او آئی سی کانفرنس

سوال وہی ہے کہ کیا مسلم ممالک اپنے اختلافات بھلانے اور انفرادی مفادات کی بیڑیاں کاٹنے پر آمادہ اور سنجیدہ ہیں؟


MJ Gohar March 27, 2022
[email protected]

تقریباً سات دہائیاں قبل 21 اگست 1949 کو ایک یہودی ڈینس نے مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ میں آگ لگا دی تھی۔ 3 گھنٹے کے لگ بھگ مسجد شعلوں کی لپیٹ میں رہی جس کے نتیجے میں عین قبلے کی طرف کا ایک بڑا حصہ منہدم ہو گیا۔

محراب میں موجود وہ منبر بھی آتشزدگی کی نذر ہو گیا جسے صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کی فتح کے بعد وہاں نصب کیا تھا۔ مسلم دنیا کی تاریخ کا یہ وہ الم ناک اور تکلیف دہ سانحہ تھا جس نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو دلی صدمہ پہنچایا۔

قبلہ اول کو آگ لگانے کا یہ دل خراش حادثہ عالم اسلام کے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور مسلمانوں کے اتحاد، یکجہتی، محفوظ مستقبل اور پوری دنیا میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کے حوالے سے اسلامی دنیا کے حکمرانوں کے لیے غور و فکر کا سامان بن گیا۔

قبل اول کے اس غم ناک واقعے کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک آواز اور ایک پہچان قائم کرنے کی غرض سے عالم اسلام کے حکمران سر جوڑ کر بیٹھے اور مسلم ممالک کی ایک تنظیم او آئی سی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا پہلا اجلاس مراکش کے دارالحکومت رباط میں شاہ حسن ثانی کی سربراہی میں منعقد ہوا۔

اس اجلاس میں کی گئیں تقاریر اور اعلامیے کے اجرا کے بعد عالم اسلام کے مسلمانوں میں یہ امید پیدا ہوگئی کہ قبلہ اول کے سانحے کے نتیجے میں جس جوش، جذبے اور بلند حوصلوں کے ساتھ ایک واضح مقصد لے کر او آئی سی کے پلیٹ فارم پر دنیا بھر کے مسلمان ممالک متحد و منظم ہوئے ہیں تو یقینی طور پر مستقبل میں اسلامی دنیا کے اس مضبوط اتحاد کی بدولت مغربی سامراج اور اس کی باقیات سے جلد چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔

مسلم امہ کے دیرینہ تنازعات یعنی مسئلہ کشمیر اور تنازعہ فلسطین کا کوئی نہ کوئی قابل قبول حل تلاش کرلیا جائے گا اور ارض کشمیر و فلسطین پر مسلمانوں کا لہو بہنے کا سلسلہ تھم جائے گا، لیکن یہ ہو نہ سکا وقت گزرتا گیا۔ تنظیم کا دوسرا اہم اجلاس فروری 1974 میں لاہور میں منعقد ہوا جس میں مسلمان ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کا سہرا اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی جرأت مندانہ اور قائدانہ کاوشوں کے سر جاتا ہے۔

سعودی عرب کے شاہ فیصل کی سرپرستی اور مالی تعاون نے بھی دوسرے سربراہی اجلاس کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلام دشمن قوتیں مسلم دنیا کے سربراہوں کی یکجہتی و اتحاد دیکھ کر شش و پنج میں پڑ گئیں اور ان پر یہ گھبراہٹ طاری ہوگئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بھٹو اور شاہ فیصل کی سرپرستی میں مسلمانوں کا یہ اتحاد مغربی دنیا کے لیے خطرے کی علامت بن جائے۔ کچھ عرصے بعد ہی خفیہ سازشوں کے ذریعے بھٹو کو تختہ دار اور شاہ فیصل کو ان کے بھتیجے کے ہاتھوں قتل کرا کے راستے سے ہٹا دیا۔ یوں مسلم دنیا کے اتحاد کے لیے کام کرنے والی دو توانا آوازیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئیں۔

امریکا اور مغرب کی سرپرستی میں عرب اسرائیل جنگ سے نہ صرف یہ کہ عرب ملکوں کے اتحاد کا خواب چکنا چور ہو گیا بلکہ مسلم دشمن قوتوں کے حوصلے بھی بلند ہو گئے۔ اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے بڑے فخریہ انداز میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ اب عرب ممالک متحد ہو کر ہمارے لیے کبھی بھی خطرہ نہیں بن سکیں گے، مگر ایک اسلامی ملک ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے اور وہ ہے پاکستان۔

آج دنیا بھر کے 57 مسلم ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم سے متحد و منظم اور ایک آواز بن کر اپنے مسائل حل کرنے میں کلیتاً کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں تو اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اپنے اپنے مفادات کے اسیر مسلم ممالک اسلام دشمن قوتوں کے سامنے متحد ہو کر کسی بھی مسئلے پر ایک آواز نہیں اٹھاتے کہ کہیں ان کے اپنے مفادات کو گزند نہ پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر سے لے کر فلسطین تک اور عراق سے لے کر افغانستان تک مسلمان ملکوں میں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے لیکن او آئی سی کے پاس سربراہی اجلاسوں سے لے کر وزرائے خارجہ و دیگر سطح تک کے اجلاسوں میں منظور کی گئی قراردادوں اور اعلامیوں کا نتیجہ محض نشستند، گفتند اور برخاستند سے آگے کچھ نہیں نظر آتا۔

مکہ میں چودھویں اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب کے دوران سعودی عرب کے شاہ سلمان نے کہا تھا کہ مسلمان ممالک اپنے اختلافات بھلا کر باہمی تعاون اور اتحاد کا مظاہرہ کریں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان پہلی مرتبہ مذکورہ اسلامی سربراہی اجلاس میں شریک ہوئے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ مسلم دنیا کو اس وقت عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کا سامنا ہے۔ مغرب میں اسلام کے بارے میں غلط پروپیگنڈا کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا جا رہا ہے، کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے، مغرب میں ہمارے نبیؐ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے جس پر مسلم ممالک میں ردعمل کا فقدان ہے جو او آئی سی کی ناکامی ہے۔

گزشتہ ہفتے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کا 48 واں دو روزہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے بھی خطاب کیا اور کشمیر سے لے کر فلسطین تک اور اسلامو فوبیا سے لے کر دہشت گردی تک دنیا بھر میں مسلمانوں کو درپیش سنگین چیلنجز پر تقاریر کی گئیں اور قراردادیں بھی منظور ہوئیں۔ افغانستان کی صورتحال خاص طور سے زیر بحث آئی۔

وزیر اعظم عمران خان نے مذکورہ اجلاس میں اپنے کلیدی خطاب میں بڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ہم نے مایوس کیا، عالمی قراردادوں کے باوجود ہم ان دونوں مسائل کو حل کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ دنیا میں ہماری تعداد ڈیڑھ ارب ہے پھر بھی کوئی ہماری بات نہیں سنتا اور نہ ہی سنجیدہ لیتا ہے کیوں؟ اس لیے کہ ہم تقسیم ہو چکے ہیں۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے اور ایک مشترکہ موقف نہیں اپنایا تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کسی تنازع یا بلاک کا حصہ بننے کے بجائے ہم ایک واحد مسلم بلاک بنائیں اور بنیادی ایشوز پر مل کر او آئی سی کو متحدہ فرنٹ بنائیں۔

وزیر اعظم نے بجا طور پر کہا کہ ہم تنازع کے نہیں بلکہ امن کے شراکت دار ہیں۔ انھوں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے، افغانستان میں سنگین انسانی بحران کے خدشات، یوکرین تنازعہ اور دیگر اہم معاملات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں، جیساکہ یو این کی جنرل اسمبلی نے ہر سال 15 مارچ کی تاریخ کو دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کے خلاف فضا منظم کرنے کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔

سوال وہی ہے کہ کیا مسلم ممالک اپنے اختلافات بھلانے اور انفرادی مفادات کی بیڑیاں کاٹنے پر آمادہ اور سنجیدہ ہیں؟ کیا او آئی سی کے پلیٹ فارم سے تنازعہ کشمیر و فلسطین کے حل میں کوئی مشترکہ موقف اور لائحہ عمل اختیار کرنے پر تیار ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔