آگ لگی دھماکے ہوئے اوربھگدڑ مچ گئی

لاہور کے علاقے شفیق آباد کی فیکٹری میں آتش زدگی کے سانحے کی سلگتی کہانی


Rana Naseem September 12, 2012
شہر میں اس سال آگ لگنے کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

موت برحق اور اس پر دُکھ فطرت کا انسان کو دیا گیا احساس ہے، لیکن موت جب انسانی غفلت کا سبب ہو تو اس احساس میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔

اسی طرح کی ایک غفلت کا اندوہ ناک اور دل دہلا دینے والا واقعہ منگل کی سہ پہر تقریباً3 بجے پیش آیا۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں شفیق آباد کے علاقہ بند روڈ پر جوتے بنانے والی فیکٹری میں آتش زدگی کے باعث تادم تحریر فیکٹری مالک سمیت26 افراد کے جاں بحق ہوجانے کی تصدیق ہوچکی ہے، جب کہ درجنوں جھلس گئے ہیں۔ آگ کے بلند و بالا شعلے دور تک دکھائی دیتے تھے۔ مزدوروں نے فیکٹری کا دروازہ نہ کھلنے کے باعث اپنی جانیں بچانے کے لیے چھت سے چھلانگیں لگادیں۔ جیسے ہی آگ لگی فیکٹری میں دھماکے ہوئے اور ہر طرف بھگدڑ مچ گئی۔

جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین خبر ملتے ہی روتے پیٹتے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور دھاڑیں مار کر روتے رہے۔ لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے رہے۔ مزدورں کا کہنا ہے کہ کارخانے کے داخلی لوہے کے گیٹ کے سامنے کیمیکل کے بھرے ڈرم پڑے تھے۔ جب جنریٹر میں آگ بھڑکی تو کیمیکل سے بھرے ڈرم زد میں آگئے۔ آگ تیز ہونے سے باہر نکلنے کا راستہ بند ہوگیا اور لوگ زندہ جل گئے۔

عینی شاہدین کے مطابق مزدوروں کی آہ و پکار سنائی دیتی رہی، مگر داخلی راستہ شدید آگ کی لپیٹ میں ہونے کے باعث وہ باہر نہ آس کے۔ مزدور عقب کی دیوار بھی توڑنے کی کوشش کرتے رہے، مگر آگ اتنی شدید تھی کی آہستہ آہستہ مدد کے لیے پکارتی آوازیں خاموش ہوگئیں۔ ریسکیو اہل کاروں نے جب عقبی دیوار توڑی، تو اس وقت تک کئی مزدور جان کی بازی ہار چکے تھے۔

فیکٹری مالک ڈرم گیٹ پر نہ رکھتا تو اتنا نقصان کبھی نہ ہوتا۔ آگ پر چار گھنٹوں میں قابو پایا گیا۔ کہا جارہا ہے کہ آگ کو بجھانے میں سہولتوں اور متعلقہ اداروں کے درمیان کوارڈنیشن میں کمی دیکھی گئی، جس کی وجہ سے ہلاکتیں زیادہ ہوئیں۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کی گاڑیاں بہت دیر بعد پہنچیں، جس سے آگ بجھانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

تھانہ شفیق آباد نے آتش زدگی اور ہلاکتوں پر اتفاقی حادثے کی رپورٹ درج کرکے معاملہ نمٹادیا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ چوںکہ فیکٹری مالک خود بھی ہلاک ہوگیا ہے، اس لیے مقدمہ درج نہیں کیا جارہا ہے۔ تاہم پولیس اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ واقعے کی تحقیقات کرائے گی۔ اگر کسی شخص کی غفلت شامل ہوئی تو مقدمہ درج کیا جائے گا۔ ضلعی رابطہ آفیسر نور الامین مینگل کا کہنا ہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق فیکٹری کے جنریٹر میں آگ لگی، جس نے عمارت میں موجود کیمیکل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پولیس کے مطابق آگ اس وقت لگی جب لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کارخانے میں موجود افراد نے جنریٹر چلانے کی کوشش کی اور اس دوران وہاں موجود کیمیائی مادے نے آگ پکڑ لی۔

آگ جیسے بھی لگی ہو، سوال یہ ہے کہ کیا رہائشی علاقوں میں فیکٹریاں لگانا درست ہے؟ جس کا جواب سو فی صد ''نہیں'' ہے، تو پھر ان قیمتی جانوں کے ضیاع کا حساب کون دے گا؟ وہ جس نے یہ فیکٹری بنائی یا پھر وہ متعلقہ حکام، جو چند ٹکوں کی خاطر اس طرح کی غیرقانونی فیکٹریاں لگانے کی اجازت دیتے ہیں یا ایسی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی نہ کرکے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل جاتے ہیں۔

اداروں کی بے حسی اور غفلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے بند روڈ پر آگ کی لپیٹ میں آنے والی فیکٹری کو 6 ماہ پہلے خطرناک قرار دیا تھا۔ محکمۂ داخلہ پنجاب نے 23فروری 1912ء کو سیکرٹری انڈسٹریز، کمشنر لاہور، ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے اور ڈی سی او کو شہری آبادی میں واقع لاہور کی68 خطرناک فیکٹریوں کی لسٹ بھیجی تھی۔ اس خط میں گنجان

آبادیوں میں غیر قانونی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی، لیکن کارروائی نہ ہوسکی اور فیکٹریوں کی لسٹ سرکاری دفاتر میں فائلوں تلے دب گئی۔

بند روڈ پر خاکستر ہونے والی فیکٹری خلاف قانون تعمیر کی گئی۔ محکمۂ انہار سے این او سی لیا گیا، نہ داتاگنج بخش میونسپل ٹائون انتظامیہ سے نقشہ منظور کروایا گیا۔ مذکورہ کمرشیل عمارت میں پہلے کاغذ کا گودام تھا۔ فیکٹری یہاں ساڑھے چار سال قبل لکڑمنڈی سے منتقل ہوئی تھی۔ آتش زدگی کا شکار ہونے والی فیکٹری کے آگے پہلے دکانیں بنائی گئی تھیں، پھر باہر گیٹ لگاکر فیکڑی بنادی گئی، جو بلڈنگ بائی لاز کی خلاف ورزی ہے۔ مذکورہ فیکٹری کو لیبر، انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ نے بھی چیک نہیں کیا۔ جب کہ واسا نے یہاں پانی اور لیسکو نے بجلی کا کنکشن دیا، جو ماسٹرپلان2021ء کے مطابق نہیں دینا چاہیے تھا، مگر کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔

اس سانحے پر لیبر تنظیموں کے راہ نمائوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے حفاظت اور صحت کے اصولوں پر عمل درآمد نہ کرنے والے فیکٹری مالکان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے لیبر انسپکٹروں کو فیکٹریوں کی انسپکشن کی اجازت دینے کے باوجود لیبر انسپکٹر، ڈسٹرکٹ آفیسر کی اجازت کے بغیر فیکٹری کا انسپکشن نہیں کرسکتا، جس کی وجہ سے فیکٹریوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو وہ بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہوتیں، جو لیبر قوانین کے مطابق محنت کشوں کو حاصل ہونی چاہییں اور وہ حادثوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ متعلقہ اداروں کی عدم توجہ کی وجہ سے بند روڈ فیکٹری کا سانحہ پیش آیا اگر ذمہ دار ادارے اپنی پوری ذمے داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے تو ایسے حادثے پیش نہ آئیں۔

شہر میں اس سال آگ لگنے کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل فروری میں ملتان روڈ پر کھاڑک کے علاقے میں ادویات بنانے والی ایک فیکٹری میں آگ لگی تھی، جس سے عمارت منہدم ہوگئی تھی اور24 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ لاہور میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ریسکیو، سول ڈیفنس اور ضلعی انتظامیہ کے شعبہ فائر بریگیڈ کے مطابق چار سال میں 8 ہزار2 سو 30 آتش زدگی کے واقعات ہوچکے ہیں، جب کہ آگ لگنے اور سلنڈر پھٹنے کے دھماکوں کے باعث 6 سو80عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں۔ اسپتالوں میں آگ پر قابو کے لیے آگاہی مہم، فائر فائٹنگ آلات کی تنصیب اور آلات چیک کرنے کے لیے اسپیشل اسکواڈ کے چھاپے اور نوٹسز کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا، مگر موجودہ صورت حال میں کسی بھی آپریشن پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

محکمۂ سول ڈیفنس کی رپورٹ کے مطابق چونگی امرسدھو سے کاہنہ تک تقریباً12 سو ایسی عمارتیں ہیں جن کی تعمیر کے دوران آگ بجھانے کے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے، لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک شہری کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں رہائشی علاقوں میں قائم فیکٹریاں بند کرانے کے لیے درخواست بھی دائر کی گئی ہے، جس پر عدالت نے ڈی سی او لاہور سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کردی ہے۔

محکمۂ لیبر اور سوشل سیکیوریٹی ڈیپارٹمنٹ کی مبینہ سرپرستی کے باعث شہر میں 3570 فیکٹریاں اور کارخانے رہائشی آبادیوں میں قائم ہیں۔ محکمہ لیبر اور سوشل سیکیوریٹی ڈیپارٹمنٹ نے ان فیکٹریوں اور کارخانوں کو لائسنس جاری کررکھے ہیں، لیکن ان کی تاحال رجسٹریشن مکمل نہیں کی گئی۔ گذشتہ دس سال میں محکمہ لیبر اور سوشل سیکیوریٹی ڈیپارٹمنٹ کو شہری آبادیوں میں قائم فیکٹریوں کے خلاف50 ہزار سے زاید درخواستیں ملیں، لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ فروری میں پیش آنے والے ایک سانحے کے بعد حکومتی اداروں کی طرف سے کچھ سرگرمی دکھائی گئی، لیکن تاحال اس سانحے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکی۔

ضلع کونسل لاہور نے2005ء میں ماسٹر پلان2021ء کی منظوری دی تھی، جس کے مطابق حکومت پنجاب کی ہدایات پر رہائشی علاقوں میں کمرشیل سرگرمیوں کے حوالے سے سروے کرانا اور ان کی روک تھام کے لیے کام کرنا تھا، لیکن متعلقہ محکمے، ٹائون پلاننگ، انڈسٹری، لیبر، واسا اور لیسکو حکام کی فرائض سے روایتی غفلت کے باعث ماسٹر پلان2021ء پر عمل درآمد نہ ہوسکا اور یوں شہر بھر کے رہائشی علاقوں میں فیکٹریاں بننے سے عمارتیں گرنے اور آگ لگنے کے واقعات سے لوگوں کی ہلاکتیں بڑھ گئی ہیں۔

چند ماہ قبل کھاڑک کے علاقے میں غیرقانونی طور پر تعمیرکردہ ایک فیکٹری زمیں بوس ہونے سے متعدد ہلاکتوں کے بعد حکومت کی ہدایت پر شہر بھر کے رہائشی علاقوں میں لگائی جانے والی فیکٹریوں کی فہرست مرتب کرنے کے لیے ٹائونز کی سطح پر سروے شروع کیا گیا تھا، جو تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔ اب تک 18 سو ایسی فیکٹریوں کی نشان دہی ہوچکی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں