دو نمبری کے کرشمے

وہ ایک بڑے ادارے کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں


Shehla Aijaz March 25, 2022
فوٹوفائل

LAUSANNE: وہ ایک بڑے ادارے کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ، تعلیم جیسا حساس شعبہ ویسے بھی کئی حوالوں سے خاصا معتبر ہے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں ہمارے معاشرے میں اس حساس شعبے میں ایسی دیمک لگ چکی ہے کہ جس سے چھٹکارا پانا فی الحال نظر نہیں آتا۔

ہمارے یہاں ادارے کا جو حال ہے نہ ہی پوچھیے۔ جب میں یہاں نیا نیا آیا تھا تو مجھے اپنی ٹیبل کے سامنے والی کرسی پر ایک کیل نظر آئی ، اس طرح کچھ اور بھی چھوٹا موٹا کام تھا تو میں نے اپنے سیکریٹری کو بلایا تاکہ یہ معمولی سا کام کروا لیا جائے۔ سیکریٹری صاحب آئے بغور معائنہ کیا تو دیواروں پر بھی کچھ اضافی کیلیں نظر آئیں تو فیصلہ یہ ہوا کہ کام ضرور ہونا چاہیے۔

میں نے سیکریٹری صاحب سے کہا کہ ذرا جلدی اس کام کو مکمل کروا لیں کہ معاً کسی مہمان کے چبھ نہ جائے لیکن ان کا جواب سن کر مجھے سخت حیرت ہوئی۔ موصوف فرمانے لگے '' سر ! اس کام کو کروانا واقعی اشد ضروری ہے لیکن اس کے لیے ایک کمیٹی بنانی پڑے گی، کام کا تخمینہ لگایا جائے گا پھر یہ سارا روم فٹ ہو جائے گا۔'' میں نے کہا '' جناب کیسی باتیں کرتے ہیں ، یہ انتہائی معمولی کام ہے ، ابھی کسی آدمی کو بلوائیے ، کارپینٹر کو نہ بلوائیے بس ہتھوڑی لے کر کسی کو یہاں بھیج دیں ، میں خود کروا لوں گا۔ وہ فرمانے لگے۔

'' نہیں جناب ! اس طرح سے یہ کام نہیں ہوگا ، یہ معمولی کام لگ رہا ہے درحقیقت یہ اتنا بھی معمولی نہیں ہے ، اس کے لیے تو ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی'' یہ سن کر میں نے جیسے اپنا سر ہی پیٹ ڈالا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ہمارے سرکاری اداروں میں۔ یعنی کمیٹی بنانے کا مطلب کہ لمبا چوڑا خرچہ تشکیل دینے کی تیاری ہے ، بھئی ! چند کیلیں ہی تو ہیں لیکن نہیں جناب ! وہ کمیٹیوں پہ کمیٹی پر ہی مصر تھے لہٰذا تنگ آ کر میں نے اس کام کو کروانے کا فیصلہ ہی ترک کردیا۔

میں نے ان سے کہا کہ جناب ! معذرت رہنے دیں یہ کوئی اس قدر ضروری کام نہیں ہے۔ آپ بلاوجہ ہی پریشان ہوگئے، خیر کافی بحث و تکرارکے بعد طے پایا کہ اس قسم کا کوئی قابل مرمت کام نہیں ہے اور بعد میں اس معمولی سے کام کو میں نے خود انجام دے دیا ، اور آپ یقین جانیے کہ اس طرح کی کرپشن ہر دور میں پائی جاتی ہے آپ کسی ایک کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔

یہاں کے حالات اس قدر تکلیف دہ ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے اشتہاری کمپنیوں کے حوالے سے ایک درخواست خاصی خبروں میں رہی جس میں رشوت ستانی کو جائز مانتے ہوئے ، یہ گزارش کی گئی تھی کہ انھیں صرف اتنا بتا دیا جائے کہ ان کے کام کے لیے رشوت کن کن اداروں کو دی جائے ، جب کہ دوسری جانب بے روزگاری کا بازار اس حد تک گرم ہے کہ مالی، خاکروب، نائب قاصد اور چوکیدار جیسی اسامیوں کے لیے جوکہ چار گریڈ کی ملازمت کہلاتی ہے۔

ڈگری ہولڈرز لڑکے لڑکیوں نے اندازاً تیس ہزار درخواستیں جمع کروائیں اور سننے میں یہ بھی آیا تھا کہ اس کے لیے بھی ارکان اسمبلی کے ٹھپے چل رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے جس سے نمٹنے کے لیے کس قسم کی پالیسیاں یا امتحانات درکار ہے۔ کیا وہ بھی ایک نئی کرپشن کی کہانی کو جنم دیں گے۔

ایسا ہوتا آیا ہے کہ مقابلے کے امتحانات سے لے کر نویں دسویں تک کے امتحانات میں شفافیت کا عنصر منفی حد تک گر چکا ہے اگر کوئی بھی تعلیمی ادارہ اس بات پر اٹل رہتا ہے کہ ان کی چھت تلے کوئی نقل انجام نہیں دی جاسکی تو کیا دوسرے تعلیمی مراکز اس شرط کو پورا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ پچاس سے پچانوے فیصد کے درمیانی فاصلوں کو عبور کرنا تمام ان اہل اور ذمے دار امیدواروں کے لیے ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جو اپنی تمام تر قابلیت اور صلاحیتوں کے باوجود نسبتاً کم فیصد کے نمبر حاصل کرکے نااہل یا فیل امیدواروں کی فہرست میں آجاتے ہیں جس کا ثبوت ہمیں اخبارات میں مختلف نتائج دیکھ کر نظر آجاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو نمبری طریقہ کار نہ صرف تعلیم یا اس طرح کے اداروں میں ہے بلکہ فنون لطیفہ میں بھی خاص زور و شور سے جاری ہے۔

وہ صاحبہ ایک عام سی کاروباری تھی اور پھر آناً فاناً سنا گیا کہ وہ نہ صرف شاعرہ بن چکی ہیں بلکہ عنقریب بیرون ملک ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے روانہ ہو رہی ہے۔ کیا واقعی ان میں یہ صلاحیت موجود تھی؟ سوال پوچھا گیا۔ ارے نہیں بھئی ! ایک شاعر صاحب سے کچھ عرصہ قبل ان کی دوستی ہوئی تھی اور انھوں نے ہی انھیں لکھ لکھ کر دینا شروع کردیا اور پھر وہ اسے مختلف مشاعروں میں پڑھنے لگی۔

صرف یہی نہیں بلکہ ان کی ایک سہیلی بھی ایک دن اچانک شاعرہ بن گئی۔ موصوفہ بڑے اعتماد سے کہتی تھیں کہ میں نسائی طرز کی شاعرہ ہوں۔ وہ اتنے اعتماد سے نسائی اور نسائیت کے قصیدے پڑھتی کہ ایک دن تنگ آ کر میں نے پوچھ ڈالا کہ ''کیا آپ جانتی ہیں کہ یہ نسائی۔۔۔۔فیمنسٹ کیا ہے؟'' جواب ندارد۔ تو میں نے ان سے کہا کہ پہلے آپ اس کے بارے میں اچھی طرح پڑھ لیں پھر اس کے بارے میں گفتگو کیا کریں، لیکن وہ کیسے شاعرہ بنیں؟

بھئی! جو شاعر ان کی سہیلی کو لکھ کر دیتے تھے۔ جب ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے ان کو بھی لکھ کر دینا شروع کردیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ شاعر صاحب دونوں خواتین سے ہی ایک دوسرے کی برائی کرتے ہیں تاکہ دونوں کا دل ایک دوسرے سے نہ ملے اور بس ان کی کہانی چلتی رہے۔ ہمارے یہاں اس قسم کی باتیں فنون لطیفہ میں عام ہو چکی ہیں۔

تو صاحبو! یہ دو نمبری اور چیٹنگ کے ماحول میں کون کب تک اپنے آپ کو بچا کر سنبھال کر رکھتا ہے۔ یہ مشکل تو نظر آتا ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ لہٰذا اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں ہم اس طرح کسی حق دار کا حق تو غصب نہیں کر رہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔