کراچی چارٹر
متحدہ نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے لیے اپنے کچھ مطالبات پیش کیے
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد پیش ہوئی تو حزب اختلاف کی جماعتوں نے اپنے لیے اتحادی تلاش شروع کرنے شروع کیے۔ سابق صدر آصف زرداری نے مسلم لیگ ق، تحریک انصاف کے جہانگیر ترین گروپ، متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین سے رابط کیے۔ خاص طور پر متحدہ قومی موومنٹ کی تحریک عدم اعتماد میں شمولیت کے لیے کوشش شروع کیں۔
متحدہ نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے لیے اپنے کچھ مطالبات پیش کیے ، اخبارات میں دستیاب مواد سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان مطالبات میں بلدیاتی نظام کا قیام ، صوبائی ملازمتوں میں40 سے60 فیصد کوٹے کی منصفانہ تقسیم ، سندھ میں گورنر کے عہدے پر ایم کیو ایم کی مشاورت سے فیصلہ کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن اور جمعیت علما اسلام نے ایم کیو ایم کے ان مطالبات کی حمایت کی اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے مشاورت کی۔ پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کے مطالبات پر ہمدردانہ رویہ اختیارکیا۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی ٹیموں میں مذاکرات ہوئے اور ان مطالبات کو قانونی شکل دینے کے بارے میں لائحہ عمل طے ہوا۔
سندھ کے صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیوایم کی شکایات دور کی جائیں گی۔ وزیر اطلاعات سعید غنی نے بھی اس بیانیے کو دھرایا۔ کراچی کے سابق مئیر وسیم اختر کا بیانیہ ہے کہ سندھ کی دونوں بڑی جماعتوں میں سندھ کے شہری علاقوں کے ان مسائل پر اتفاق رائے ہوا ہے ، ان میں سے کچھ فوری حل ہونے ہیں،کچھ کے بارے میں قانون سازی متوقع ہے۔ ایم کیو ایم اپنے قیام کے بعد سے مخلوط حکومت میں شمولیت کا تجربات کرتی رہی ہے ، سوائے ایک تجربے کے باقی تجربات کا اختتام مایوسی اور نئے تضادات پر ختم ہوا۔
1988کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سندھ اور وفاق میں اکثریتی ووٹوں سے کامیاب ہوئی۔ ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری علاقوں سے کامیابی حاصل کی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں 20 نکاتی معاہدہ بھی ہوا۔ ایم کیوایم سندھ اور وفاق میں پیپلز پارٹی کی اتحادی بن گئی، دونوں جماعتوں نے اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اپنے اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے روزنامہ امن کے ایڈیٹر اجمل دہلوی، ڈاکٹر طارق سہیل اور پی کے شاہانی شامل تھے۔ ایم کیو ایم کی ٹیم میں عظیم طارق اور سلیم شہزاد وغیرہ تھے مگر کچھ ماہ بعد یہ تجربہ ناکام ہوا اور ایم کیوایم نے وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ یہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی، پیپلز پارٹی کی حکومت کے پہلے دور میں سندھ کے شہری علاقے بدامنی کا شکار ہوئے۔
ایم کیو ایم میاں نواز شریف کی دونوں حکومتوں کا حصہ رہی، دونوں دفعہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کے لیے آپریشن ہوا اور اس آپریشن کا براہ راست نشانہ ایم کیوایم بنی۔ 2008 میں جب پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر بنے توآصف علی زرداری ایم کیو ایم کے بانی قائد الطاف حسین کی رہائش گاہ نائن زیروگئے اور ماضی کی صورت حال پر ندامت کا اظہار کیا۔ ایم کیو ایم کے قائد کی جانب سے ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی یہ بیانیہ دیا مگر شہر کے حالات مزید بگڑے گئے، ایم کیو ایم سابق صدر پرویز مشرف حکومت کی بھی اتحادی رہی اور2002 سے 2008تک وفاق اور سندھ کی حکومتوں میں شامل رہی۔
پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم دونوں سندھ کی نمایندگی کرتی ہیں۔ ان کے درمیان اچھے برے تعلقات سے سندھ کی ترقی پر اثر پڑتا ہے۔ مجموعی طور پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں۔ ایم کیوایم کے رہنما یہ الزام لگاتے رہے کہ پیپلز پارٹی نے کبھی معاہدوں پر عمل درآمد نہیں کیا۔ ایم کیوایم کے وزراء بے اختیار رہے۔ 1988میں پیپلز پارٹی کی طرف سے ڈاکٹر طارق سہیل اور اجمل دہلوی مشترکہ کمیٹی میں نمایندگی کررہے تھے۔
ڈاکٹر طارق سہیل بائیں بازوکے دانشوروں میں شامل رہے ہیں، اپنے دور طالب علمی میں این ایس ایف کے متحرک کارکن تھے، وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے طے شدہ معاہدوں کے نکات پر عمل درآمد نہیں کیا۔ اجمل دہلوی جن کی ادارت میں شایع ہونے والے اخبار میں جنرل ضیا الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں پر ہونے والے مظالم کو سنسر شپ کی سخت پابندیوں کے باوجود اجاگر کیا، خود اجمل دہلوی کے اس دور کے کالم جنرل ضیاء الحق کی پالیسوں کے خلاف سب سے زیادہ پڑھے جاتے تھے ، بعض سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اندرون سندھ گوٹھوں کی اوطاقوں میں ان کا کالم اجتماعی طور پر پڑھا جاتا تھا ، وہ پیپلز پارٹی کے رویے سے اتنے مایوس ہوئے کہ ایم کیوایم میں شامل ہوگئے تھے۔ پیپلز پارٹی والوں کو بھی ہمیشہ گلہ رہا کہ ایم کیو ایم والوں نے اپنے کارکنوں کو غیر مسلح نہیں کیا، یوں ہر دور میں ٹارگٹ کلنگ جاری رہی۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم جنھیں شریف الدین پیر زداہ ثانی بھی کہا جاتا ہے ، وہ ایم کیوایم کی طرف سے سینٹر منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اب ایم کیوایم والے یہ کہنے لگے ہیں کہ وہ ہمارے کوٹے پر نہیں ، کسی اور کے کوٹے پر وزیر ہیں ، انھوں نے پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے ممکنہ معاہدے پر یہ تبصرہ کیا کہ ایم کیو ایم کو چاہیے کہ اس معاہدے کی عدالت سے ڈگری حاصل کرلے تاکہ جب پیپلز پارٹی معاہدے سے انحراف کرے تو عدالت کا دروزاہ کھٹکٹایا جائے۔
پیپلز پارٹی نے2008 میں وفاق اور سندھ میں برسر اقتدار تھی اور اب 14سال سے سندھ میں حکومت کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی کا یہ دور انسانی حقوق کی پاسداری کے تناظر میں قوانین کے نفاذ سے اچھا دورکہا جاسکتا ہے مگر بیڈ گورننس اور کرپشن کے حوالے سے یہ دور یاد رکھا جائے گا۔ اس دور میں ملازمتیں فروخت ہوئیں، تقرریوں تبادلوں کو اسٹاک ایکسچینج سے منسلک کر دیا گیا۔
سندھ کی حکومت نے مکمل طور پر امتیازی پالیسی اختیارکی، انگریز دور سے یہ قانون نافذ ہے کہ ہر ضلع کی گریڈ ایک سے15تک کی اسامیوں پر اس ضلع کے ڈومیسائل رکھنے والے افراد کا تقرر ہوگا مگر اس حکومت نے اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسرے اضلاع میں ملازمت کرنے والے افراد کی اسامیاں کراچی کے اضلاع میں منتقل کردی اور سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ ختم کردی گئی۔
گزشتہ14سال میں کئی دفعہ گریڈ17کی اسامیوں پر براہ راست تقرریاں ہوئی اور سندھ پبلک سروس کمیشن کو نظر انداز کرتے ہوئے ، صوبائی اسمبلی سے اکثریت کی بنیاد پر قوانین منظورکرائے ، یوں ان تقرریوں کو مستقل کرنے کا راستہ اختیارکرلیا گیا۔ سندھ سیکریٹریٹ کی رپورٹنگ کرنے والے باخبر صحافیوں کا کہنا ہے کہ صوبائی و قومی اسمبلی کے با اثر اراکین اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے عزیزوں کو یہ ملازمتیں تحفہ کے طور پر دیدی گئی۔
سندھ میں بلدیاتی نظام مفلوج ہوگیا۔ سندھ کے شہر کوڑے اور سیوریج کے پانی میں ڈوبنے کے مناظر پیش کرنے لگے۔ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں کراچی کے کوڑے کے بارے میں فیچرز شایع ہوئے صوبائی حکومت نے پہلے کوڑے کے حل کے لیے چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیا پھر سولڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ کا ادارہ بنایا۔ وزیر اعلیٰ کی ایک ذمے داری سڑکوں محلوں کی صفائی ستھرائی قرار پائی۔ اس صورت حال کا منفی قوتوں نے فائدہ اٹھایا سندھ کی تقسیم کے نعرے بلند ہوئے، ایم کیوایم کے بعض رہنماؤں نے اپنی تقریر میں نسلی و لسانی تعصب کو ہوا دی۔
سندھ حکومت نے گزشتہ سال ایک بلدیاتی قانون نافذ کیا جس میں یونین کونسل کو بلدیاتی اداروں سے علیحدہ کرکے کمشنر آفس کے حوالے کر دیا۔ کراچی میں سخت احتجاج ہوا ، جماعت اسلامی نے ایک ماہ تک سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا۔ ایم کیوایم کے رہنماؤں پر وزیر اعلیٰ کے دفتر کے باہر پولیس کی لاٹھیاں برسائی گئیں اور آنسوگیس استعمال کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے ایک جامع فیصلے میں بلدیاتی قانون کو غیر آئینی قرار دیا اور بلدیاتی اداروں کے اختیارات کو بحال کیا۔ اس معاہدے میں ایک خود مختار انفارمیشن کمیشن کا قیام ضرور شامل ہونا چاہیے تاکہ سندھ میں شفافیت کے معیار پرکچھ بہتری کی صورت حال پیدا ہو۔
سندھ کے مکینوں کے لیے خوش گوار خبر ہو گی کہ سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک چارٹر پر متفق ہوگئی ہیں۔ وسیم اختر کہتے ہیں کہ ان نکات میں کچھ پر فوری عمل ہوگا اور کچھ کے لیے قانون سازی کی ضرورت پڑے گی۔ خواجہ اظہار الحسن نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہمیں کسی گارنٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے الفاظ ہی کافی ہیں ، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو نہ ہو پیپلز پارٹی کو اس معاہدے پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرنا چاہیے ، تاکہ سندھ میں تمام طبقات حکومت سے قربت محسوس کریں اور سندھ بھی پنجاب کی طرح ترقی کے دوڑ میں شامل ہوجائے۔