شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی کامیاب رہی
جہاں آج شہباز شریف نظر آرہے ہیں، ان کے لیے یہ راستہ اور منزل آسان نہیں تھی
AMSTERDAM:
متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی عددی اکثریت ثابت کر دی ہے۔ حکومت نے اب عدم اعتماد پر ووٹنگ اتوار کو رکھ دی ہے۔ اس لیے دو دن کا انتظار ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کی صورت میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے امکانات ہیں۔
ویسے تو یہ کوئی سرپرائز نہیں ہے۔ جب عمران خان نے حلف اٹھایا تھا تب بھی شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کی بازگشت موجود تھی اور عمران خان کو پہلے دن سے خدشہ تھا کہ شہباز شریف ہی ان کے متبادل ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد شہباز شریف کو اپنا سب سے بڑا حریف ہی سمجھا۔ سب سے پہلے شہباز شریف کو ہی جیل میں ڈالا۔ بلکہ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی گرفتاری شہباز شریف کی ہی تھی۔
پھر شہباز شریف کو ایک دفعہ نہیں دو دفعہ گرفتار کیا گیا۔ ان کے خاندان کو ٹارگٹ کیا گیا۔ حکومت مسلسل اس کوشش میں رہی کہ شہباز شریف کو مائنس کر دیا جائے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ مارنے والے سے بچانے والی ذات بڑی ہے۔ اس لیے حکومت کی کوشش کے باوجود شہباز شریف بچ گئے اور عمران خان کا خدشہ درست تھا کہ شہباز شریف ان کی جگہ لے سکتے ہیں۔ اور آج شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے لیے اپنی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
جہاں آج شہباز شریف نظر آرہے ہیں، ان کے لیے یہ راستہ اور منزل آسان نہیں تھی۔ انھوں نے ایک مشکل اور دشوار راستہ کا انتخاب کیا۔ حالانکہ آسان راستوں سے بھی وزارت عظمیٰ ان کے دروازے پر مسلسل دستک دے رہی تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وزارت عظمیٰ نے شہباز شریف کے دروازے پر کئی بار دستک دی لیکن ہر بار شہباز شریف نے اس دستک پر دروازہ نہیں کھولا۔ وہ کسی چور راستے سے وزارت عظمی تک پہنچنا نہیں چاہتے تھے اور یہ بات سب کو پتہ تھی کہ دوسرے راستے سے وزیر اعظم بننا اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
تا ہم آج یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ صحیح اور دشوار راستے سے بھی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے ایک چو مکھی لڑی ہے۔ پارٹی کے اندر بھی اپنے موقف کے لیے ایک مشکل لڑائی لڑی ہے اور پارٹی سے بظاہر راستے ہموار کرنے لیے بھی ایک مشکل صورتحال کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لیے ایک لڑائی لڑی ہے۔ دونوں ہی دو سال پہلے نا ممکن نظر آرہے تھے۔ 2019میں جب شہباز شریف لندن میں تھے اور کورونا شروع ہوا تھا۔ تو میں انھیں لندن میں ملا۔ انھوں نے کہا میں ملک واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا بہت مشکل سے ضمانت ہوئی ہے۔
آپ خوش قسمت ہیں باہر آگئے ہیں۔ کورونا ہے ملک میں کوئی سیاسی ماحول بھی نہیں۔ واپس جانا دوبارہ جیل جانا ہے۔ حکومت دوبارہ جیل میں ڈال دے گی۔ اب کے جیل پہلی جیل سے بھی مشکل ہو گی۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے لیکن کورونا میں باہر رہنا بھی ٹھیک نہیں۔ واپس بھی جانا ہے جیل بھی جانا ہے۔ دونوں ہی کام کرنے ہونگے۔
میں نے کہا میرا مشورہ ہے ایک سال انتظار کیا جائے۔ کہنے لگے نہیں ملک میں رہنا ہوگا۔ حکومت کو فری ہینڈ نہیں دیا جا سکتا۔ اور پھر جب وہ واپس آئے تو گرفتار ہوگئے۔ بیس ماہ تک جیل میں رہے۔ ملاقاتیں بند۔ پر قسم کی سختی کی گئی۔ لیکن وہ برداشت کر گئے۔ کیونکہ وہ تو جیل جانے کے لیے ہی لندن سے آئے تھے۔ حکومتی ٹیم کا خیال تھا کہ وہ قابو آگئے ہیں۔حالانکہ وہ تو آئے ہی اس مقصد کے لیے تھے۔
شہباز شریف کے بیس ماہ کی جیل کے دوران ملک میں پی ڈی ایم بنی بھی اور ٹوٹ بھی گئی۔ جب وہ جیل سے باہر آئے تو ملک کی اپوزیشن ٹوٹ چکی تھی۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا ماحول تھا۔ مریم اور بلاول ٹوئٹر اور میڈیا میں بھی ایک دوسرے کے خلاف بیان دے رہے تھے۔
انھوں نے جیل سے رہائی کے بعد پارلیمنٹ میں ٹوٹی اور بکھری ہوئی اپوزیشن کو دوبارہ اکٹھا کرنے پر کام شروع کیا۔ شہباز شریف نے اپنی رہائی کے بعد پارلیمنٹ میں ایک عشائیہ رکھ دیا جس میں بطور قائد حزب اختلاف ساری اپوزیشن کو دعوت دے دی۔ سب حیران ہو گئے کہ ابھی تو لڑائی ہے شہباز شریف کیا کر رہے ہیں۔ میں نے شہباز شریف سے پوچھا انھوں نے کہا جب تک پارلیمنٹ میں اپوزیشن اکٹھی نہیں ہوگی کھیل آگے نہیں چل سکتا۔ لیکن یہ تعاون پارلیمنٹ تک محدود ہونا چاہیے اگر میں جیل میں نہ ہوتا تو پی ڈی ایم کو پارلیمنٹ کے اندر بناتا۔ جب الیکشن الگ الگ لڑنا ہے تو باہر پی ڈی ایم بنانے کی کیا ضرورت تھی۔
بلاول پہلے کھانے میں نہیں آئے۔ بلکہ شہباز شریف جب بیس ماہ کی جیل کے بعد رہا ہوئے تو بلاول نے مبارکباد کی کال بھی نہیں کی صرف ایک واٹس ایپ پیغام بھیجا۔ جو تعلقات میں سرد مہری کا عکاس تھا۔ لیکن شہباز شریف پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو اکٹھا کرنے پر یک سو تھے۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کھیل پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو اکٹھا کرنے سے ہی بدلاہے۔ آہستہ آہستہ بلاول اور شہباز شریف کی پارلیمنٹ میں ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ اکٹھے چلنے کے راستے بنتے گئے۔ اور آج صورتحال سب کے سامنے ہے۔آج بلاول اور آصف زرداری ان کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزدکر رہے ہیں۔
شہباز شریف پہلے دن سے مفاہمت کے حامی رہے ہیں۔ لیکن انھیں یہ طعنہ بھی سننے کو بہت ملتا رہا ہے کہ شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی نے انھیں کیا دے دیا ہے جو ان کی مفاہمت کی پالیسی پاکستان مسلم لیگ (ن) کو کچھ دے دے گی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن ) میں مزاحمت کے حامی برملا کہتے تھے اپنی ضمانت تو کروا نہیں سکتے پارٹی کو کیا دیں گے۔ مزاحمت کے حامی اس بات کو بطور دلیل استعمال کرتے تھے کہ مفاہمت کے بادشاہ کا اپنا حال دیکھیں، خاندان کا حال دیکھیں، جو خود کچھ نہیں حاصل کر سکا ۔ پارٹی کو کیا دے گا۔
دوسری بار جیل سے رہائی کے بعد ایک دن میں نے بھی پوچھا کہ آپ مفاہمت کی بہت بات کرتے ہیں، کیا دے رہی ہے یہ مفاہمت آپ کو۔ وہ مسکرائے کہنے لگے میں مفاہمت کا حامی اس لیے تو نہیں کہ مجھے کچھ مل جائے۔ مفاہمت میری سوچ ہے۔ اور آپ اچھے برے حالت میں اپنی سوچ پر قائم رہتے ہیں۔ کیا میں جیل سے بچنے کے لیے مفاہمت کا حامی ہوں۔ نہیں میں جیل جا کر بھی مفاہمت کا حامی ہوں۔
کیا میں کوئی ذاتی مفاد کے لیے مفاہمت کا حامی ہوں۔ مفاہمت ایک سوچ اور نظریہ ہے۔ اور سوچ اور نظریات مفادات کے تابع نہیں ہوتے۔ آج ان کی ساری جماعت ان کے ساتھ ملکر مفاہمت کے گیت گا رہی ہے۔ جو کام سال پہلے ناممکن لگتا تھا آج حقیقت کا روپ دھار گیا ہے۔ انھوں نے مسلم لیگ کو ایک نئی سوچ دی کہ ووٹ کو عزت دو کے ساتھ کام کو عزت دو کا نعرہ بھی لگائیں۔ کام کو عزت دو کا نعرہ کنٹونمنٹ کے انتخابات میں لگایا گیا اور جیت ملی۔ جس نے سوچ کی تبدیلی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
تحریک عدم اعتماد کی ممکنہ کامیابی کی صورت میں شہباز شریف کیسے وزیر اعظم ہونگے۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ وہ بہتر وزیر اعظم ثابت ہونگے۔ پنجاب میں ان کا کام آج بھی بول رہا ہے۔
ان کے کام آج بھی مخالف سیاسی جماعتوں کے لیے چیلنج ہیں۔ گورننس کے موازنے کے لیے شہباز شریف ایک ماڈل ہیں۔ کیا جو کارکردگی شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ دکھائی ہے وہ بطور ممکنہ وزیر اعظم دکھا سکیں گے۔ ویسے ان کے پاس وقت کم اور مقابلہ بہت سخت ہے۔ انھیں پہلے میچ میں ٹی ٹونٹی والی اننگ کھیلنی ہے۔ وہ کام ٹو ٹونٹی کی اسپیڈ سے ہی کرتے ہیں۔ لیکن کیا لمبی لمبی جیلیں کاٹنے کے بعد بھی ان کے جذبے جوان ہیں۔ یہ دیکھنے کی بات ہے۔