لاہور اور ماضی کے میلے

لاہور کے میلے اس شہر اور قرب و جوار کے عوام کےلیے تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھے


لاہور میں آئے دن میلے لگے رہتے تھے۔ (تصاویر: بلاگر)

کراچی:

ست دن تے اٹھ میلے
گھر جاواں، کیڑے ویلے


لاہور، جس کا ماضی اپنی رونقوں سے منسوب ہے۔ قدیم زمانے سے ہی لوگ دور دراز سے اس شہر کی رونقیں دیکھنے آیا کرتے تھے۔ کہا جاتا تھا جو ایک بار اس شہر میں آگیا پھر یہ شہر اسے کہیں جانے نہیں دیتا۔ وہ دنیا میں کہیں بھی چلا جائے وہ خوابوں، خیالوں میں بس یہیں کا ہو رہتا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ اس شہر کی رونق، میلے اور گہما گہمیاں تھیں۔

لاہور میں آئے دن میلے لگے رہتے تھے۔ میلہ چراغاں، بسنت کا میلہ، قدموں کا میلہ، پار کا میلہ، عرس داتا گنج بخش، جوڑ کا میلہ اور اس جیسے کئی ایک میلے، جن کی فہرست بہت لمبی ہے۔

یہ میلے اس شہر اور قرب و جوار کے عوام کےلیے تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔ تب تک میڈیا نے بھی کچھ خاص ترقی نہ کی تھی۔ لوگ اپنی مصروف زندگی میں سے چند لمحات چُرا کر ایسے میلوں میں تفریح کا سامان ڈھونڈتے تھے۔ جہاں نت نئے بازیگر مختلف کرتب دکھاتے نظر آتے تو کہیں جادوگر اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھا کر لوگوں کو محظوظ کرتے۔ بچے جھولے جھولتے اور مٹی کے کھلونے لے کر خوش ہوجاتے۔

وقت بدلا اور گھر گھر میں ٹیلی وژن، کمپیوٹر اور موبائل آگئے۔ ساتھ ہی لوگوں کی ترجیحات بھی بدل گئیں۔ اب تفریح کےلیے گھر سے نکلنے کی ضرورت ختم ہونے لگی۔ پھر کبھی دہشت گردی کے واقعات نے بھی مجبور کردیا کہ تفریح کو گھر کے آنگن تک محدود کرلیا جائے۔ اس سے میلوں کی روایات دم توڑ گئیں اور آج یہ وقت آگیا ہے کہ نئی نسل جانتی ہی نہیں کہ میلے کیا ہوتے ہیں۔

ملک میں سیکیورٹی کے حالات بہتر ہونے سے حالات میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ اب عوام گھروں سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سوال خاصا مشکل ہے کہ ایسی کون سی تفریح ہے جسے اپنے خاندان کے ساتھ انجوائے کیا جاسکتا ہے؟ شہر بھر میں بڑے بڑے مال، شاپنگ سینٹر، ریسٹورینٹس اور سینما کسی حد تک تو تفریح فراہم کرتے ہیں لیکن ایک ایسی تفریح جو آپ کو اپنی روایات کے قریب لے جائے، آپ کی تاریخ، ثقافت، روایات سب ایک جگہ موجود ہوں، ایسی تفریح اس ملک میں نایاب تھی۔ ایسی صورتحال میں والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی نے اندرون شہر لاہور میں ٹور متعارف کروائے تاکہ ایسے لوگ جو تاریخی عمارات، تاریخ اور اپنی ثقافت میں دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں ایک بہترین تفریح فراہم کی جائے۔ ان ٹورز میں سے ایک ''ہسٹری بائی نائٹ'' ٹور ہیں۔

والڈ سٹی لاہور اتھارٹی نے تاریخ میں پہلی بار قلعہ لاہور کو رات کے وقت ان ٹورز کےلیے کھولا ہے۔ ہسٹری بائی نائٹ ایک بالکل منفرد طرز کی سیاحت کا نام ہے۔ اس ٹور کےلیے ٹورسٹ گائیڈز کو خصوصی طور پر تربیت دی گئی ہے اور وہ ماضی کے قصے کہانیاں بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہوئے سیاحوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس ٹور کےلیے پہلی بار روشنائی دروازہ، حضوری باغ، مزار اقبال، بارود خانہ، شیش محل اور شاہی باورچی خانہ کی عمارت کو روشنیوں سے سجایا گیا۔



یہ ٹور قلعے کے روشنائی دروازہ سے شروع ہوتا ہے، جہاں ڈرامائی انداز میں بگل پلیئر، بگل بجاتا ہے اور مغلیہ دور کے ملبوسات زیب تن کیے چوبدار اپنے روایتی انداز میں، مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ چوبدار شاہانہ ڈائیلاگز کی ادائیگی روایتی رعب و دبدبہ سے کرتے ہوئے سیاحوں کو تاریخ کے جھروکوں میں لے جاتے ہیں۔

سیاحوں کےلیے مختلف مقامات پر مغل، سکھ اور برطانوی دور کے ملبوس محافظ اور چوبدار کھڑے کیے گئے ہیں۔ ٹور کے دوران سیاحوں کےلیے بانسری، ڈرم پلیئر اور ستار کی پرفارمنس کا انتظام کیا گیا ہے۔ شیش محل میں خوبصورت کتھک پرفارمنس ہوتی ہے، جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ اس کے علاوہ اس ٹور کے اختتام پر شاہی باورچی خانے میں ڈھول پرفارمنس کا انتظام کیا گیا ہے۔ الغرض یہ کہ اس ٹور میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس سارے ٹور کے دوران رنگیلا رکشہ کی سواری ایک اہم دلچسپی ہے، جس میں بیٹھ کر سیاح قلعہ لاہور کی دیوار مصوری، جسے دنیا کی سب سے بڑی دیوار مصوری ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اسں کی سیر کرتے اور رنگیلا رکشہ کی سواری سے لُطف اٹھاتے ہیں۔



ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی اور تفریحات عوام کو فراہم کی جائیں، جہاں لوگ اپنی روزمرہ کی پریشانیاں بھول کر تازہ دم ہوسکیں۔ مزید برآں اس طرح کے تفریحی پروگرام ہمارے ملک کا مثبت امیج بنانے کا باعث بنیں گے اور ہمارے تاریخی ورثے کے مقامات پر سیاحوں کی زیادہ آمد کا باعث بنیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں