آگ لگتی ہے مگر اس کو ہوا دیتا ہے کون

فیکٹریوں میں بھڑک اٹھنے والی آگ کے خوف ناک سانحات میں بدل جانے کے اسباب کیا ہیں


Mirza Zafar Baig September 12, 2012
دنیا بھر میں رائج قوانین کے تحت جس جگہ تیزی سے آگ پکڑنے والی اشیا موجود ہوتی ہیں، وہاں کے لیے خصوصی حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

یہ کسی عمارت میں آگ لگنے کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، جس میں بیش قیمت جانیں ضائع ہوئی ہوں۔

بلکہ اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں۔ ہر بار معصوم لوگ ان واقعات میں ہلاک ہوتے ہیں۔ خاص کر کارخانوں میں آتش زدگی کے سانحات تواتر سے پیش آتے رہے ہیں۔ صنعتی مقامات پر آگ لگنا عام عمارات میں آتش زدگی سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہوتا ہے، کیوں کہ ان مقامات پر کیمیکل اور آگ کو بڑھاوا دینے والی دیگر اشیاء موجود ہوتے ہیں۔ کہیں بوائلر پھٹنے سے ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں، کہیں اس کے پس پردہ شارٹ سرکٹ ہوتا ہے، کہیں گیس کی لیکیج ہوتی ہے، تو کہیں گودام میں رکھی تیزی سے آگ پکڑنے والی اشیا اس آگ کی ذمے دار ہوتی ہیں۔

وجہ جو بھی ہو، ایسے سانحات رونما ہونا معمول بن چکا ہے، جس پر تھوڑا بہت شور مچتا ہے، تھوڑا بہت احتجاج ہوتا ہے، انکوائری کا غلغلہ بلند ہوتا ہے اور پھر خاموشی چھاجاتی ہے۔ لوگ اس واقعے کو بھول جاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس طرح کے دل خراش سانحات بار بار رونما کیوں ہوتے ہیں؟ کیا ہماری فیکٹریوں کے مالکان کو اپنے ورکرز کی جانوں کی کوئی فکر نہیں ہے؟ کیا وہ ان کی جانوں کے تحفظ کے لیے اقدامات نہیں کرسکتے؟ کیا ہمارے ملک میں اس طرح کے حادثات سے نمٹنے کے لیے محکمے موجود نہیں ہیں؟ کیا ہماری فیکٹریوں، کارخانوں اور ملوں کے مالکان بے حس ہیں؟ کیا اس ضمن میں کوئی قانون یا ضابطے موجود نہیں ہیں، جو انہیں اس بات کا پابند کرسکیں کہ وہ اپنے ان ورکرز کی جانوں کے تحفظ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرسکیں؟

متلعلقہ ادارے اس ضمن میں اپنا کردار کیوں ادا نہیں کر رہے؟ درحقیقت سرمایہ داروں کو تو اپنے ورکرز سے زیادہ اپنے قیمتی آلات اور مشینری کی فکر ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کا سارا زور انسانوں کو بچانے کے بجائے مشینری کو بچانے پر ہوتا ہے، کیوں کہ انہیں سرمایہ بڑھاتے مزدور نہیں، اپنا سرمایہ عزیز ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں رائج قوانین کے تحت جس جگہ تیزی سے آگ پکڑنے والی اشیا موجود ہوتی ہیں، وہاں کے لیے خصوصی حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں خاص طور سے ایسی فیکٹریوں میں اس طرح کے حفاظتی اقدامات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، جہاں تیزی سے آگ پکڑنے والی چیزیں موجود ہوتی ہیں، جیسے کیمیکلز، کپڑا، کاغذ، گتا، لکڑی وغیرہ۔ یہ چیزیں چاہے خام شکل میں ہوں یا تیار شکل میں، ان کو ایک خاص حفاظتی طریقے کے تحت اس طرح رکھا جانا چاہیے کہ یہ آگ نہ پکڑسکیں۔ اسی طرح ان تمام مٹیریل سے اشیا کی تیاری کے بعد ناکارہ ہونے والا مٹیریل بھی پوری احتیاط کے ساتھ ٹھکانے لگایا جائے، ورنہ وہ بھی آگ پکڑ کر کسی بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔

اکثر فیکٹریوں میں ایسی ہی غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس سے بڑے بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں فائر فائٹنگ (آگ بجھانے) کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور نوجوان اسے بطور پیشہ منتخب کرنے میں بڑی دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر ہمارے ہاں تو اس کے کورس کے بارے میں عام لوگوں کو علم تک نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کو اس کی اہمیت کا کوئی اندازہ ہے۔ جب کبھی کوئی بڑا سانحہ رونما ہوتا ہے تو کچھ لوگ اس حوالے سے کالم لکھتے ہیں، ایک آدھ کانفرنس ہوتی ہے، جس میں گرماگرم تقریریں کی جاتی ہیں اور پھر مکمل سکوت چھاجاتا ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں فائر پروٹیکشن منیجمنٹ یا آگ سے تحفظ کی انتظام کاری کی اصطلاح رائج ہے۔ اس انتظام کے تحت زندہ قومیں آگ سے تحفظ کے لیے بہت اچھا اور قابل عمل منصوبہ تیار کرتی ہیں۔ اس منصوبے میں آگ سے بچائو کے لیے ابتدائی اور ہنگامی اقدامات شامل ہوتے ہیں۔ یہ تمام اقدامات عمومی طور پر لوگ از خود لیتے ہیں اور جب تک آگ بجھانے والے محکمے کے لوگ جائے حادثہ پر پہنچتے ہیں، اس وقت تک وہ ابتدائی طور پر آگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں یا انسانی جانوں کو تحفظ دینے کے اقدامات کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد آگ لگنے کے بعد کسی بڑے خطرے سے بچنا ممکن ہوجاتا ہے اور اس حکمت عملی سے نقصانات کو بھی کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔

اس محکمے کے لیے اعلیٰ اور تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے شہر میں خاص طور سے ایسے مقامات کی مانیٹرنگ کرتے ہیں، جہاں آگ لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے بالخصوص جہاں بہت سے لوگ ایک ساتھ جمع ہوتے یا کام کرتے ہوں۔ اس محکمے میں تربیت یافتہ نوجوان بھی شامل ہوتے ہیں، جو ان کے معاونین کے طور پر کام کرسکیں۔ خاص طور سے ایسی بڑی بڑی اور کثیر المنزلہ عمارتوں کی حفاظت کے لیے بھی خصوصی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں تک فائر فائٹرز کی رسائی ممکن نہ ہو۔

بعض فیکٹریوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہاں ایمرجینسی گیٹ، جو کسی بھی خطرے کی صورت میں باہر نکلنے کے لیے لگائے جاتے ہیں، وہ بھی لوہے والے لگائے گئے ہیں۔ ظاہر ہے یہ گیٹ آگ لگنے کی صورت میں اس قدر گرم ہوجاتے ہیں کہ انہیں کھولنا تو درکنار چھونا بھی ممکن نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ فیکٹریوں میں ہنگامی صورت حال میں استعمال کی جانے والی سیڑھیاں اور زینے بھی لوہے کے ہی لگائے جاتے ہیں۔ ان کے قدمچے بھی چھوٹے اور پتلے ہوتے ہیں۔ ان زینوں اور سیڑھیوں کو ہنگامی صورت حال میں استعمال کرنا ممکن نہیں ہے۔

مزید یہ کہ بڑی بڑی فیکٹریوں، ملوں اور کارخانوں میں اپنا آگ بجھانے والا شعبہ بھی قائم کرنا چاہیے، تاکہ وہ کسی بھی ناگہانی صورت میں فوری طور پر کام شروع کرسکیں اور اس واقعے کی اطلاع فائر ڈپارٹمنٹ کو دے سکیں۔

اس کے علاوہ کسی بھی فیکٹری، گھر، مل، کارخانے وغیرہ میں آگ لگنے کی صورت میں وہاں موجود لوگوں کی کی بہ حفاظت محفوظ مقامات تک منتقلی کا کام فوری طور شروع کردینا چاہیے۔

اس وقت ہمیں اپنے ملک میں آگ سے بچائو کے لیے خصوصی قسم کے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر تیار کرنے کی ضرورت ہے، جن کے چند اہم نکات یہ ہیں:

عام لوگوں کو فائر فائٹنگ کی تربیت دی جانی چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ فائر ڈپارٹمنٹ کو آگ لگنے کے کسی بھی حادثے کی بروقت اطلاع دینے کا انتظام کیا جائے۔ آگ لگنے کے مقام سے متاثرہ افراد کی بہ حفاظت منتقلی کے فوری انتظامات بھی کیے جائیں۔ فائر پروٹیکشن ایکوئپمنٹ یعنی آگ بجھانے والے آلات کا باقاعدہ معائنہ (انسپیکشن) کیا جائے اور پابندی سے ان کی مین ٹیننس بھی کی جائے۔
چند ضروری ہدایات

فیکٹریوں کے داخلی اور خارجی دروازے چوڑے اور کشادہ ہوں اور یہ سب کھلے ہوں۔ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، یعنی ایسا سامان نہ رکھا ہو جس کی وجہ سے ہنگامی صورت حال میں وہاں سے گزرنے میں مشکل پیش آئے۔

آگ بجھانے والے آلات، پانی، ریت اور جدید قسم کے آلات کا بھی انتظام ہو۔ عمارتوں کے اندر اسموک ڈی ٹیکٹرز یعنی دھویں کا پتا چلانے والے خصوصی آلات لگائے جائیں تاکہ جیسے ہی اندر دھواں پیدا ہو، اس آلے پر لگا الارم بجنا شروع ہوجائے۔ عمارتوں کے اندر بڑے بورڈ لگائے جائیں جن پر نشانات اور خاکوں کی مدد سے یہ بتایا جائے کہ آگ لگنے کی صورت میں خطرناک جگہ سے کس طرح بھاگنا ہے۔ فیکٹریوں اور چھوٹے کارخانوں کے ملازمین کو ایسی تربیت دی جائے کہ آگ لگنے کی صورت میں وہاں ابتدائی اقدامات لے سکیں۔

ان میں کام کرنے والی عورتوں اور بچوں کی بہ حفاظت باہر منتقلی پر خصوصی توجہ دی جائے، کیوں کہ اکثر ہمارے ہاں ایسی فیکٹریوں میں عورتیں بھی کام کرتی ہیں اور کم عمر بچے بھی۔ فیکٹری کے اندر آتش گیر مادہ نہ رکھا جائے، اسے فیکٹری سے باہر، کچھ فاصلے پر محفوظ جگہ پر رکھا جائے۔ ان میں گیس سیلنڈر، کیمکلز، پیرافین، اسپرٹ، الکوحل، پینٹ (رنگ) پلاسٹک، فوم، ربر، لکڑی اور لکڑی کا برادہ، مائع گیس وغیرہ شامل ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں بجلی کی وائرنگ بالکل درست ہو، تار کھلے ہوئے نہ ہوں۔ تیل، پلاسٹک اور ایسی ہی دوسری اشیاء کو الگ تھلگ اور محفوظ مقام پر رکھا جائے۔

مشینوں میں تیل کی لیکیج (رسائو) نہ ہو اور نہ ہی گیس کی لیکیج ہو۔ اسے بار بار چیک کیا جائے۔ کام کی جگہوں کے علاوہ راستوں اور راہ داریوں میں مناسب روشنی کا انتظام ہو۔ ہنگامی صورت حال میں ہر فیکٹری میں ایک خاص اور تربیت یافتہ ٹیم ہونی چاہیے۔ فیکٹری یا کارخانہ قائم کرنے سے پہلے متعلقہ محکمے سے ان کا نقشہ باقاعدہ منظور کرایا جائے، کیوں کہ محکمے کے افراد کو رشوت دے کر نقشوں میں ردوبدل کرانا ہمارا معمول بن چکا ہے۔

آگ لگنے کی صورت میں ایسا انتظام ہو کہ آگ بجھانے والی گاڑیاں آسانی سے متاثرہ مقام تک پہنچ سکیں۔ اکثر اوقات ٹریفک یا تماشائیوں کے جمع ہوجانے سے ان گاڑیوں اور اس کے عملے کو اپنا کام کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ فیکٹری کے اندر ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کا انتظام بھی ہو اور ایک ڈاکٹر بھی مقرر کیا جائے۔ صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے، فیکٹری کے اندر سگریٹ نوشی کی ممانعت ہونی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں