انتہا پسندی

ڈیرہ اسماعیل خان کی معلمہ سفورہ بی بی کو توہینِ مذہب کا الزام لگاکر ان کی تین طالبات نے ذبح کر دیا


Dr Tauseef Ahmed Khan April 02, 2022
[email protected]

PARIS: ڈیرہ اسماعیل خان کی معلمہ سفورہ بی بی کو توہینِ مذہب کا الزام لگاکر ان کی تین طالبات نے ذبح کر دیا۔ مدرسہ کی 13 سالہ طالبہ نے خواب میں دیکھا کہ اس کی معلمہ توہینِ مذہب کی مرتکب ہوئی ہے اور اس کو بشارت ہوئی کہ معلمہ کو ذبح کردیا جائے۔

یوں انھوں نے صبح جیسے ہی ان کی معلمہ مدرسہ میں داخل ہوئی یہ فریضہ انجام دیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر نجم التحسین کا کہنا تھا کہ مبینہ ملزمان کی عمریں 17، 21 اور 24 سال ہیں۔ انھوں نے مبینہ توہین مذہب کے الزامات پر اپنی 21 سالہ معلمہ کو قتل کیا۔

ڈی آئی خان کے شہر کے تھانہ میں درج ایف آئی آر میں تحریرکیا گیا ہے کہ پولیس جب مدرسہ میں داخل ہوئی تو مقتولہ کو خون میں لت پت پایا۔ مقتولہ کا گلا کاٹنے کے لیے تیز دھار ہتھیار استعمال کیا گیا، یوں جنونیت کی بناء پر ایک اور استاد زندگی سے محروم کردی گئیں۔ کسی مدرسہ میں معلمہ کا قتل کی یہ پہلی واردات ہے۔ ملک میں انتہا پسندی کے عروج کے بعد کسی استاد کا پہلا قتل نہیں ہے۔

چند سال قبل بہاولپور کے کالج میں ایک استاد کو ایک طالب علم نے اس وجہ سے قتل کیا تھا کہ اس استاد نے کالج میں ہونے والے ایک پروگرام میں طالبات کی شرکت پر احتجاج کو مسترد کیا تھا اور طالب علم کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ جب طالبات کلاس میں ساتھ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں تو پھر کالج میں ہونے والے ہر پروگرام میں انھیں شرکت کا حق بھی ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے کلیہ معارف اسلامیہ کے ڈین ڈاکٹر شکیل اوج نے اسلامی علوم میں تحقیق کے جدید اصولوں کو اپناتے ہوئے فرسودہ خیالات کے تدارک کے لیے مضامین اور کتابیں لکھنے پر شہرت حاصل کی تھی۔ انھیں ظالم ٹارگٹ کلر نے کراچی میں یونیورسٹی روڈ پر ایک کار میں سفر کے دوران دور سے نشانہ لگا کر قتل کیا تھا۔ کچھ ہی عرصہ بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد ڈاکٹر وحید الرحمن یاسر رضوی کو یونیورسٹی آتے ہوئے نامعلوم ٹارگٹ کلرز نے قتل کیا تھا۔ کراچی پولیس ان اساتذہ کے قاتلوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ خیبر پختون خوا کی ولی خان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشال خان کو ایک جنونی ہجوم نے یونیورسٹی کے احاطہ میں تشدد کرکے قتل کیا تھا۔

مشال خان یونیورسٹی میں روشن خیال نظریات پر بحث و مباحثہ کرتا تھا۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے جنید حفیظ نے انگریزی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ وہ دنیا کے سب سے بڑے اسکالر شپ فل برائٹ کے لیے منتخب ہوئے اور اس اسکالر شپ کے تحت تعلیم مکمل کرکے بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں اعانتی استاد مقرر ہوئے۔

اس بات کے امکانات روشن تھے کہ جنید حفیظ لیکچرار کی مستقل آسامی پر منتخب ہوجائیں گے ، حاسدوں نے ان پر توہین مذہب کا الزام لگایا۔ انسانی حقوق کی تنظیم Human Rights Commission of Pakistan ملتان ٹاسک فورس کے سربراہ راشد رحمن ایڈووکیٹ نے جنید حفیظ کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ان کی وکالت کی۔ انھیں نامعلوم ٹارگٹ کلرز نے ان کے دفتر میں قتل کیا۔ جنید حفیظ ساہیوال جیل کی سزائے موت کی کھولی میں گزشتہ 10برسوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے مدرسہ کی معلمہ کو ان کی طالبات کا ذبح کرنا انفرادی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ معاشرہ میں مذہبی انتہا پسندی کی جڑوں کی گہرائی کو ایک بار پھر آشکار کررہا ہے۔

اس صدی میں اس انتہا پسندی کا شکار صرف اساتذہ ہی نہیں ہوئے بلکہ شاعر ، ادیب، وکلاء، ڈاکٹر، خواتین اور علمائے کرام بھی ہوئے۔ گزشتہ سال کے آخری مہینہ میں سیالکوٹ میں ایک ہجوم نے سری لنکا کے ایک شہری کو جو ایک فیکٹری میں مینیجر تھا اور فیکٹری میں نظم و نسق کے لیے مشہور تھا ایک ہجوم نے پتھر، گھونسے اور لاتیں مار کر ہلاک کیا۔ دو سال قبل جنوبی پنجاب میں ایک بینک کے مینجر کو گارڈ نے مذہب کی توہین کا الزام لگا کر قتل کیا تھا۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنی پالیسیوں کے ذریعہ اس صورتحال کو مزید خراب کیا۔ حکومت کی ایک پالیسی طالبان کی حکومت کو دنیا بھر میں تسلیم کرانا ہے۔ اس حکومت نے ایک بار پھر طالبات کے اسکول بند کر دیے ہیں اور سرکاری ملازمین کو حکم دیا ہے کہ وہ داڑھی رکھیں ورنہ انھیں ملازمت سے محروم کردیا جائے گا۔ بیرونی ممالک جانے والی خواتین پر محرم کے بغیر سفر پر پابندیلگا دی گئی ہے۔ اس حکومت نے یکساں نصاب کے نام پر انتہا پسندی کو فروغ دینا شروع کردیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقاریر میں مذہبی کارڈ کو زیادہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔

گزشتہ ہفتہ اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ کے جلسہ کو ''امر بالمعروف'' کا نام دیا گیا، یوں یہ عنوان دے کر انھوں نے مذہبی اختلاف کو مذہبی مخالفت ثابت کرنے کی مہم شروع کی۔ معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے گزشتہ ہفتہ اپنے کالم میں لکھا کہ ایک پاکستانی ہندو شہری نے شکوہ کیا ہے کہ وزیر اعظم نے پریڈ گراؤنڈ کی تقریر میں صرف مسلمان شہریوں کو ایڈریس کیا۔ انھوں نے باقی مذہب سے تعلق رکھنے والے اس ملک کے شہریوں کو نظر انداز کیا۔

اس ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو تقویت اس وقت ملی جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغانستان کی عوامی حکومت کو ناکام بنانے کے پروجیکٹ کا حصہ بنی۔ اس وقت کے امریکی صدر ریگن نے افغانستان کے اس پروجیکٹ کے لیے جو دراصل سوویت یونین کے خلاف تھا کو جہاد قرار دیا۔ ایک منصوبہ کے تحت انتہا پسندی کو فروغ دیا جانے لگا جس کا نقصان دہشت گردی کی صورت میں سامنے آیا۔ پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ، بشیر بلور اور ہارون بلور سمیت آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں سمیت ہزاروں افراد اس دہشت گردی کا شکار ہوئے۔

سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت نے محسوس کیا کہ انتہا پسندی کی بناء پر ملک میں دہشت گردی ہو رہی ہے بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کا چہرہ متاثر ہورہا ہے تو مدارس کی اصلاحات اور اسکول ، کالجوں اور یونیورسٹی کی سطح کے نصاب سے جنونی مواد کے خراج اور سائنسی مضامین کے اندراج کے لیے اقدامات ہوئے مگر اسی دوران کچھ سیاستدان تنقید کرنے لگے ، مگر 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کے تحت تعلیم کو صوبائی حکومتوں کی ذمے داری قرار دیا گیا تو سندھ ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے نصاب کو جدید خطوط پر ترتیب دینے کے لیے ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل کیں۔

یوں ان تینوں صوبوں کے اسکولوں کے نصاب میں مثبت تبدیلیاں عمل میں آئیں مگر موجودہ حکومت نے یکساں نصاب کا نعرہ لگا کر عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی، یوں رجعت پسندی کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔

ماہر تعلیم ڈاکٹر ریاض پاکستان کی تعلیمی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکمراں کے لیے جب عوام کو دینے کو کچھ نہیں ہوتا تو وہ رجعت پسند مواد کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنا کر عوام میں مقبول ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ان پالیسیوں کو ترک کرکے معاشرہ میں ہر سطح پر رجعت پسندی کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں، دوسری صورت میں یہ قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں