سوداگری
آج پھر معروف صوفی دانشور واصف یاد آ رہے ہیں
کراچی:
آج پھر معروف صوفی دانشور واصف یاد آ رہے ہیں۔ وہ اپنی کتاب حرف حرف حقیقت میں لکھتے ہیں کہ ضمیر کی آواز نہ تو ظاہری زبان سے دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کانوں سے سنائی دے سکتی ہے۔ یہ آواز بہت دور سے آتی ہے اور بہت قریب سے سنائی دیتی ہے۔ ایسے جیسے ہمارے اندر سے کوئی بولتا ہے۔ کسی نے ضمیر کی صورت نہیں دیکھی ، اس کی صرف آواز ہی سنی گئی ہے۔
شاید یہ آسمانوں سے آنے والی ہاتف کی صدا ہے، جو ہمیں ہماری آلائشوں اور غفلتوں سے نجات دلانے کے لیے آتی ہے، ہمیں اخلاقی آلودگی سے بچانے کے لیے یہ آواز پراسرار راستوں سے ہوتی ہوئی دل کے کانوں میں گونجتی ہے۔ کبھی کبھی ہم درد اور شفیق دوست کی طرح اورکبھی کبھی ایک جرنیل کے حکم کی طرح یہ آواز اپنا کام کرتی ہے۔ یہ آواز ہمارے لیے ان راستوں کو روشن کرتی ہے جو نفس کی اندھیر نگری میں گم ہو جاتے ہیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا قیام عارضی ہے۔ ہمارا وجود ہمیشہ موجود نہیں رہ سکتا۔ یہی آواز صدائے جرس ہے، ناقوسِ وقت ہے، بانگ درا ہے، ایک انتباہ ہے کہ اگر منزل پر نگاہ نہ رکھی گئی تو گردِ راہ میں کھو جانے کا خطرہ موجود رہے گا، ہم خوش فہمیوں میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ انجام نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
ضمیر کی آواز پر کان نہ دھرنے والے بڑے بڑے محلات میں رہنے کے باوجود اپنے پیچھے ویرانیاں چھوڑ گئے۔ ضمیر کی آواز کو سننا ، اسے پہچاننا ، اس پر عمل کرنا بڑے نصیب کی بات ہے۔ ضمیر ہی ہمارے اعمال کی اصلاح کرتا ہے۔ ہمیں حق اور سچ کا راستہ بتاتا ہے۔ یہی وہ آواز ہے جو حلال اور حرام میں تمیز کرنا سکھاتی ہے۔ ہم مجبوریوں کا بہانہ بنا کر جرم و گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ضمیر کی آواز ہمیں تاریک راہوں سے نکالتی ہے اور ہمارے دلوں میں خوف خدا پیدا کرتی ہے۔
آج کا انسان مصروف ہے۔ ضمیر کی آواز پر کان نہیں دھرتا۔ وہ مال گننے اور جمع کرنے کے خبط میں مبتلا ہے ، اگر اس سے روز قیامت پوچھا جائے کہ تمہیں دوزخ میں بھیجا جائے یا جنت میں، تو اس کا جواب ہوگا '' جہاں دو پیسے کا فائدہ ہو ، وہاں بھیج دیجیے۔'' ایسے انسان کے لیے ضمیر کی آواز کیا کرے؟ ضمیر جن کے زندہ ہوں وہ عارضی منفعت سے نظر ہٹا کر ایک دیرپا باقی رہنے والی حیات کی طرف توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
ضمیر کی آواز تو بدستور پکار پکارکرکہہ رہی ہے کہ اے لوگو ! حق سے زیادہ نہ لو، تاکہ محروموں کو بھی ان کا حق مل سکے، تم اپنے بچوں کو مالِ حرام کھلاتے ہو، ان کے شکم میں آگ کا لقمہ ڈالتے ہو، معصوموں کے ساتھ ظلم نہ کرو، اپنے بچوں کو رشوت کا مال کھلا کر ہلاک نہ کرو، تم جس کام کے لیے ملازم رکھے گئے ہو اسے ایمان داری سے کرو ، تم استحقاق کی بات کرتے ہو ، فرائض کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟
واصف علی واصف آگے چل کر لکھتے ہیں کہ یہ ملک لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے بنا ہے۔ قوم کو ایک اعلیٰ زندگی عطا کرنے کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا ، لیکن افسوس کہ چند ہوس پرست اور مال و دولت کے پجاری جونکوں کی طرح اس ملک کا خون چوس رہے ہیں۔
کسی غریب کو کیا فرق پڑتا ہے اگر اس پر ہندو ظلم کرے یا مسلمان اس پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ ضمیر زندہ ہے تو فرد زندہ ہے، فرد زندہ ہے تو قوم زندہ ہے اور قوم زندہ ہے تو پھر ملک بھی سلامت ہے۔
آج آپ پاکستان کی سیاست کے خد و خال دیکھ لیں ضمیر کی آواز پر کیسے کیسے منظر سامنے آ رہے ہیں، کون کس کا حامی ہے کون کس کا مخالف ہے؟ کس کا ضمیر سو رہا ہے اور کس کا ضمیر بیدار ہے؟ صبح کا منظر کچھ اور ہے تو شام کا منظر کچھ اور ہے۔ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک اور اپوزیشن سے لے کر حکومت تک ضمیر کے خریداروں اور ضمیر فروشوں کا ایک میلا لگا ہوا ہے۔ وفاداریوں کا حلف اٹھانے والے وفاداریاں بدلنے کے حلف اٹھا رہے ہیں۔
ذاتی منفعت کے لیے من مانے سودے ہو رہے ہیں۔ یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں، مطالبات پیش کیے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سبقت و برتری کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
ہر فریق دوسرے فریق کے مقابلے میں اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہا ہے، آئین و قانون کی بحث جو پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے وہ سڑکوں، جلسوں، لانگ مارچ سے لے کر عدل کے ایوانوں تک پہنچ گئی ہے۔ منصفوں سے آئین کی تشریح مانگی جا رہی ہے۔ گویا آئین بنانے اور ترامیم ''ایجاد'' کرنے والے معزز اراکین اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
جو حکومت کا حال ہے وہی اپوزیشن کا حال ہے۔ حکمران جو اتوار کو اسلام آباد کے جلسے میں ''سرپرائز'' دینے کا اعلان کر رہے تھے وہ ایک خط کو لہراتے ہوئے فرمانے لگے کہ میری حکومت ختم کرنے کے لیے عالمی سازش کی گئی ہے اور تحریری دھمکی دی گئی ہے۔
انھوں نے آف دی ریکارڈ خط کا متن دکھانے کی دعوت بھی دی۔ پھر وزراء نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ اعلیٰ سول و ملٹری قیادت کو خط کے حوالے سے معلومات دی گئی ہے اور حکومت یہ خط منصف اعلیٰ پاکستان کو دکھانے پر تیار ہے۔ وزرا کے بقول خط میں تحریک عدم اعتماد کا باقاعدہ ذکر موجود ہے۔ اس تحریری سازش کا الزام انھوں نے لیگی قائد پر عائد کیا ہے۔
مبصرین اور تجزیہ نگاروں اور اپوزیشن رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ خط کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ حکومت اس کے لیے تیار نہیں۔ اگر یہ ملک کی سلامتی کے خلاف سازش ہے تو اسے ضرور بے نقاب ہونا چاہیے۔ حکمران کہتے تھے کہ میں ایک گیند سے اپوزیشن کی تین وکٹیں گراؤں گا، لیکن انھوں نے سب سے پہلے اپنے قابل اعتماد ''وسیم اکرم پلس'' کی وکٹ پر حملہ کر دیا۔سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس میں حکمران ہوں یا اپوزیشن کے ارکان سب کے لیے ضمیر کی آواز پر لوٹا کریسی سے لے کر ہارس ٹریڈنگ تک سب جائز ہوتا ہے۔ ابھی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں ایک ہفتہ باقی ہے۔
سیاسی گروپوں کے ابھی نہ جانے کہاں کہاں ضمیر کی آواز پر ''سوداگری'' کے تماشے دیکھنے کو ملیں گے کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا دعویٰ سچ ثابت کرنے کے لیے اپنے ضمیر کی آواز سننا پڑے گی۔ حال اپوزیشن کا بھی یہی ہے کہ سیاسی قائدین جو آج حکومت کے خلاف اپنے ضمیر کی آواز پر ہم پیالہ و ہم نوالہ نظر آ رہے ہیں کل ایک دوسرے کے خلاف ضمیر کی آواز پر ایسے ایسے الزامات لگاتے تھے کہ الحفیظ الامان۔ جنرل مشرف کی آواز پر جب (ن) لیگ کے کچھ لوگوں کا ضمیر جاگا تو وہ (ق) لیگ میں تبدیل ہو گیا۔
پھر دو عشروں کے بعد دوسرں کا ضمیر جاگا تو وہ مخالفین کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئے۔ قومی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نظریے کی سیاست مفادات کی قبر میں دفن ہوچکی اور ضمیر کی سوداگری سیاست کا سمبل بن گئی۔