دی کشمیر فائلز
کانگریس سمیت تمام بھارتی حزب اختلاف کی پارٹیاں اس فلم کی مذمت کر رہی ہیں
بی جے پی کی حکومت مسلم دشمنی میں بھارت کی تمام سابقہ حکومتوں سے سبقت لے گئی ہے۔ بی جے پی دراصل آر ایس ایس کی سیاسی شاخ ہے۔ آر ایس ایس مسلم دشمنی کے سلسلے میں برصغیر کی تقسیم سے قبل ہی بدنام ہو چکی تھی۔
اس تنظیم کا قیام ہی مسلمانوں کو برصغیر سے باہر نکالنے اور یہ ممکن نہ ہو تو ان کا قتل عام کرکے برصغیر میں ان کا وجود ختم کرنے کے لیے عمل میں آیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو مسلم اتحاد میں دراڑ ڈالنے والی یہی سخت گیر تنظیم تھی۔ اس کی اور مہا سبھا کی مسلم کش مہم جوئی کے نتیجے میں ہی پاکستان کا قیام ناگزیر ہوگیا تھا۔ ہندو مسلمانوں کو باہم لڑانے کی انگریزوں کی پالیسی کو ان دونوں انتہا پسند تنظیموں نے کامیاب کر دکھایا تھا۔
1857 کی جنگ آزادی میں ہندو مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکالنے کے لیے جدوجہد کی تھی اور اپنی بہادری سے انگریزوں کے برصغیر سے پیر اکھاڑ دیے تھے ، مگر کچھ غدار سکھوں اور ہندوؤں نے انگریزوں کا ساتھ دے کر ان کے اقتدار کو بچا لیا تھا۔ اس جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے ہندو مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔
اس ضمن میں وائس رائے لارڈ کرزن نے اہم کردار ادا کیا۔ اس نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کو شعبہ تعلیم اور نوکریوں میں خصوصی رعایتیں دینا شروع کیں ساتھ ہی مغلوں اور ان سے پہلے کے مسلمان بادشاہوں کی ہندوؤں پر ظلم و ستم ڈھانے کی جھوٹی کہانیاں گھڑنا شروع کیں۔ اس سلسلے میں انگریز مصنفین سے متعدد کتابیں لکھوائی گئیں جنھیں سرکاری طور پر پورے برصغیر میں پھیلا دیا گیا ساتھ ہی ہندوؤں کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے انھیں ہندوستان کا وارث اور مسلمانوں کو غاصب قرار دیا جانے لگا۔
ان ہی دنوں ایک مراٹھا مصنف دا مودر ساورکر انگریز حکومت کے خلاف ایک کارروائی میں گرفتار ہوگیا۔ اسے ایک انگریز اسٹیشن ماسٹر کے قتل کے جرم میں کالے پانی کی سزا دی گئی۔ اس سے پہلے بھی وہاں بہت سے ہندو مسلمان انگریز سرکار کے خلاف بغاوت کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔ ساورکر انڈومان کی بدنام زمانہ سیلولر جیل کی سخت سزا برداشت نہ کر سکا چنانچہ اپنی رہائی کے لیے انگریز سرکار سے معافی کی اپیلیں کرنے لگا۔
انگریزوں نے اسے رہا کرنے کے لیے چند شرائط رکھیں جن میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ وہ آزاد ہو کر مسلمانوں کے خلاف کتابیں اور کتابچے لکھے گا اور ایک سخت گیر ہندو تنظیم بنا کر مسلمانوں کے خلاف مہم چلائے گا۔ ساورکر نے انگریزوں کی تمام شرائط قبول کرلیں چنانچہ اسے رہا کردیا گیا۔ پھر اس نے انگریزوں سے وعدے کے مطابق ان کی آشیر باد سے مسلمانوں کے خلاف نہ صرف کتابیں اور کتابچے شایع کیے بلکہ ہندو مہاسبھا تشکیل دے کر مسلمانوں کے خلاف منظم تحریک شروع کردی۔
ہندو مہاسبھا کے بعد انگریزوں کی سرپرستی میں ایک اور سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے نام سے وجود میں آگئی۔ اس نے وجود میں آتے ہی مسلمانوں کا خون بہانہ شروع کردیا۔ اس کے دہشت گردوں نے بہار اور یو پی کے کئی اضلاع میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے علاوہ ان کے گھروں کو آگ لگائی۔ اس نے مسلمانوں کو دھمکی دی کہ وہ ہندو دھرم اختیار کر لیں ورنہ انھیں جبراً ہندو بنایا جائے گا۔
اس نے اس ضمن میں شدھی تحریک شروع کی جس کے نتیجے میں لاڑکانہ اور میوات کے کچھ دیہاتوں کے مسلمان آر ایس ایس کے غنڈوں کے خوف سے ہندو بن گئے مگر بعد میں وہ پھر واپس اسلام کے دائرے میں آگئے۔ اسی وقت نبی آخر الزماںؐ کی ناموس کے خلاف کتابیں اور کتابچے شایع ہونے لگے۔ مسلمانوں نے ان کا جواب نہایت جواں مردی سے دیا اور ایسی کتابیں اور کتابچے لکھنے والوں کو واصل جہنم کرنا شروع کردیا۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کو خیرباد کہنے کا پروگرام بنالیا اور وہ پورے برصغیر کا اقتدار ہندوؤں کو دینا چاہتے تھے مگر محمد علی جناح کی دور اندیشی کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔ اس کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا آر ایس ایس کے غنڈوں نے رہنا مشکل بنا دیا۔ گو کہ کانگریس نے ہندوستان پر ساٹھ سال سے زیادہ عرصے تک حکومت کی مگر وہ بھارت کو ایک سیکولر ریاست نہ بنا سکی۔
دراصل وہ خود انتہا پسند ہندو تنظیموں کی آلہ کار بنی رہی ، اسی لیے بھارت کی ہندو اکثریت بی جے پی کی ہمنوا بن گئی اور آج بی جے پی دوسری مرتبہ الیکشن جیتنے کے بعد اب تیسری مرتبہ بھی جیتنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ دراصل اس کا مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت کا فارمولا بہت کامیاب ثابت ہوا ہے۔ اس فارمولے کے تحت اس کا ہر اقدام مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے جس سے وہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے میں کامیاب ہو رہی ہے اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کر رہی ہے۔
حال ہی میں بی جے پی حکومت کی مالی اعانت سے ایک مسلم مخالف فلم '' دی کشمیر فائلز'' کے نام سے تیار کرائی گئی ہے۔ اسے خاص اتر پردیش اسمبلی کے حالیہ الیکشن کے نتائج کے آنے والے دن ریلیز کیا گیا ہے۔ یہ فلم پورے بھارت کے سینماؤں میں دکھائی جا رہی ہے۔
اس فلم کا ڈائریکٹر ایک متعصب ہندو وویک اگنی ہوتری ہے۔ انوپم کھیر جو بی جے پی سے خاص لگاؤ رکھتا ہے اس نے اس فلم میں مرکزی رول ادا کیا ہے۔ اس فلم کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور کشمیر سے نقل مکانی کرنے والے ہندو پنڈتوں پر نام نہاد مظالم دکھا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ یہ سراسر پروپیگنڈا ہے۔
اس فلم کا اصل مقصد مسلمانوں کو ظالم اور ہندوؤں کا دشمن ظاہر کرنا ہے مگر اس فلم کو خود کشمیری پنڈتوں نے ایک پروپیگنڈا فلم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم کے ذریعے مودی نے ان کے لیے کشمیر میں مزید مشکلات پیدا کردی ہیں اور اس طرح وہ زندگی بھر کشمیر میں واپس آباد نہیں ہو سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں نے ہندو پنڈتوں پر کوئی ظلم نہیں کیا اصل ظالم بھارتی فوج ہے جس کے خوف سے انھیں کشمیر کو چھوڑنا پڑا تھا۔
کانگریس سمیت تمام بھارتی حزب اختلاف کی پارٹیاں اس فلم کی مذمت کر رہی ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اخلیش یادو نے کہا کہ اگر کشمیری پنڈتوں پر فلم بن سکتی ہے تو پھر بھارتی کسانوں پر بی جے پی کے غنڈوں کے مظالم دہلی کے مسلمانوں کے قتل عام ساتھ ہی گجرات میں قتل عام پر بھی فلم بننی چاہیے۔ مودی سرکار پہلے بھی پاکستان کے خلاف کئی جعلی مہمات کر چکی ہے مگر اس میں اسے منہ کی کھانا پڑی۔
حال ہی میں اس کا ایک جوہری براہموس میزائل پاکستانی حدود میں آگرا ہے۔ یہ بھی پاکستان کے خلاف مودی کی جعلی مہم جوئی ہو سکتی ہے مگر اس واقعے نے بھارت کو ایک غیر ذمے دار ملک کے طور پر بدنام کردیا ہے۔ چند دن قبل بھارت نے اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا کی قرارداد کے خلاف ووٹ دے کر خود کو عالمی سطح پر مسلم دشمن ملک ثابت کردیا ہے کاش کہ ہمارے بھائی مسلم ممالک اس بات کا ہی نوٹس لے لیں اور مودی کی دوستی سے باز آجائیں۔