں 'ڈان' نے اردو ہندی تنازع پر کتاب 'دی آرٹیفشل ڈیوائڈ' پر تبصرہ لکھوایا، جس کے بعد انہیں باقاعدہ لکھنے کی دعوت دی، وہ سنجیدہ نہ تھے، لیکن ایک دوست نے باور کرایا کہ لکھنا چاہیے، چناں چہ گزشتہ 11 برس سے ادبی موضوعات پر ہفتہ وار کالم کی صورت میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہم نے پوچھا کہ "عجیب نہیں لگتا کہ اردو کے آدمی ہو کر انگریزی میں لکھتے ہیں؟" کہتے ہیں میں نے اردو میں بھی لکھا اور اب بھی تحقیقی پرچوں میں لکھ رہا ہوں، صحت زبان پر 'جنگ' کے لیے بھی لکھ رہا ہوں۔
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ نے پہلی باضابطہ ملازمت حبیب بینک کے کتب خانے میں بطور لائبریرین کی، اُن کے رسالے کے مدیر رہے اور بینکنگ بھی پڑھائی، 1997ءمیں بحریہ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں مدرس رہے۔ 2003ءمیں 'ارو لغت بورڈ' کے مدیر اعلیٰ ہو گئے، جس کی ہر دو سال بعد دو مرتبہ تجدید ہوئی، جس کے بعد باقاعدہ تقرری ہونا تھی، لیکن نگراں حکومت آنے کے سبب معاملہ رک گیا، یوں 2007ءمیں شعبہ اردو، جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہو گئے، اب یہاں پروفیسر ہیں۔ کہتے ہیں پڑھے بغیر پڑھانا ممکن نہیں، پہلے بچے ایسا سوال پوچھ لیتے تھے کہ میں بھی کہتا کہ کل بتاﺅں گا، اب ایسا کم ہوتا ہے،آج ایم اے کا مقالہ لکھنے والے بہت سے طلبہ اپنے الفاظ میں ایک پیرا تک نہیں لکھ سکتے، اردو میں ایک شوشہ ایک لفظ ہوتا ہے، وہ شوشے تک درست نہیں لکھتے۔ البتہ پی ایچ ڈی کرنے والوں کا معیار بہتر ہے۔ وہ مصروفیات کے سبب پی ایچ ڈی کرنے والوں کے نگراں بننے سے گریز کرتے ہیں، ایک طالب علم کو ڈاکٹریٹ کراچکے، جب کہ تین ابھی کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ کہتے ہیں کہ بحریہ یونیورسٹی میں 'او' اور 'اے' لیول کے اکثر طلبہ غلط انگریزی لکھتے تھے۔ ہمارے اساتذہ کو بھی انگریزی نہیں آتی، وہ اردو میں پڑھا کر کہتے ہیں کہ پرچا انگریزی میں آئے گا۔ تعلیم کا بنیادی مقصد اختلاف رائے پیدا کرنا ہے کہ طالب علم خود غوروفکر کرے اور اپنی رائے دے۔ انگریزی میں رٹوا کر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ وہ نفس مضمون سمجھ ہی نہیں رہا۔ نئی بات ایجاد اور تخلیق کے لیے چیز کو سمجھنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ کی شادی 1983ءمیں ہوئی۔ اُن کے تین بیٹے ہیں۔ جنہیں اپنے رجحان کے مطابق میدان منتخب کرنے کی آزادی دی۔ دو بیٹوں نے 'سی اے' کیا، جن کی شادیاں ہو چکیں۔ چھوٹے صاحب زادے سائنس کے طالب علم ہیں۔ اُن کا موقف ہے کہ انگریزی یا اردو، جو زبان بولیں، پوری بولیں۔ یہ کون سی زبان ہے کہ "مِلک" پی لو "اسٹرونگ" ہو جاﺅ گے، "ہینڈ واش" کر لو۔ کہتے ہیں "غلط اردو پر ڈانٹ سے بچنے کے لیے بچے انگریزی بولتے ہیں۔ انہوں نے انگریزی میڈیم میں پڑھا، اب روزگار بھی انگریزی ماحول میں ہے۔ اس لیے زبان پر انگریزی چڑھ گئی ہے، وہ تو شکر ہے ان کے ابا کو انگریزی آتی ہے۔ "
"پھر اردو کس طرح آگے بڑھے گی؟" ہم نے پوچھا تو گویا ہوئے کہ ضروری تو نہیں کہ ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر ہی بنے۔ ہم نے اردو کے لیے اپنی مادری زبان چھوڑ دی، بڑے بیٹے کو بچپن میںوقت دیا، جس کے سبب اس میں کچھ شعری ذوق ہے، پھر ادبی مصروفیات آڑے آگئیں۔ بچے اردو سے زیادہ انگریزی ادب پڑھتے ہیں کہ بہ آسانی اور مفت دست یاب ہے۔ انہیں اگر اردو میڈیم میں داخل کرا دیتا تو کیا حشر ہوتا، وہاں کا نظام ہی ٹھیک نہیں۔ بیٹا ملازمت کے لیے لندن میں رہا، جس کے سبب پوتا انگریزوں کے لہجے میں انگریزی بولتا ہے۔ اب میں اسے اردو سکھا رہا ہوں، تو وہ اپنی ہر بات انگریزی اور اردو دونوں میں بتاتا ہے۔
رﺅف پاریکھ کہتے ہیںکہ فٹ پاتھ سے ہزاروں نادرو نایاب کتب خریدیں، اس وقت گھر میں سات، آٹھ ہزار کتب ہیں۔ وہ اپنی تین چار ہزار کتب مختلف کتب خانوں کی نذر کر چکے۔ اب صرف لسانیات اور زبان وغیرہ سے متعلق کتب رکھتے ہیں، کیوں کہ اب نہ رکھنے کی جگہ ہے اور نہ پڑھنے کا وقت۔
وہ انجمن ترقی اردو کے پرچے "قومی زبان" کی مجلس ادارت میں ہیں، جب کہ 'ادارہ یادگار غالب' میں معتمد کی ذمہ داری پر فائز ہیں۔ 'اوکسفرڈ' کی اردو کتب کی اشاعت پر رائے دینے والے ماہرین میں وہ بھی شامل ہیں۔ دسمبر 2017ءسے جامعہ کراچی کے "شعبہ تصنیف وتالیف" کے ڈائریکٹر بھی ہیں، وہ شعبہ تصنیف کے پرچے 'جریدہ' کی بحالیاور 'خط نسخ' میں شایع مطبوعات کو 'نستعلیق' میں شایع کرانا چاہتے ہیں۔
فورٹ ولیم کالج سے پہلے 'ہندی'کی دس بارہ کتابیں تھیں!
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ کہتے ہیں کہ ہندی کا آغاز 1800ءفورٹ ولیم کالج سے انگریز نے کیا، جب اردو کی ہزاروں کتب موجود تھیں، جب کہ 'ہندی کی فقط دس بارہ تھیں، گیان چند نے اپنی کتاب 'ایک بھاشا دو لکھاوٹ' بھی یہ اعتراف کیا ہے۔ ہندی لغت 'شبدکوش' فقط چار جلدوں میں ہے۔ کسی لفظ سے کوئی تعصب نہیں، ضرورت کے تحت ایسے لفظ بھی استعمال کیے جانے چاہئیں، جو 'ہندی' کہے جاتے ہیں، عام بول چال تو ان کی ہماری جیسی ہی ہے، لیکن اردو کا رسم الخط دیونا گری نہیں، عربی وفارسی ہے۔ اردو میں 99 فی صد 'فعل' ہندی سے ہیں، جن میں کھانا، پینا، مرنا جینا، آنا، جانا وغیرہ۔ باقی ایک فی صد عربی وفارسی سے بنے ہیں، جیسے قومیانہ، بخشوانہ، بخشنا، فلمانہ وغیرہ۔
'رومن' رسم الخط اردو کے خلاف سازش ہے!
رومن رسم الخط اردو کے خلاف سازش ہے۔ یہ زبان کو بڑھانے کا نہیں تباہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ ہر زبان کے حرف تہجی اس کی صوتی، لسانیاتی مجبوریوں، ضرورتوں اور پابندیوں کے بعد بنتا ہے۔ رسم الخط کسی بھی زبان کے تلفظ کو ظاہر کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، اردو کے تلفظ کے لیے اردو کا رسم الخط ضروری ہے۔ 'رومن' میں غ، ع، ق نہیں لکھ سکتے، رشید اور راشد کیسے لکھیں گے۔ انگریزی میں تو انگریزی کا تلفظ ادا نہیں ہو سکتا، لکھتے کچھ ہیں اور بولتے کچھ ہیں۔ آپ اردو کو 'رومن' میں لکھنے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ایک تیکنیکی مسئلہ ہے۔ ہر زبان کے اپنے صوتیے (آوازیں) ہوتے ہیں، انگریزی میں 44 صوتیے ہیں، جب کہ حرف تہجی 26 ہیں۔ ان کے پاس تو اپنے حرف پورے نہیں، وہ ایک آواز کے لیے دو لفظ استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کی کسی زبان کے حرف تہجی بے عیب نہیں، لیکن اس کے مقابلے میں اردو میں 56 آوزیں ہیں، تو 53 حرف تہجی ہیں۔ پانچ، چھے حرف ایسے ہیں، جو کسی آواز کو ظاہر نہیں کرتے۔ جیسے 'ڈبلیو' کا تلفظ ہونٹوں کو گول کر کے ادا کرتے ہیں، ہم اسے 'وی' کی طرح بولتے ہیں۔ One (ون) میں تو وی کی آواز ہے اور لکھا اسے 'او' سے جاتا ہے۔ انگریزی رسم الخط کے تو اپنے مسائل ہیں۔ جارج برنارڈ شاہ نے کہا تھا جو انگریزی کے ہجے کے قواعد ٹھیک کر دیے، اسے میری جائیداد سے 20 ہزار پاﺅنڈ دے دیے جائیں، وہ اب تک کوئی نہ لے سکا۔ ڈاکٹر رﺅف پاریکھ آسان ترجمے اور مروج انگریزی الفاظ کو قبولنے کے حامی ہیں۔ کراہیت کے خیال سے کسی لفظ کو انگریزی میں ادا کرنے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ انگریزی میں بھی ہے۔ جیسے حکیم صاحب کسی مریض کے پیشاب کی جانچ کرنے کے لیے اسے قاروریٰ کہتے تھے، جس کے معنی کانچ کی شیشی کے ہیں، لیکن مجازی معنوں میں سمجھ لیا جاتا تھا۔
'ضمیمے' کے بہ جائے نظرثانی شدہ لغت چھاپنی چاہیے'
'اوکسفرڈ' نے انگریزی لغت مکمل ہونے کے بعد رہ جانے والے الفاظ کے لیے ضمیمے چھاپے۔ 'اردو لغت بورڈ' کو چاہیے کہ وہ ضمیمے چھاپنے کے بہ جائے، تمام جلدیں نظرثانی کر کے شایع کرے۔ اس کے بعد یک جلدی اور دوجلدی لغت چھاپیں، جس میں سے اسناد نکال دی جائیں گی۔ لغت کی مختلف نوعیتیں طلبہ اور اسکالرز کے لیے چھاپنی چاہیے۔ وہ جون 2018ءمیں ریٹائرمنٹ کے بعد جم کر لکھنے پڑھنے کا کام کرنا چاہتے ہیں، اُن کی خواہش ہے کہ وہ اردو لغت کی 22 جلدوں پر اضافے، تصحیح نظرثانی کے کام میں 'اردو لغت بورڈ' کی مدد کریں، کہتے ہیں یہ کافی طویل کام ہے، جامعہ کراچی کا 'شعبہ اردو' بھی یہ سوچ رہا ہے کہ اردو لغت پر وہ اپنے طلبہ سے 'پی ایچ ڈی' کی سطح کا کام کرائے، جس کا مقصد صرف 'اردو لغت بورڈ' کی معاونت ہے، تاکہ وہ نظرثانی کرا کے شایع کرائیں۔
اردو لغت تاریخی اصول پر'52 برس کا قصہ ہے یہ
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ کہتے ہیں کہ "اردو لغت، تاریخی اصول پر" ایک عظیم منصوبہ ہے۔ اس کا تصور 'اوکسفرڈ' کی 20 جلدوں پر مشتمل انگریزی لغت سے لیا گیا، جس میں انگریزی کا ہر لفظ اور اس کے استعمال کی سند مختلف ادوار کے مستند شعرا اور ادیبوں سے دی گئی۔ 1928ءمیں 'اوکسفرڈ' کی پہلی انگریزی لغت 12 جلدوں میں شایع ہوئی، 1962ءمیں دوسرا ایڈیشن 20 جلدوں میں آیا۔
وہ بتاتے ہیںکہ اردو لغت میں سند صرف مستند مصنفین کی تصانیف سے لی گئی، بعض جگہوں پر اخبارات سے بھی لی گئی، جس پر اعتراض ہوا۔ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے الفاظ ادب میں نہیں آئے۔ لفظ پہلے عام بول چال کی سطح پر نمودار ہوتا ہے، پھر اخبار میں آتا ہے اور پھر ادیب برتتا ہے۔ لغت نویس کے لیے لسانیات سے واقفیت علم المعانی (semantics) آنا ضروری ہے۔ لفظ اور لفظیات کی بحث جاننا ضروری ہے کہ کوئی لفظ کس طرح بنتا اور معنی دیتا ہے۔ لفظ جب تک استعمال نہ ہو اس کے کوئی معنی نہیں۔ لسانیت کی ایک شاخ کورپس لینگوسٹک (Corpus linguistics) کہتے ہیں۔ جیسے اردو لغت کے لیے بنائے گئے 14 لاکھ کارڈ اردو کا سب سے بڑا 'کورپس' ہیں، یہ لغت کاخام مواد ہے۔ اب یہ کارڈ کمپیوٹر پر بھی بہ آسانی ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔ دنیا میں اب تو اخبار ورسائل کے بعد 'ٹیکسٹ میسج' بھی 'کورپس' میں شامل کیے جا رہے ہیں کہ ان کے دیگر معنی بھی محفوظ ہوں۔ اردو کے اس کورپس کو بھی کمپیوٹر پر منتقل کرنا چاہیے، کیوں کہ 14 لاکھ کارڈ سنبھالنا محال ہے۔
اردو لغت میں تقریباً ڈھائی لاکھ الفاظ ہیں، بہت سے الفاظ کی دوسری سند نہیں ملی، لییکن کسی لفظ کی ایک سند بھی ہے، تو لفظ لغت میں ہے۔ تحریر میں نہ آنے والے لفظ اس صورت میں شامل ہو سکتا ہے، جب کسی مستند لغت میں ہو۔ اصولی طور پر یہ غلط ہے اس کی بھی سند لینی چاہیے، لیکن یہ ممکن نہیں ہوتا۔ انگریزوں کی پرانی لغات میں جونٹی پلیٹس (John T. Platts) بہت سے الفاظ اور مرکبات ہیں، جو کہیں اور نہیں۔ بورڈ کے اصولوں میں یہ بات شامل ہے کہ ہر لفظ کی ہر دور کی سند دینی ہے۔
دکن اور پنجاب کا اردو پر بڑا احسان ہے
رﺅف پاریکھ کہتے ہیںکہ اردو بنی دہلی میرٹھ اور گردونواح میں، لیکن اس کے قدیم نمونے 'دکن' میں ملتے ہیں۔ اردو کا قدیم ترین لفظ جنوبی ہند میں 1422-27ءمیں لکھی گئی ایک مثنوی سے لیا گیا۔ کسی لفظ کے اُس وقت کے معنی تک رسائی اس کے مسلسل استعمال کی سند سے ہوتی ہے، لفظ اپنے معنی اور رنگ بدلتے ہیں۔ اردو کے کثیر لکھنے والوںکی مادری زبان اردو نہ تھی۔ قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر سمجھے جاتے تھے، ان کی مادری زبان تیلگو تھی۔ دکن کے لوگوں نے جنوب کی زبانیں چھوڑ کر اردو کو اپنایا۔ 'دکن' کے بعد اردو پر پنجاب کا بڑا احسان ہے، پنجاب 150 سال پہلے بھی اردو طباعت واشاعت کا بڑا مرکز تھا۔ 1840ءمیں تب اردو اخبار لاہور سے نکلتے، جب دلی سے بھی نہیں نکلتے تھے۔ اردو کے بہت سے شعرا اس وقب بھی پنجابی تھے۔ لغت میں برصغیر سے تمام لکھنے والوںکی سند لی گئی اور دلی، لکھنﺅ، بہار اور پنجاب کے محاورے شامل کیے گئے۔ خان آرزو (گوالیار) کی لغت 'نوادرالفاظ' سے بھی سند لی گئی۔ پنجاب کے شعرا سے لی، قدیم دور میں سندھ اور خیبر پختونخوا میں اردو شاعری ہوئی، بلوچستان میںدفتری زبان اردو رہی۔ وہاں سے بھی سندیں لیں۔
شان الحق حقی نے استعفا کیوں دیا؟
1958ءمیں اردو لغت بورڈ بنا، تو بابائے اردو مولوی عبدالحق اس کے پہلے مدیر اعلیٰ اور شان الحق حقی معتمد بنے، مولوی عبدالحق کی وفات کے بعد 1961ءتا 1976ءتک کسی مدیر اعلیٰ کا تقرر نہیں کیا گیا، وہ چوں کہ ماہر لسانیات تھے، اس لیے وہ 17 سال کام کرتے رہے۔ 'تاریخی اصل پر لغت کا تصور 'اوکسفرڈ' کا تھا، لہٰذا شان الحق حقی نے 'اوکسفرڈ' کے مشورے پر آخری جلد مکمل نہ ہونے تک شایع نہ کرنے پر کاربند رہے، تاکہ رہ جانے والے الفاظ کے لیے ضمیمے نہ چھاپنے پڑیں۔ انہوں نے اس مشورے پر عمل کی بہت بڑی قیمت ادا کی۔ انہیں چاہیے تھا کہ چھاپ دیتے اور کہتے کہ جب 'اوکسفرڈ' کے ضمیمے چھپ سکتے ہیں تو ہمارے بھی چھپ سکتے ہیں۔ 1958ءمیں اردو لغت بورڈ کے قیام سے حکومت پیسہ دے رہی ہے، لیکن پہلی جلد 1977ءمیں آسکی۔ شان الحق حقی فلم اینڈپبلی کیشنز میں ملازم تھے اور شام اور تعطیل میں لغت کا کام اعزازی کرتے، ان کے خلاف محاذ بنا، پھر حکومت نے کہا کہ جتنی بھی ہے چھاپنا شروع کریں۔ ایک راز کی بات یہ ہے کہ اس دوران اسلام آباد سے پوچھا گیا، تو انہوں نے کہہ دیا کہ آٹھ صفحات چھپ گئے ہیں، جب کہ ابھی وہ 'فرما' پریس جانے کو تھا، جیسے ہمارا انداز ہوتا ہے کہ بس سمجھو چھپ گئے، لیکن اس کے بعد 'اردو لغت بورڈ' میں موجود ان کے مخالفین نے اسلام آباد ٹیلی گرام بھیجا کہ ایک صفحہ بھی نہیں چھپا، اُن کی جواب طلبی ہوئی اور وہ مستعفی ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اُس وقت تک لغت کی سات سے بارہ جلدیں تیار تھیں۔
اس کے بعد ابو اللیث صدیقی مدیر اعلیٰ بنے اور انہوں نے 'اردو لغت' کی چھے جلدیں شایع کر کے، مخالفانہ محاذ بند کیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر فرمان فتح پوری مدیراعلیٰ بنے، انہوں نے 10 برس میں 10 جلدیں چھاپ دیں۔ سترہویں جلد کے 240 صفحے چھپ چکے تھے، کہ حکومت بدل گئی، ان کی جگہ حنیف فوق آگئے، پھر سحر انصاری مدیر اعلیٰ رہے، اس کے بعد قائم مقام مدیر اعلیٰ مرزا نسیم بیگ کے دور میں سات، آٹھ برس بعد اردو لغت کی سترہویں جلد شایع ہوئی، پھر ڈاکٹر یونس حسنی کے زمانے میں اٹھارہویں جلد آئی، پھر میں نے دو سال میں دو جلدیں (انیسویں اور بیسویں) شایع کیں۔ آگے کا مسوّدہ ناقص ہونے کے سبب مشکلات ہوئیں اور ایک جلد مزید شایع ہوئی۔ آخری (بائسویں) جلد پر کام جاری تھا، پھر جامعہ کراچی آگئے، لیکن معاونت جاری رہی۔ فرحت فاطمہ قائم مقام مدیر رہیں، پھر فہمیدہ ریاض اور اب عقیل عباس جعفری اس ذمے داری پر ہیں۔ اللہ کا شکر ہے یہ عظیم منصوبہ مکمل ہوا۔ اب اسے آن لائن بھی کر دیا گیا ہے۔
'اردو لغت' تیسری بڑی لغت ہے
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ کہتے ہیں کہ "اردو لغت" دنیا کی عظیم ترین لغتوں میں سے ایک ہے، جرمن اور انگریزی کے بعد دنیا کی یہ تیسری بڑی لغت ہے، جس میں ہر لفظ کی سند ہے۔ فارسی کی چالیس اور عربی کی لغت سترہ، اٹھارہ جلدوں میں ہے۔ 'اوکسفرڈ' کی ابتدائی جلدوں میں تو پوری تفصیل ہے، لیکن آخر میں اس کا اہتمام نہیں۔ اردو کی لغت میں ایک، ایک لفظ کی ہر زمانے کی مع صفحہ نمبر سند فراہم کی گئی ہے۔ تین ادوار ہیں، جن میں قدیم دور سے ولی دکنی تک، پھر 1857ءتک، پھر آج تک۔ اگر ایک کے بعد اگلے زمانے میں وہ لفظ یا برتاﺅ نہ ملے تو وہ لفظ یا معنی متروک ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ لغت، شریعت، طب اور قانون، میں کوئی لفظ فحش نہیں ہوتا، جیسے 'رنڈی' کے معنی عورت کے ہیں، آج یہ بہت برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن لغت میں اس لفظ کے تمام معنی ہوں گے، اسی طرح مجرا کے پہلے معنی سلام کرنے کے ہیں۔ اردو لغت 52 برس (1958ءتا 2010ئ) کی محنت ہے، جس میں مولوی عبدالحق، شان الحق حقی،ڈاکٹر سید عبداللہ، پیر حسام الدین راشدی، جوش ملیح آبادی اور بیگم شائستہ اکرام اللہ سمیت بڑے بڑے مشاہیر کی مشاورت اور نظرثانی رہی، بہت سے لوگوں سے معاوضتاً اور اعزازی کتابیں پڑھوا کر سندیں تیار کرائی گئیں۔ لاہور کے محمد احسن خان واحد آدمی ہیں، جو پورے 52 برس ساتھ رہے۔ فرمان فتح پوری نے انہیں معمولی معاوضے پر باقاعدہ مسودے بھی بھجوائے۔
'لغت کبیر' پر شان الحق حقی کا دعویٰ
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ کہتے ہیں کہ اردو لغت سے پہلے مستند لغت فرہنگ آصفیہ تھی، اس کے بعد نور اللغات کا درجہ ہے۔ جامع اللغات پر بابائے اردو نے تنقید کی۔ ہندوستان میں 14 جلدوں کی مہذب اللغات فرد واحد مہذب لکھنوی نے (1958ءتا 1989ئ) تیار کی، مگر انہوں نے صرف لکھنﺅ کی زبان کو مستند کہا۔ یہ اردو کو محدود کرنے کی بات ہے۔ لغت نویس کا یہ کام نہیں۔ اس کا کام صرف ریکارڈ کرنا ہے کہ سند یہ اورمعنی یہ ہیں۔ اردو لغت (تاریخی اصول پر) سے پہلے مولوی عبدالحق 'لغت کبیر' پر کام کر رہے تھے۔ شان الحق حقی نے اپنی کتاب 'نکتہ ¿ راز' میں لکھا ہے کہ لغت کبیر میں ان کے والد احتشام الدین حقی نے ہی کام کیا ہے، بابائے اردو انہیں معاوضہ دے کر سند بنواتے تھے، لیکن بابائے اردو نے یہ ظاہر کیا کہ یہ سارا کام گویا ان ہی کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو لغت بورڈ میں بابائے اردو اور ان کے دو الگ الگ گروپ بن گئے، جو بعد میں بھی چلتے رہے