موجودہ سیاسی بحران میں خیبرپختونخوا حکومت کی اہمیت

عمران خان اب بھی کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال پی پی پی اور مسلم لیگ کی کرپشن کی وجہ سے ملک کو درپیش ہے


جمشید باغوان March 28, 2022

ملکی سیاست کی حدت میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ بہار کے موسم اور مارچ کے مہینے میں گرمی 35 سینٹی گریڈ تک پہنچ چکی ہے۔ تمام کی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن گرم ہی نہیں بہت سرگرم ہیں۔

پشاور سے بھی پی ٹی آئی کے قافلے اسلام آباد جلسے کے لیے روانہ ہوئے۔ مولانا کے کارکن خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں سے بوریا بستر سمیت اسلام آباد میں ہفتے کے دن سے ہی وارد ہو چکے ہیں اور مسلم لیگ کے کارکن بھی اسلام آباد کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں کے باعث تمام تر سرکاری پالیسی سازی کا کام رک گیا ہے۔ غیر یقینی صورتحال نے عوام کو تو ایک غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔

مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے لوگ حیران و پریشان ہیں، اپوزیشن موجودہ معاشی صورتحال کی ذمے دار عمران خان کی حکومت کو قرار دے رہی ہے جب کہ عمران خان اب بھی کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال پی پی پی اور مسلم لیگ کی کرپشن کی وجہ سے ملک کو درپیش ہے۔ سوشل میڈیا پر لڑائی کرنے والے پی ٹی آئی کے جنگجو عمران خان کی حمایت میں وہ حدیں بھی پار کر جاتے ہیں جو دوسری جماعتوں کے عام کارکنوں کے لیے بھی ریڈ لائن ہوتی ہے۔

ملک میں پروپیگنڈے کا ایک طوفان برپا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ریکوڈیک کارکے اور سعودی امداد سمیت کئی کارنامے جو آرمی چیف جنرل باجوہ کے سینے پر سجے ہوئے ہیں وہ بھی عمران خان کے کھاتے میں ڈال دیے۔

پی ٹی آئی کے کارکن یہ بھول جاتے ہیں کہ شہزادہ سلمان کی پاکستان آمد کے پیچھے جنرل قمر جاوید باجوہ کی انتہائی انتھک محنت شامل تھی ۔ نواز شریف کے دور میں یمن کی لڑائی میں ساتھ نہ دینے پر سعودی عرب پاکستان سے خفا تھا۔ یہ جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جو دونوں ملکوں کو قریب لائے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات سے بھی تعلقات کی بحالی میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ شاید پی ٹی آئی کے کارکنوں کو معلوم نہیں کہ کون اس مسلسل کوشش میں تھا کہ ریکوڈک پر کام واپس شروع ہو اور کارکے کے جرمانے بھی حکومت سے زیادہ کسی اور کی محنت اور کوشش سے معاف ہوئے۔ خیر واپس آتے ہیں سیاسی گرمی کی طرف اگرچہ خیبرپختونخوا میں حالات معمول پر ہیں جن کارکنوں نے اسلام آباد جانا تھا ان میں سے اکثر چلے گئے ہیں۔ مسلم لیگی کارکن بھی روانہ ہو چکے ہیں۔

خیبرپختونخوا سے یہ قافلے پرامن انداز میں اسلام آباد داخل ہوئے کہیں کوئی بدمزگی نہیں ہوئی اللہ کرے یہ سیاسی جماعتیں اسلام آباد میں بھی ایسے ہی پرامن رہیں کیونکہ عدم استحکام خراب معاشی صورتحال کے لیے ایک اور خطرے والی بات ہے۔ بیانات کی گرما گرمی کافی عروج پر ہے، الزامات کا سلسلہ بھی برقرار ہے ابھی اگلے دن ہی بلاول بھٹو نے جلسے سے خطاب کے دوران عمران خان کی اہلیہ کی کرپشن کے حوالے سے بات کی اور الزام لگایا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کو پیسے دینے کے بعد ان کی اہلیہ کی سفارش پر وزیراعلیٰ بنایا گیا ادھر عمران خان بھی ڈیزل سے بوٹ پالش پر آ گئے ہیں۔

انھوں نے اب مولانا کو ڈیزل کہنا بند کر دیا ہے حالانکہ کئی جلسوں میں عوام نے بھی وزیراعظم عمران خان سے یہ نعرہ لگوانے کی فرمائش کی لیکن عمران خان نے احتراز برتا اور جذبات میں نہیں آئے۔ اتوار کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے کا نام عمران خان اور ان کی جماعت نے امر بالمعروف رکھا ہے۔ اسی نام سے مجھے سابقہ خیبر ایجنسی میں سرگرم عمل لشکر اسلام اور ان کے امیر منگل باغ یاد آ گئے۔

جنھوں نے لشکر اسلام سے پہلے امر بالمعروف نامی تنظیم قائم کی تھی اور کئی لوگوں کو سزائیں بھی دیں جس میں کوڑوں کی سزا بھی شامل تھی۔ اسی طرح 2003 میں شمالی وزیرستان کے اندر مستان گروپ کے خلاف مدرسے کے طلباء نے جب احتجاج کیا تو امر بالمعروف کا عملی مظاہرہ بھی پیش کیا اور چند گھنٹوں کے اندر مستان نامی گروپ کا وجود ہی ختم ہو گیا لیکن شمالی وزیرستان میں ایک لمبی لڑائی کا آغاز بھی ہوا۔ سابقہ مہمند ایجنسی میں بھی طالبان نے امر بالمعروف کا نعرہ لگا کر کئی ایک لوگوں کو سرعام سزائیں بھی دیں۔

مدینہ کی ریاست کے بعد امر بالمعروف کا نعرہ لگانے پر سوچ کی ضرورت ہے اس طرح لگ رہا ہے کہ عمران خان اب کرپشن کے بعد اپنی سیاست کا رخ مذہب کی طرف موڑ رہے ہیں ' شاید انھیں مشورہ دیا گیا ہے کہ اس طرح ان کے مداحوں میں اضافے کا امکان ہے اور شاید اسی لیے وہ مسلسل مولانا فضل الرحمن کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

دونوں طرف سے ماحول گرم ہے لیکن مرکز، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مقابلے میں خیبرپختونخوا کا سیاسی درجہ حرارت ابھی بے قابو نہیں کیونکہ یہاں پر اسمبلی میں پی ٹی آئی کو واضح برتری حاصل ہے دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی بھی مرکز اور پنجاب کے مقابلے میں کافی بہتر ہے جس کا تو اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ اگرچہ کرپشن کے الزامات بھی اٹھتے رہتے ہیں کئی ایک وزراء کو فارغ بھی اسی بنیاد پر کیا گیا۔

کرپشن کے حوالے سے کئی ایک کیسز نیب میں زیر التواء بھی ہیں لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کی عددی اکثریت برقرار ہے اگرچہ چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان کو پشاور سے مدد نہ ملنے کا طعنہ کسی اور تناظر میں دیا تھا لیکن یہ بات عیاں ہے کہ اگر عمران خان مرکز اور پنجاب کی حکومتوں سے ہاتھ دھو بھی بیٹھیں تو خیبر پختونخوا ایک بار پھر ان کے لیے قلعے کا کام کرے گا اور اس صوبے میں قلعہ بند ہو کر وہ مستقبل کی سیاسی لڑائی آسانی کے ساتھ لڑ سکتے ہیں۔

اسی قلعے کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے پی پی کے صوبائی صدر نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کے خلاف بھی عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا لیکن کسی نے اس کو اس لیے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا کہ اپوزیشن کے پاس اسمبلی میں انتہائی کم ممبران ہیں۔

خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت بغیر کسی بیساکھی کے قائم ہے اس لیے بھی اس کو شکار کرنا مشکل ہو گا۔ اٹھارویں ترمیم کی بدولت اب صوبائی اسمبلی دو صورتوں میں تحلیل ہو سکتی ہے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد یا اس صوبے کا منتخب وزیراعلیٰ اپنے حکم سے نئے انتخابات کا اعلان کرکے اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔

مرکز میں تبدیلی سے صوبوں میں یک لخت تبدیلی کا زمانہ اب گذر چکا ہے۔ اسی لیے عمران خان کے پاس ایک مورچہ تو ضرور باقی بچے گا جہاں سے بیٹھ کر وہ مذہب اور کرپشن دونوں کا نعرہ لگا کر کسی کمزور حکومت کو بدترین معاشی صورتحال میں کسی طور چین سے بیٹھنے نہیں دے گا۔ مطلب لڑائی اور تصادم کا امکان بہر صورت میں باقی رہتا ہے۔ اس لیے معاملے کو سیاسی بصیرت کے ساتھ افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے۔

عمران خان کے امر بالمعروف جلسے کے مقابلے میں دیگر جماعتوں کے کارکن بھی اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ اسمبلی کے اندر لڑنے والی لڑائی کو دارالحکومت کی سڑکوں پر لڑنا کسی طور بھی مناسب نہیں۔ تحریک انصاف کو تحریک کے بجائے ایک سیاسی جماعت کی طرح اس کا جواب دینا چاہیے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک اچھی پیشکش کی ہے وہ ہے قبل از وقت انتخابات۔ اگر اس ملک کے ذمے دار لوگ، حکومت اور اپوزیشن کو کسی طرح مفاہمت کی طرف لے جا سکتے ہیں تو وہ قبل از وقت انتخابات ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔