گھر جاواں میں کہڑے ویلے
سیاسی میدان میں گرمی کی حدت میں روز بروز اضافے کے ساتھ بہار کے خوشگوار موسم میں بھی درجہ حرارت کچھ زیادہ ہے
وہ جوکہتے ہیں کہ جب بھی بولو اچھا بولو تا کہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے ، اسی لیے اگر کوئی ہمارے سامنے نامناسب بات کر رہا ہے تو اکثر یہی کہا جاتا ہے کہ اچھا بولیں ،کیا معلوم یہی وقت قبولیت کا ہو۔
سیاسی میدان میں گرمی کی حدت میں روز بروز اضافے کے ساتھ بہار کے خوشگوار موسم میں بھی درجہ حرارت کچھ زیادہ ہے اور جاڑے کی سردیوں کے بعد بہار کی آمد کا جس شدت کے ساتھ انتظار کیا جاتا تھا وہ بہار اس مرتبہ نہیں آ سکی اور سردی کے فوری بعد گرمی شروع ہو گئی ہے۔
یہ بات یوں یاد آگئی کہ کچھ دن قبل ہمارے محترم مولانا فضل الرحمن نے سیاسی زبان میں سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ بہار آئے نہ آئے خزاں جائے اور اپنی اس بات کو انھوں نے کئی مرتبہ دہرایا بھی ۔ شاید وہ وقت بھی اﷲکے ہاں قبولیت کا تھا۔
بہار کے موسم کی نسبت سے میلے ٹھیلے یاد آگئے ہیں۔ سرد موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی ملک بھر خصوصاً پنجاب میں میلوں ٹھیلوں کا آغاز ہو جاتا ہے اور لاہور میں میلے زیادہ منعقد ہوتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں بڑ ے شہر وں کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن اس وقت بھی لاہور کی شان الگ تھی۔ اسے کالجوں اور باغات کا شہر کہا جاتا تھا ۔ شہر کی فیصل کے باہر چاروں طرف باغات کا ایک طویل سلسلہ تھا اور یہ باغات لاہوریوں کے لیے پسندیدہ تفریح گاہ تھے۔ انگریز دور میں دو شہر کرسمس کی تقریبات کے لیے پسندیدہ تھے۔
ایک لاہور اور دوسر ا کلکتہ اور یہ کہا جاتا تھا کہ جس فیشن کو لاہور نے قبول کر لیا، وہ ہندوستان بھر میں مقبول ہو گیا ۔ منیر نیازی کہتے تھے کہ لاہور ایک خاص طرز کا شہر ہے اور یہ شہر اپنے ہر نئے مکین کو قبول نہیں کرتا،کئی ایک کو واپس بھیج دیتا ہے۔ منیر صاحب کے بقول اس شہر کے باسی بھی اس کی خاص پسند اور منظوری سے ہی یہاں قیام کر سکتے ہیں اور اسے شہر بنا سکتے ہیں۔
مرحوم پطرس بخاری کے اس خط کاتو ایک عالم میں شہرہ رہا ہے جوانھوں نے اقوام متحدہ سے اپنے دوست صوفی غلام مصطفی تبسم کو لکھا تھا اور اس میں پوچھا تھا کہ کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے، آج اگر یہ دونوں دوست زندہ ہوتے تو لاہوریوں کے ساتھ مل کر راوی کا ماتم کرتے اور اس کی یاد میں آہیں بھرتے۔
پرانے شہر صدیوں کی بود و باش سے اپنی ایک تہذیب اور مخصوص ثقافت تخلیق کر لیتے ہیں۔ یہ کسی کوشش سے پیدا نہیں ہوتی بس خود بخود ہی نمودار ہو جاتی ہے اور اس شہر کا تعارف بن جاتی ہے ۔ لاہور جیسے پرانے اور تہذیبی شہر کی ایک مخصوص ثقافت اور جداگانہ رہن سہن ہے، اس شہر پر نہ جانے کتنے حکمران رہے جن کا تعلق مختلف تہذیبوں اور مختلف بولیاں بولنے والوں سے تھا، یہ حکمران تو اپنی حکمرانی کے دور گزار کر چلے گئے مگر اپنی کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑ گئے۔
رہن سہن بدلتا رہا زبان میں نئے حروف اور الفاظ شامل ہوتے رہے، لباس کی تراش خراش بدلتی رہی۔ نئے نئے فیشن متعارف ہوتے گئے یہاں تک کہ نئے کھانے بھی رائج ہوتے رہے۔ عمارتوں کے نقشوں میں تبدیلی آتی رہی ،گلی کوچوں کی صورت بدلتی رہی۔ موسیقی، مصوری اور ادب کے نئے رنگ نکھرتے رہے۔ یعنی ہر دور میں لاہور کا ایک نیا پن سامنے آتا رہا ۔ پرانے شہر تاریخ کے ساتھ ساتھ نئے انداز اختیار کرتے رہے اور قدیم شہر کسی نہ کسی نئے تعارف کے ساتھ پہچانے جاتے رہے۔
لاہور شہر بھی ایک ایسا ہی پرانا شہر تھا اور اس میں وہ سب کچھ ہے جو ایک لمبی عمر پانے والے شہروں میں ہوتا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ دنیا میں اس شہر نے ایک ایسی غیر معمولی شہرت اور تشخص حاصل کیا ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔
لاہور میں بہار کے موسم میں ایک سرکاری میلہ ہارس اینڈ کیٹل شوحکومتی سرپرستی میں ایک مدت کے دوبارہ لگایا گیا لیکن اس دفعہ اس یہ میلہ تو حسب روایت تین دن میں اختتام پذیر ہو گیا لیکن اس کے ساتھ جو دستکاری اور صنعتی نمائش لگتی تھی وہ بھی ختم ہو گئی حالانکہ ماضی میں یہ نمائش ایک مہینہ جاری رہتی تھی اور اس میں عوامی مطالبے پر اضافہ بھی کیا جاتا تھا۔
اب شاید سیکیورٹی کی وجوہات ہیں جس نے لاہور کی رونقیں چھین لی ہیں اور میلوں ٹھیلوں میں وہ جوش جذبہ نظر نہیں آتا جو ان میلوں کی پہچان ہوتا تھا ۔ویسے ایک بات ہے کہ مخدوش حالات بھی عشاق کو روک نہیں پائے اور لاہور کے روائتی میلے برپا ہوتے رہتے ہیں اور اس شہر کی ثقافت کے کسی پہلوکو نئی زندگی دے جاتے ہیں۔
میلہ چراغاں میں مادھو لال حسین کی شاعری کو دہرایا جاتا ہے۔درددل سے بھری یہ شاعری اہل لاہور کے دلوںکو گداز دیتی ہے، داتا صاحب کے عرس پر میلے کی رونقیں لاہور کو چار چاند لگا دیتی ہیں اور دنیا بھر سے عقیدے مند اس موقعے پر لاہور آتے ہیں اور مزارداتا صاحب پر حاضری دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہورمیں فیض میلے کے بعد ادبی میلے کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان بھر سے ادب سے وابستہ شخصیات نے شرکت کی۔
لاہور کا شہر تو بذات خود ایک میلہ ہے، شہر کے اندر چلے جائیں اور سر شار ہو جائیں۔ لاہور میں میلوں ٹھیلوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہی اس زندہ دل شہر کی پہچان ہیں میلوں کے شوقین اصل لاہوریوں میں مشہور ہے کہ
دہاڑ ے ست تے اَٹھ میلے
گھر جاواں میں کہڑے ویلے