مصنوعی چیزیں خوشیاں نہیں دے سکتیں

صرف ملک میں چاروں طرف مصنوعی کامیابی اور خوش نصیبی حاصل کرنے والوں کا حشر نشر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں


Aftab Ahmed Khanzada March 27, 2022
[email protected]

آپ اگرکرپشن ، لوٹ مار، دھوکا دہی، فراڈ، حق تلفی اور شارٹ کٹ کی مدد سے راتوں رات امیر بننے والوں اقتدار و اختیار ر حاصل کرنے والوں کو کامیاب اور خوش نصیب سمجھتے ہیں تو آپ سرا سر غلطی پر ہیں۔

بغیر محنت ، ایمانداری ، دیانت داری کے امیری ، اقتدار و اختیار کبھی بھی کسی کو کوئی خوشی ، اطمینان و سکون نہیں دے سکتا ، کیونکہ ایسی کامیابی اور خوش نصیبی مصنوعی ہوتی ہے اور مصنوعی چیزیں نہ تو خوشیاں دے سکتی ہیں اور نہ ہی سکون۔ ایسی مصنوعی کامیابی اور مصنوعی خوشی حاصل کرنے والے ناکام اور بد قسمت انسان ہوتے ہیں اور ناکامی اور بدنصیبی ان کا ان کی قبروں تک پیچھا کرتی رہتی ہے اور یہ بھی کہ وہ ان کا لٹا بچا کچا سکون ، خوشیاں اور صحت لوٹ لیتی ہیں۔

آپ اورکچھ نہ کریں صرف ملک میں چاروں طرف مصنوعی کامیابی اور خوش نصیبی حاصل کرنے والوں کا حشر نشر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ان کی بے سکونی اور اذیتوں کو محسوس کرلیں تو آپ بھی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ مصنوعی کامیابی اور مصنوعی خوش نصیبی بے سکونی اور اذیتوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔لوٹ مار سے حاصل ہونے والی دولت سے جو مصنوعی خوشی ملتی ہے انسان اسے حقیقی منزل سمجھ کر اس کے پیچھے اندھا دھند بھاگتا رہتا ہے اور دوسروں کے حقوق غضب کرتا رہتا ہے۔لوٹ مار کے اس کھیل کو وہ اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ بالآخر قدرت ایک دن اس پر یہ راز کھول دیتی ہے کہ نیکی کا راستہ چھوڑ کر بدی کے راستے سے ملنے والی خوشی اور کامیابی حقیقی نہیںبلکہ عارضی ہوتی ہے۔

ہر زمانے کے عظیم ترین ڈرامہ نویس جارج برنارڈ شا نے تقریباً ایک صدی پہلے لکھا تھا '' میں چاہتا ہوں کہ جب میں مروں تو پوری طرح استعمال ہوچکا ہوں کیونکہ میں جتنی زیادہ محنت کرتا ہوں میری زندگی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔''

مشہور سروے کنندگان جارج گیلپ اور ایلک گیلپ نے صحافی ولیم پرو کٹر کے ساتھ مل کر ان لوگوں سے انٹرویوکیے جن کے نام Who's who in America میں شامل ہیں انھوں نے اس سروے پر مجموعی طور پر ایک ہزار گھنٹے صرف کیے انھوں نے جن لوگوں سے انٹرویو کیے ، انھیں کاروبار ، سائنس ، فنون ، ادب ، تعلیم ، مذہب ، ملٹری وغیرہ جیسے شعبوں کے کامیاب ترین افراد تسلیم کیا جاتا ہے۔ گیلپ برادرز اور پروکٹر نے ان انٹرویوزکے نتائج پر مشتمل ایک کتاب شایع کی جس کا نام ہے The Great American Success Story۔

انٹرویو میں شامل سوالات خاندانی پس منظر، تعلیم ، شخصیت ، دلچسپیوں ، اہلیتوں، مذہبی عقائد اور شخصی اقدار سے متعلق تھے ان محققین کا مقصد یہ جاننا تھا کہ ان سب اعلیٰ ترین کارنامے انجام دینے والوں میں مشترک خصوصیت کیا ہے ، اگرچہ لوگوں نے مختلف شعبوں کے حوالے سے مختلف جواب دیے لیکن سب میں ایک خصوصیت مشترک نکلی اور وہ یہ تھی کہ وہ دیر تک سخت محنت کرنے پر آمادہ تھے۔

ان سب نے بتایا کہ کامیابی انھیں قسمت سے یا اتفاقا نہیں ملی انھوں نے سخت ترین محنت اور نہایت مضبوط عزم کے ذریعے اسے حاصل کیا ہے ان لوگوں نے شارٹ کٹ ڈھونڈنے اور محنت سے جی چرانے کے بجائے دل لگا کر کام کیا۔ محنت کوکامیابی کے حصول کے عمل کا ایک لازمی جزو سمجھ کر قبول کیا، ان سب کا موقف تھا کہ حقیقی کامیابی ان کو ملتی ہے جو اس کے حق دار ہوتے ہیں ان سب نے بھی کامیابی کی قیمت ادا کی تھی۔اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے درست منصوبہ بندی اور سچی لگن سے محنت اور محنت ہی وہ کنجی ہے جو انسان کوکامیابی دلاتی ہے۔

اس سروے کا ایک اور مقصد یہ جاننا تھا کہ '' کون کامیاب ہوسکتا ہے '' محققین نے جمع شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ '' ہر شخص کامیاب ہوسکتا ہے '' محققین لکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی تحقیق کے نتیجے کے میں کوئی چونکا دینے والی بات دریافت نہیں کی بلکہ انھوں نے اس قدیمی مقولے کی توثیق کرنیوالے حقائق یکجا کیے ہیں کہ '' محنت اور عزم انسان کو کامیابی عطا کرتے ہیں۔''

عظیم امریکی صنعت کار آمنڈ ہیمر نے جوکہ 1990میں 92 سال کی عمر میں فوت ہوا اس نے کہا تھا '' میں اپنے کام سے محبت کرتا ہوں ، میں کام شروع کرنے کے لیے کل کا انتظار نہیں کرتا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نئے آئیڈیاز کے بغیر نیند سے جاگا ہوں، میرے لیے ہر چیز ایک چیلنج ہے۔'' لن یوتانگ نے یہ ہی بات اس طرح کہی تھی '' دنیا میں سب سے زیادہ ناخوش وہ ہیں جو کچھ کرنا نہیں چاہتے خوشی انھیں ملتی ہے جو اپنا کام بھر پور انداز میں انجام دیتے ہیں کیونکہ اس کے بعد آرام اور تازگی کا ایک نہایت خوب صورت وقت آتا ہے سچی خوشی دن کا کام درست انداز میں انجام دینے سے حاصل ہوتی ہے۔''

اگر آپ کامیاب اور خوش قسمت بننا چاہتے ہیں تو یہ سادہ سا فارمولا ہمیشہ یاد رکھیں کہ درست انتخاب۔ اچھی عادت ، کامیابی ، اطمینان و سکون ، لیکن اگر آپ ان تمام باتوں کو بیکار ، لغو ، غلط تصورکرتے ہیں اور آپ کرپشن ، لوٹ مار، دھوکا دہی ، فراڈ ، حق تلفی اور شارٹ کٹ کی مدد سے راتوں رات امیر وکبیر اور اقتدار و اختیار حاصل کرنے کو درست راستہ تصورکرتے ہیں تو آپ ہرگز یہ راستہ اپنانے میں دیر نہ کیجیے اور امیر وکبیر اور با اختیار بننے کا شوق پورا کرلیجیے اور پھر تھوڑے ہی عرصے بعد جب آپ شدید پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کررہے ہوں گے اور آپ کے دن رات اذیتوں اور بے سکونی میں گذر رہے ہوں گے تو اس وقت آپ کو ہماری یاد بہت ستائے گی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی اور یہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ گذرا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا ہے۔ ایلن لیکائن نے کہا تھا '' وقت زندگی ہے یہ جاکر واپس نہیں آتا وقت ضایع کرنا زندگی کو ضایع کرنا ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔