خان صاحب اب آپ نے گھبرانا نہیں ہے

مقتدر حلقوں کے نیوٹرل ہونے کے بعد کیا وزیراعظم کوئی کارنامہ سر انجام دے پائیں گے؟


سالار سلیمان March 26, 2022
وزیراعظم باعزت طریقے سے مستعفی ہوجائیں۔ (فوٹو: فائل)

GOMA, DR CONGO: پاکستان کا سیاسی کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی میں بیلنس آف پاور تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ 6 وفاقی وزرا سمیت 29 سے 33 حکومتی اراکین پارٹی سے الگ ہوچکے ہیں۔

یہاں سے اگر پی ٹی آئی چاہے تو وہ اپنی پارٹی کی مدت پوری کروا سکتی ہے، جیسا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے کیا تھا۔ لیکن اس کےلیے عمران خان کو جانا ہوگا۔ دوسری صورت میں اپوزیشن یہ فیصلہ کرے گی کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے۔ خاں صاحب کا جانا تو دیوار پر لکھا جاچکا ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ خان صاحب کو یہ لکھا ہوا کیوں نظر نہیں آرہا ہے؟

منحرف اراکین اسمبلی چند دن قبل سندھ ہاؤس میں منظر عام پر آئے۔ یہاں یہ نقطہ واضح کرلیجئے کہ وہ منظر پر لائے گئے تھے۔ یہ اراکین اسمبلی زرداری خود سامنے لائے تھے۔ جیسے ہی ٹی وی اسکرینوں پر بھونچال آیا تو ان کو وہاں سے حیدرآباد اور سکھر کی جانب منتقل کردیا گیا۔ یہاں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اپوزیشن اپنا کھیل سیٹ کرچکی ہے۔ اس نے جو پتے ظاہر کیے ہیں، یہ وہ پتے نہیں ہیں جن سے انہوں نے کھیلنا ہے، اصل پتے کچھ اور ہیں۔ گیم میں ابھی بہت سی چالیں باقی ہیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کو یہ پتے دکھا کر اُس کا رُخ موڑنا مقصود تھا، اور اس میں اپوزیشن کسی حد تک کامیاب بھی رہی۔ اب، اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس حوالے سے قیاس آرائیاں ہیں۔

یہاں ایک اور اہم نکتہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لندن میں بہت سی اہم شخصیات گزشتہ ہفتوں میں نوازشریف سے ملاقات کرچکی ہیں۔ اب ظاہر ہے ان ملاقاتوں میں سری پائے اور بریانی پر تو گفتگو نہیں ہوئی ہوگی۔ ایک اور اہم خبر یہ بھی ہے کہ ایک ٹی وی چینل، جس کی وجہ شہرت اس کا پی ٹی آئی کا آؤٹ آف دا وے جا کر ساتھ دینا اور صحافتی اخلاقیات کو پامال کرنا ہے، اس کے مالک نے سابق صدر سے مل کر معافی طلب کی ہے۔ اب اگر سونے کے اسمگلروں کا چینل بھی معافی طلب کر رہا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ گیم از اوور۔

تحریک عدم اعتماد کی فضا نے وزیراعظم کو بھی ایکٹیو کردیا ہے۔ وہ جن سے کل تک ہاتھ ملانا تک پسند نہیں تھا، اب اُن کے درباروں میں حاضریاں لگ رہی ہیں۔ تاہم، ذرائع کے مطابق اتحادی اب بھی سمجھتے ہیں کہ خان صاحب کسی اور آسمان میں اُڑ رہے ہیں، اُن کا رویہ اب بھی ٹھیک نہیں ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں اتحادی کیوں وزیراعظم کا ساتھ دیں گے؟ جبکہ اُن کو صاف نظر آرہا ہے کہ اگر وزیراعظم مستعفی نہیں ہوتے ہیں تو پھر حکومت ختم ہوجائے گی۔ وہ یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ اپوزیشن صرف اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کےلیے ان کے ساتھ ملاقاتیں کررہی ہے جبکہ وہ اپنا نمبر گیم پورا کرچکی ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر اتحادیوں نے حکومت کا ساتھ دیا تو ان کا خسارہ ہے اور اگر انہوں نے اپوزیشن کا ساتھ دیا تو مستقبل کے منظرنامے میں ان کو بھی کچھ حصہ عنایت کیا جائے گا۔ ایسی صورتحال میں میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ 28 مارچ سے قبل اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کردیں گے اور اگر وہ یہ اعلان نہ بھی کریں تو بھی وہ اپنے عمل سے ثابت کردیں گے وہ حکومت کے ساتھ نہیں ہیں۔

وزیراعظم نے مذہبی کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے 27 مارچ کو جلسہ بلایا ہے۔ اگر وہاں حکومت 25 ہزار لوگ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ پھر گیم چینج ہوجائے گا۔ جی ہاں! صرف 25 ہزار کو آپ دس لاکھ کا جم غفیر بھی کہہ سکتے ہیں، آپ اس کو ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی کہہ سکتے ہیں، آپ اس کو ملین مارچ بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن، مقتدر حلقوں کے نیوٹرل ہونے کے بعد کیا وزیراعظم یہ کارنامہ سر انجام دے پائیں گے؟

ایک کنفرم قسم کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے پاس اپوزیشن رہنماؤں کا کچھ ایسا مواد موجود ہے جس کو اگر استعمال کرلیا گیا تو پھر شاید اپوزیشن بیک فٹ پر چلی جائے۔ پاوور پالیٹکس میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن نے اس چال پر ترپ کا وہ پتہ پھینکنے کا فیصلہ کرلیا ہے کہ خان صاحب سیاست سے ہی آؤٹ ہوسکتے ہیں۔ یعنی، خاں صاحب کو اب باؤنسر بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔ ہُک شاٹ میں باؤنڈری کے پاس کیچ تو ہوسکتا ہے لیکن اسی بال پر چھکا بھی لگ سکتا ہے۔ اگر تھکا ہوا بولر باؤنسر کرتا ہے تو اسپیڈ کی وجہ سے بلے باز بہت آرام سے چھکا مار سکتا ہے۔

اس پوری صورتحال میں وزیر قانون فروغ نسیم کہاں ہیں؟ وہ کیوں نظر نہیں آرہے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے۔ اگرچہ 25 مارچ کو بلایا جانے والا اجلاس اسپیکر نے بغیر کارروائی کے ملتوی کردیا، لیکن یہ کب تک ایسے کھیلیں گے؟ اسمبلی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا، عدم اعتماد کی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ سیاست کا کھیل ہے، یہ سیاست سے ہی جیتا جائے گا۔

اب وزیراعظم کے پاس دو آپشن ہیں۔ ایک وہ باعزت طریقے کے ساتھ مستعفی ہوجائیں اور سکون کریں۔ جیسا کہ جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ عمران دشمنی نے ن لیگ اور پی پی کو ایک کیا ہے۔ یہ کتنی دیر ایک ساتھ رہ سکیں گے؟ یہ پھر ایک دوسرے سے لڑیں گے۔ مطلب، ماضی قریب میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد بھی مشرف ٹائم میں کتنی دیر ایک ساتھ رہے تھے؟ یہ جب لڑیں گے تو عمران خان کو دوبارہ سے سیاست کرنے کا موقع مل جائے گا، یہ ریلیونٹ بن جائیں گے۔ یہ اگر تب تک ماضی سے سیکھ چکے ہوئے تو بہت فائدے میں رہیں گے۔

دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اسمبلیاں توڑ کر قبل از وقت انتخابات کی کال دے دیں۔ یہ تب بھی کسی حد تک فائدے میں رہیں گے۔ لیکن، اگر یہ عدم اعتماد ہونے دیتے ہیں اور اس میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی سیاست کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ کیا پی ٹی آئی اس نقصان کےلیے تیار ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں