زباں فہمی غُلّ غُلغُلہ غُلو اور غوغا

لفظ ’ غُل‘ بہت کم تنہا استعمال ہوتا ہے۔


لفظ ’ غُل‘ بہت کم تنہا استعمال ہوتا ہے۔

SAO PAULO: زباں فہمی 138

لفظ غُلّ کے استعمال کا سب سے اچھا نمونہ، اکبرالہ آبادی کے اس شعر میں نظر آتا ہے:

اِک غُل مچا ہوا ہے کہ مسلم ہیں خستہ حال
پوچھے ذرا کوئی کہ مسلمان ہیں کہاں؟؟


لفظ ' غُل' بہت کم تنہا استعمال ہوتا ہے۔ عموماً شورغُل (شوروغل نہیں)، غُل غپاڑا/غپاڑہ ہی سننے پڑھنے میں آتا ہے۔ یہ لفظ عربی سے اردو میں داخل ہوا اور اس کے اصل معانی جان کر یقینا آپ ششد ر رہ جائیں گے: لوہے کا طوق، بند، تشنگی، پیاس، پیاس کی شدت، سوزشِ قلب (لغات کِشو'ری از مولوی تصدق حسین رضوی)، ہتھکڑی(مصباح اللغات عربی اردو لغت از ابوالفضل عبدالحفیظ بلیاوی)۔ دیگر لغات بھی دیکھ لی جائیں۔ آن لائن مستند عربی لغت ''المعانی'' سے اقتباس: غُلُّ (عام) (اسم);قیدی یا مجرم کے ہاتھ کی بیڑی یا گلے میں پڑا ہوا لوہے کا طوق ; جمع: اغلال (2) پیاس کی شدت و حرارت۔ ان تمام معانی کا اردو زبان سے ہرگز لینا دینا نہیں، البتہ جب تحقیق ہوگی تو یہ بھی بتانے پڑیں گے۔

ممکن ہے کہ شور کی شدت ظاہر کرنے کے لیے اس کے ساتھ یا الگ، غل کہنے کا رواج ہوگیا ہو۔ فارسی میں اس لفظ کے مترادفات میں شور، غوغا، ہنگامہ، شوروشغب شامل ہیں۔ (فرہنگ عصریہ اردوفارسی از حافظ نذیر احمد)۔ یہ تمام الفاظ، نیز، ان کے معانی ومفاہیم اکثر علاقائی زبانوں میں مشترک ہیں۔

{آن لائن اردو لغت ریختہ میں پہلے تو لفظ غل کے معانی یوں نقل کیے گئے: طوق; بیڑی; ہتھکڑی، شور، غوغا، چیخ پکار، انبوہ، بھیڑ، ہجوم، چرچا، دھوم، شہرت، شہر۔ پھر ستم ظریفی یہ کی گئی کہ میرؔ کا ایک شعر نقل کردیا گیا جس میں لفظ 'گُل'(پھول) شامل ہے، اس لیے کہ ہندی جاننے والے کسی صاحب نے جب اس کا رومن تلفظ Gul نقل کیا تو یہی سمجھا ہوگا کہ گُل اور غُل ایک ہی ہیں}۔

شور کی بات کی جائے تو بہت کم مواقع پر شور کرنا اچھا سمجھا جاتا ہے، جیسے چڑیوں ۔یا۔ پرندوں کا شور مچانا (چہچہانا)، خوشی کے مارے شور مچانا، بچوں کا کھیلتے ہوئے شورمچانا/کرنا، ورنہ ہر طرح کے شور کے خلاف ایسے اشعار میں تبصرہ کیا جاتا ہے:

کہہ رہا ہے شور ِ دریا سے سمندر کا سکوت

جس کا جتنا ظرف ہے، اُتنا ہی وہ خاموش ہے

(ناطقؔ لکھنوی)

اس سے قطع نظر، علامہ اقبال کے اس شعر میں شور کی کیفیت کچھ اور ہی ہے:

میری نوائے شوق سے شور، حریم ذات میں

غلغلہ ہائے الاماں، بت کدہ صفات میں

اس شعر میں لفظ غلغلہ بھی استعمال ہوا ہے۔ واٹس ایپ حلقے ' بزم زباں فہمی' میں گزشتہ دنوں کسی نے یہ نکتہ اُٹھایا کہ صحیح لفظ ''غُلغُہ'' (یعنی شور، غُل، غوغا) ہے یا غَلغَلہ۔ حسب معمول آن لائن دستیاب مستندوغیرمستند لغات کے صفحات کے عکس پیش کیے گئے اور پھر مجبوراً (حسب ِ سابق) خاکسارکو سمع خراشی کرتے ہوئے کہنا پڑا کہ آن لائن موجود تمام لغات کا تمام مواد مستند نہیں، حتیٰ کہ اس راقم سمیت کئی افراد نے اردو لغت بورڈ کی عظیم وضخیم لغت اور اُس کے مختصر ایڈیشن میں متعدد مقامات پر اغلاط کی نشان دہی کی ہے، تحقیق لازم ہے۔

یہ لفظ فارسی ہے جبکہ بعض لغات میں اسے عربی بتایا گیا۔ فرہنگ آصفیہ نے اسے فارسی قرار دیا ہے۔ {اب معاملہ یہ ہے کہ عربی میں لفظ غَلغَلہ موجود تو ہے، مگر مختلف معانی کے ساتھ۔ عربی میں لفظ ''غَلغَہ'' (دونوں غین پر زبر کے ساتھ) کا مطلب ہے، چلنے میں جلدی کرنا (مصباح اللغات ۔ گویا موجودہ دور کی Brisk walk جو آج کل ہمارے یہاں بعض نوجوان لڑکیاں اور خواتین کسی کی رہنمائی کے بغیر ہی کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔

س ا ص)۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں لفظ الگ الگ ہیں}۔ اردولغت بورڈ کی مختصر لغت (جلد دُوَم) میں لفظ غُلغُلہ کو عربی الاصل بتا کر معانی اس طرح درج کیے گئے ہیں: ۱۔شور، غوغا، ہنگامہ ۲۔ شُہرہ، دُھوم ، شہرت۔ اسی لغت میں ''غُلغُلہ اُٹھنا'' (محاورہ) کا مطلب یوں بیان کیا گیا: شہرت ہونا، دھوم مچنا، شوروغوغا ہونا۔ یہاں ہم اپنی مرغوب وشیریں زبان فارسی کا رُخ کریں تو فارسی میں غلغلہ اَنداختن کا مطلب ہے، تہلکہ مچادینا ؎ عاقبت ِمنزلِ ما، وادی ٔ خاموشانست/حالیا غلغلہ دَرگنبد ِ افلاک اَنداز (فرہنگ فارسی یعنی جدیدلغات فارسی از ڈاکٹر عبداللطیف)۔ فرہنگ آصفیہ میں مندرجہ بالا کے علاوہ ، ہُلّڑ، فُغاں اور دھاک جیسے الفاظ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

لفظ غُلُو بھی عربی الاصل ہے، جس سے مراد ہے کسی معاملے میں مبالغہ کرنا، حد سے گزرجانا۔ اردولغت بورڈ کی مختصر لغت (جلد دُوَم) کی رُو سے اس کا مطلب ہے، کسی اَمر میں شدّت ِ اصرار، حد سے تجاوز یا آگے بڑھ جانے کی حالت وکیفیت، کسی کے متعلق، بڑھا چڑھا ہوا یا حد سے گزرا ہوا بیان جو عقلاً اور عادتاً محال ہو، عقل سے دُور۔ یہ مطالب اپنی جگہ، فرہنگ آصفیہ بتاتی ہے کہ اس اسم مذکر کے لغوی معنی ہیں، جہاں تک ممکن ہو، ہاتھ بَلند کرنا، نیز، ہجوم، حد سے گزرنا۔

فارسی میں غلو کردن کا مطلب ہے مبالغہ کرنا، حد سے گزرنا، علم معانی کی اصطلاح میں مبالغے کو اس حد تک بڑھادینا کہ عقل اور قیاس دونوں کی رُو سے محال ہو(فرہنگ فارسی )۔ غلو کی بجائے مبالغہ کی اصطلاح بطور صنعت شاعری میں بہت استعمال ہوئی۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ مشہور ترین شعر ہے:

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ مل

بن گیا رُوئے آب پر کائی

ضمنی نکتہ یہ ہے کہ گفتگو یا ادبی پیرائے میں غُلو کی اپنی اہمیت ہے، ہرچند کہ اکثر منفی ہی سمجھا جاتا ہے، مگر یہ بھی کسی زبان کا ایک خاصّہ ہے کہ اس میں کونسی بات کتنی وسعت سے کی جاتی ہے، البتہ دینی اُمور میں اس سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں زبان کا غلو، ادب سے زیادہ عام بول چال میں نظر آتا ہے اور دینی ومذہبی بشمول مسلکی معاملات میں بھی لوگ کم علمی یا لاعلمی کے باوجود، اکثر غلو کرتے ہیں۔

اب ہم بات کرتے ہیں، غوغا کی۔ عربی میں لفظ الغوغاء کے معانی یوں بیان کیے گئے: ٹِڈّی جو اُڑنے کے لیے تیار ہو۔یا۔جس کے پر نکل آئے ہوں، بہت سے مختلف لوگ، نیچے طبقے کے لوگ، فسادی لوگ۔ ان معانی کی تصدیق لغات کشوری سے بھی ہوتی ہے: شور، غل، آدمیوں کی بڑی جماعتِ کثیر، ٹڈی دَل، بڑی فریاد۔ فارسی میں غوغا راہ انداختن سے مراد ہے، شورغُل مچانا (فرہنگ فارسی)۔

آن لائن فارسی لغات کے مجموعے پر مبنی ایک عمدہ ومفیدلغت ''آبادیس'' (https://abadis.ir/) نے محض ایک لفظ غوغا پر ہماری معلومات میں ایسا بیش بہا اضافہ کیا ہے کہ عقل حیراں ہے، پریشاں ہے، تماشائی ہے۔ کاش ہمارے یہاں بھی اتنی محنت کرنے والے ہوتے۔ اس عظیم ذخیرہ لغات کی رُو سے یہ لفظ عربی الاصل، اسم مؤنث ہے اور اس کے برا ہ راست معانی ہیں، صدائے بَلند (یعنی اونچی آواز) اور بانگ وفریاد (یعنی صدا دینا، فریاد کرنا)۔ یہاں مجھے یاد آیا کہ ایک فارسی شعر ہماری زبان میں بہت زیادہ مشہور ہے، اسی لفظ کے استعمال، بلکہ حسن استعمال کی مثال کے طورپر:

عرفیؔ تو مَیندیش (مَیَن دیش) زِغوغائے رقیباں

آوازِ سَگاں کم نہ کُند ، رزقِ گدا را

مفہوم: عرفیؔ! تُو رقیبوں کے شورشرابے کی پروا مَت کر (پروا کے آخر میں 'ہ' نہیں ہے۔س ا ص)، کیونکہ کُتّوں کے بھونکنے سے، اس کی آواز سے کسی فقیر کے رزق میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

{محولہ بالا لغات میں فرہنگ نظام کے حوالے سے دوسرا مصرع یوں درج کیا گیا: غوغائے سگاں کم نہ کند....اور پھر شاعر کے نام کی جگہ سوالیہ نشان یعنی وہاں اس مشہور شعر کے خالق کا نام ہی در ج نہ تھا۔

عرفیؔ شیرازی، شیراز (ایران) سے تعلق رکھنے والا، بہت مشہور شاعر ہوگزرا ہے جو دربار ِ اکبری سے منسلک اور شہزادہ سلیم (جہانگیر) و عبدالرحیم خانِ خاناں کے مدح خواں شعراء درباری مقربین میں شامل تھا۔ محض چھتیس سال کی عمر میں 1590ء میں فوت ہوکر لاہور میں دفن ہوا (ہجری تقویم کے لحاظ سے چھتیس، ورنہ چونتیس سال)، مگر بعد میں اُسے نجف (عراق) لے جاکر دفنایا گیا۔ اُس کے اشعار کی تعداد چالیس ہزار بیان کی جاتی ہے۔

علامہ اقبال نے عرفیؔ شیرازی کو یوں خراج تحسین پیش کیا:

؎محل ایسا کیا تعمیر عرفیؔ کے تخیل نے

تصدق جس پہ حیرت خانہء سینا و فارابی

فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی

میسر جس سے ہے آنکھوں کو اب تک اشک عنابی}

فارسی میں لفظ غوغا کے مترادفات ملاحظہ فرمائیں:: شور، آشوب، ازدحام، الم شنگہ، جنجال، خروش، دادوبیداد، سروصدا، غریو، غلغلہ، فغان، ولولہ، ہمہمہ، ہنگامہ، ہیاہو، آوازہ، بانگ۔ اس کے متضاد ہیں: آرامش، سکوت۔ اس فہرست کے سترہ میں کوئی تیرہ الفاظ، اردو سے مشترک ہیں۔ فارسی کی مشہور ومستندلغات میں ایک لسانی قیاس یہ بھی موجود ہے کہ شاید غوغا اصل میں فارسی کا کوکا ہے۔

بہرحال اگر ایسا ہے بھی تب بھی، اسے فی الحال عربی ہی سمجھا جائے گا کیونکہ یہ کوئی حتمی وقطعی رائے نہیں۔ ایک ایرانی خاتون گلوکارہ نے غوغا کے فرضی نام سے اپنے گانوں کے ذریعے، اپنے تئیں، حقوق نسواں کے لیے تحریک چلا ئی ہوئی ہے۔

ایک ایرانی فلم بھی اسی نام سے بنی اور نمائش کے لیے پیش ہوچکی ہے۔ ہمارے مشفق ومحترم بزرگ معاصر سید اطہر علی ہاشمی (مرحوم) نے کچھ سال قبل، ایک مقامی روزنامے میں اپنے مستقل کالم ''خبر لیجے زباں بگڑی'' میں موضوع چُنا، اشتہار شوروغوغا۔ (ایک مرتبہ پھر وضاحت: درست لفظ لیجے ہی ہے، مگر زمانہ قدیم سے لیجئے بولا اور لکھا جارہا ہے، زبانوں پر چڑھا ہوا ہے۔

اس لیے لیجے غلط لگتا ہے۔ بعض اہل قلم کے نزدیک اسے لیجیے لکھنا درست ہے، مگر خاکسار اُن سے اتفاق نہیں کرتا۔ س ا ص)۔ ہاشمی مرحوم نے لکھا کہ ''گزشتہ کچھ دنوں سے کراچی پولیس کی طرف سے اخبارات میں ایک عجیب اشتہار شائع ہورہا ہے ''اشتہار شو رو غوغا''۔......... یہ غوغائی اشتہارات برائے تلاشِ گمشدہ ہیں۔ .........سوال یہ ہے کہ یہ ''اشتہار غوغا'' کیا بلا ہے، اور گمشدہ افراد کے لیے اس اصطلاح کا مطلب کیا ہے، اور یہ کس کی ایجاد ہے؟ کوئی بتارہا تھا کہ اب تو پولیس میں پڑھے لکھے لوگ بھی آگئے ہیں۔ اشتہار تو بجائے خود شوروغوغا ہوتا ہے۔

شور کا مطلب تو سب کو معلوم ہے، بچوں سے لے کر ارکانِ پارلیمان تک کو غوغا کا مفہوم بھی واضح ہے، اور یہ عموماً شور کے ساتھ آتا ہے''۔ یہاں ذرا ٹھہر جائیں۔ مرحوم زندہ ہوتے تو اُن سے براہ راست مکالمہ ہوجاتا، مگر خیر۔ ایجاد کس کی ہے، یہ تو معلوم نہیں، مگر یہ اصطلاح بہت پرانی ہے اور خاکسار کے قیاس کے مطابق، غالباً انگریز دورِحکومت میں رائج ہونے والی پولیس کی اصطلاحات میں شامل ہے۔

اب اگر اس ترکیب پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ پولیس یہ کہنا چاہتی ہے کہ ہم اس اشتہار کے ذریعے شورمچا رہے ہیں یعنی یہ بات عام کررہے ہیں۔ ایک قدرے غیرمتعلق مثال یہ ہے کہ ہمارے یہاں اشتہارات میں ''مُشتری ہوشیار باش!'' کا عنوان بہت دیکھنے پڑھنے میں آتا رہا ہے اور یہ بھی قدیم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے خریدار ہوشیار اور متنبہ ہوجائیں کہ فُلاں چیز یا فُلاں شخص اچھا نہیں، نیز نقصان کا باعث ہے۔

بظاہر تو یہ بیچنے والے اور خریدنے والے کے مابین معاملہ ہے، مگر ہم نے یہ دیکھا کہ متعدد دیگر نوع کے اشتہارات بھی لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے اسی عنوان کے تحت شایع ہوتے رہے ہیں، خاکسار کو بعض جگہ تصحیح کرانی پڑی ہے۔ شعبہ تشہیر سے متعلق اپنا نجی تجربہ برنگ لطیفہ دُہراتا ہوں۔ ایک بزرگ رفیق کار نے دوسرے بزرگ کا حوالہ دیتے ہوئے مجھ سے تصدیق چاہی کہ مُشتری ہوشیار باش! کا مفہوم وہی ہے جو آپ بیان کرتے ہیں یا وہ بزرگ جو کہہ رہے ہیں، درست ہے۔

اب چونکہ اُنھیں فارسی آتی تھی نہ اَدبی زبان کا علم تھا، لہٰذا اُنھوں نے یہ بیان دیا کہ اس فقرے کا مطلب ہے ..........(اب وہ ترجمہ ذہن سے نکل گیا ہے، بہرحال بالکل غلط تھا)۔ اول الذکر شاعر ومصوروخطاط تھے، سو اِس راقم نے پورا فقرہ توڑ توڑ کر اُنھیں مطلب سمجھاتے ہوئے کہا کہ آپ تو خود شاعر ہیں، جانتے ہیں، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا جو موصوف بتارہے ہیں۔

اطہر ہاشمی (مرحوم) نے محولہ بالا کالم میں مزید انکشاف کا سلسلہ یوں جاری فرمایا:''اس کا ایک مطلب ہے: آدمیوں کا مجمع۔ اردو میں ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ اہلِ فارس نے اسے بہ معنیٰ شور، فریاد و فغاں کے استعمال کیا ہے۔ اردو میں غل، غپاڑہ، ہلڑ۔ اور یہ کام کرنے والا غوغائی کہلاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ غوغائی کا اطلاق ارکانِ اسمبلی پر بھی ہو۔ غوغائی کا ایک مطلب واہی، بے ہودہ، بے سلیقہ، جھوٹا، دروغ گو بھی ہے۔

علاوہ ازیں ایک قسم کے پرند کا نام جس کو ڈومنی بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ ہر وقت پھدکتی رہتی ہے''۔ ہاشمی مرحوم کا یہ بیان، نوراللغات سے براہ راست مستعار ہے ، اس لیے سند ہے۔ فرہنگ آصفیہ سے معلوم ہوا کہ (اَز رُوئے بیان تُزک ِ جہانگیری) غوغائی پرندہ ، پپیہا سے مشابہ ہوتا ہے، کشمیر میں پایا جاتا ہے اور اکثر پپیہا اُس کے گھونسلے میں گھُس کر، اُس کے انڈے پھینک کر ، اپنے رکھ دیتا ہے جو پھر غوغائی ہی سیتا اور اُس کے بچے پالتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں 'غوغائی' بطور خاندانی نام بھی مستعمل ہے۔ یہاں ایک شعر ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ شاعر نے قافیہ پیمائی کرتے ہوئے غوغائی کو بجائے غوغا برتا ہے یعنی فاعل کو اپنی فہم کے مطابق، فعل بنادیا ہے جو ظاہر ہے کہ درست نہیں:

اہل حق ہمت و جرأت سے گزر جاتے ہیں، مرحلہ آتا ہے جب باد یہ پیمائی کا

جرم سے پہلے ہی انجام پہ رکھنی تھی نظر، فائدہ کچھ بھی نہیں اب تری غوغائی کا

(عبدالرحمن عاجزؔ)

بائبل بزبان اردو (آن لائن) سے ایک اقتباس محض یہ دیکھنے کے لیے ملاحظہ کریں کہ ہمارے ادبی سرمائے کے علاوہ کہاں کہاں اور کیسے کیسے یہ لفظ استعمال ہوا:

ا ) وہ غوغائی اور خود سَر ہے۔ اُس کے پاؤں اپنے گھر میں نہیں ٹکتے۔

ب)۔ احمق عورت غوغائی ہے۔ وہ نادان ہے اور کچھ نہیں جانتی۔

ج): اے پُرشور اور غوغائی شہر! اے شادمان بستی! تیرے مقتول نہ تلوار سے قتل ہوئے نہ لڑائی میں مارے گئے۔

احباب گرامی! ایسے ہی ہر لغت دیکھ کر لوگوں کو تعلیم کرنا ٹھیک نہیں;(تعلیم کرنا بھی قدرے نامانوس ، مگر اہل علم کے یہاں مُرَوَّج ہے)، تحقیق لازم ہے ۔ ہمارے یہاں ''نقل+چسپیدگی'' یعنی نقل کرکے چپکانے (Copy-paste)کا رِواج بہت عام ہوچکا ہے۔ لوگ موقع محل اور موضوع کی نزاکت واہمیت دیکھے بغیر ہی بقول کَسے تھری ناٹ تھری ( 3O3) بندوق کی طرح فائرنگ شروع کردیتے ہیں۔

عربی سے اکتساب کرتے ہوئے یاد رکھیں کہ قدیم یعنی کلاسیک (Classical) عربی میں ایسے بہت سے الفاظ ہیں جن کے معانی کی تعداد سیکڑوں میں ہے، اونٹ اور تلوار کے لیے کہا گیا کہ آٹھ سو سے ساڑھے آٹھ سو تک معانی ہیں۔ ایک مشہور عربی لطیفہ ہے کہ استاد نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تمھیں کسی لفظ کے معانی نہ معلوم ہوں تو سمجھ لو کہ وہ اونٹ ہے۔ شیر کے لیے، اُس کی حالت وکیفیت کے فرق سے متعدد الفاظ ہیں جو ہمارے یہاں اسم معرفہ (Proper noun)کے طور پر مستعمل ہیں، جیسے اسد، حیدر، حمزہ، عباس اور ضیغم۔

(نوٹ: مضمون نگار دین سے متعلق اپنے ایک علمی پروجیکٹ میں مشغولیت کے باعث ماہ رمضان میں ''زبان فہمی'' لکھنے کا سلسلہ جاری نہیں رکھ پائیں گے، ان مضامین کا سلسلہ عید کے بعد دوبارہ شروع ہوگا)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں