عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں
عالمی مارکیٹ میں ہر شے کی قیمت میں اضافے ہی اضافے کا رحجان نظر آ رہا ہے
HYDERABAD:
عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس اضافے نے بہت سے ترقی پذیر ملکوں کے مالی معاملات خراب کر دیے ہیں۔
حالیہ دنوں میں روسی تیل پر پابندی کی خبروں نے تیل کی قیمت کو پھر سے بھڑکا دیا ہے ، ایک طرف سعودی آئل ریفائنری پر حملے ہوئے اور دوسری طرف یورپی یونین نے روس پر معاشی حملہ کرتے ہوئے ، روسی تیل کی درآمد پر پابندی پر غورکرنے کی خبروں نے خام تیل کی قیمتوں کو آگ لگا دی ہے۔
اس آگ کی تپش امیر صنعتی ممالک کو محسوس ہو یا نہ ہو لیکن غریب ممالک خصوصاً پاکستان کو یہ سخت ناگوارگزر رہی ہے ، جس کے باعث پاکستانی مالیات کو گمبھیر حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق عالمی مارکیٹ میں برینٹ خام تیل 9 ڈالر مہنگا ہونے کے بعد اس کی فی بیرل قیمت 118 ڈالر پر پہنچ چکی ہے جب کہ ڈبلیو ٹی آئی کی قیمت میں 8 ڈالر کا اضافہ ہو کر 114 ڈالر فی بیرل پر پہنچ چکی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں ہر شے کی قیمت میں اضافے ہی اضافے کا رحجان نظر آ رہا ہے ، کیونکہ عالمی معیشت میں خدشات بے یقینی کی صورتحال نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔ کچھ اسی قسم کی شدید سیاسی بے یقینی و خدشات نے پاکستانی معیشت کو بھی اپنے نرغے میں لے رکھا ہے ، جس کے باعث اس وقت معاشی جمود کی کیفیت طاری ہے۔
اگرچہ ملکی برآمدات بھی بڑھ رہی ہیں اور دیگر امور بھی انجام دیے جا رہے ہیں لیکن جب گہرائی میں جا کر معاشی جائزہ لیتا ہوں تو یہی نظر آتا ہے کہ کاروبار سخت مندی کا شکار ہے۔ ہر شخص نے اپنی جیب کو تالا لگا رکھا ہے کہ نہ جانے کیا ہو اور کب پیسوں کی ضرورت پڑ جائے جس سے مارکیٹ میں پیسوں کی شدید کمی نے کاروباری اور معاشی سرگرمیوں کو ماند کر رکھا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں سونا بھی مہنگا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ 2020 کی پہلی ششماہی کے بعد سونے کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ چل نکلا تھا جوکہ 2021 کی پہلی ششماہی تک بدستور چلتا رہا۔ پھر سونے کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان پیدا ہونے لگا۔ ایک وقت سونا ایک لاکھ روپے فی تولے سے کم پر دستیاب تھا۔ آج کل پاکستان میں ایک لاکھ 30 ہزار روپے فی تولہ تک جا پہنچا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت 10 ڈالر فی اونس اضافے سے ایک ہزار 940 ڈالر فی اونس ہوگئی۔ ملائیشین پام آئل کی قیمت میں بھی کئی ماہ سے اضافے کا تسلسل جاری ہے۔ فی ٹن میں مزید 30 ڈالرکا اضافہ ہونے کے بعد فی ٹین ملائیشین پام آئل ایک ہزار 485 ڈالر کا ہو گیا ہے۔
پاکستان نے پام آئل کی پیداوار کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ ملک میں گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور خام تیل کے بعد کھانے پینے کی اشیا میں پام آئل کی خریداری پر سالانہ اربوں ڈالر صرف کیے جاتے ہیں۔ اس وقت عالمی سیاسی کشیدگی زوروں پر ہے۔
امریکا کی جانب سے روس پر پابندیوں میں مزید اضافے پر غور کیا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے روسی تیل کی درآمد پر پابندی پر بھی غور کرنے کی خبروں نے تیل کی عالمی مارکیٹ کو بے یقینی کی صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ تیل کی قیمت میں مسلسل اضافے نے پاکستان کی تیل کی درآمدات کو کہاں تک پہنچایا ہے اور اس سے پاکستان مالی طور پر کتنا شدید متاثر ہوا ہے اور اس کے کرنسی پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ملک کے سیاسی حالات نے ملکی کرنسی اور معاشی حالات پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں اس کا جائزہ لیتے ہوئے پہلے تیل کے درآمدی بل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
مالی سال 2021-22 کے پہلے 8 مہینے جولائی 2021 تا فروری 2022 تک پٹرولیم گروپ کی مجموعی درآمدات کی مالیت 12 ارب 94 کروڑ14 لاکھ ڈالرز کی رہیں جب کہ اس کے مدمقابل مدت جولائی تا فروری 2021 کے دوران پٹرولیم گروپ کی درآمدات محض 6 ارب 44 کروڑ56لاکھ ڈالرز کی رہیں یعنی 101 فیصد اضافہ ہوکر رہا اور پاکستان جیسے ملک کے لیے صرف اپنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر محض 8 ماہ میں گزشتہ آٹھ ماہ کی درآمدات کے دگنے یعنی ساڑھے چھ ارب ڈالر کے اضافے نے ملکی معیشت کو ڈانوا ڈول کردیا ہے۔
اس کی مزید تفصیلات دیکھتے ہیں جوکہ یوں ہیں کہ رواں مالی سال کے ان 8 ماہ کے دوران پاکستان نے ایک کروڑ گیارہ لاکھ 47 ہزار میٹرک ٹن پٹرولیم مصنوعات کی مقدار درآمد کی اور اس کے بالمقابل عرصے مالی سال 2020-21 کے پہلے 8 ماہ میں 91 لاکھ 35ہزار میٹرک ٹن پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کی گئی۔ بہ لحاظ مقدار 22 فیصد کا اضافہ ہوا اور اس بل کی مد میں جو اخراجات ہوئے وہ یہ ہیں۔
رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر 6ارب 20 کروڑ 47 ہزار ڈالر صرف کیے گئے اس کے بالمقابل گزشتہ مالی سال 2020-21 کے پہلے 8 ماہ میں محض 2 ارب 88 کروڑ70 لاکھ ڈالر کے قریب رقم صرف کی گئی اور یہ اضافہ 116.65 فیصد نوٹ کیا گیا۔
اب خام تیل کی مقدار درآمد کی بات کرلیتے ہیں۔ پہلے 8 ماہ کے دوران کروڈ آئل کی درآمدی مقدار رہی 58 لاکھ 53 ہزار 6 سو میٹرک ٹن اور اس سے گزشتہ مالی سال کے 8 ماہ کے دوران تقریباً 57 لاکھ 97 ہزار میٹرک ٹن درآمد کی گئی۔ اگرچہ درآمدی مقدار میں کوئی خاص اضافہ تونہ ہوا لیکن اب درآمدی بل پر نظر ڈالتے ہیں تو نمایاں اضافہ نظر آئے گا۔
رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران خام تیل کی درآمد پر 3 ارب 15 کروڑ56 لاکھ ڈالر صرف کیے گئے جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کا مالیاتی بل ایک ارب 75 کروڑ39 لاکھ ڈالرکا تھا اور یہ 80 فیصد اضافہ بنتا ہے۔ ان حالات میں درآمدی تیل کا بل پاکستان کے مالی معاملات کو خاصا بگاڑ چکا ہے اور مزید بگڑنے کے خدشات پل رہے ہیں۔ اسی طرح پام آئل کی قیمتوں کے علاوہ دیگر اشیائے خوراک و ضروریات کی عالمی قیمت بڑھ رہی ہے جس کے منفی اثرات پاکستانی معیشت و عوام پر مرتب ہو رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ملکی سیاسی معاملات نے بھی ملکی معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتے ہوئے کاروبار میں زبردست مندی کو ظاہرکردیا ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر مہنگائی میں اضافہ اور غریب طبقے کی آمدن میں زبردست کمی ملکی معاشی ترقی کی شرح کو کم کرسکتی ہے۔ ان عالمی اور پاکستان کے حالات کے اثرات کے باعث ملکی کرنسی کی قدر گھٹ گئی ہے اور ڈالر 180 سے تجاوز کر گیا ہے۔ اس طرح کرنسی کی کمزوری ملکی معیشت کے لیے کبھی بہتر نہیں ہو سکتی۔