سیاسی و معاشرتی زوال
ناجائز ذرایع سے کمائی ہوئی دولت کام نہیں آتی ہے اس دولت سے صحت خریدی جاسکتی ہے
BEIJING:
آج پھر وہی حالات پیدا ہو گئے ہیں جو صدیوں پہلے طلوع اسلام سے قبل تھے۔ تاریکی، جہالت اور گمراہی کا دور دورہ ہے، لیکن اب کوئی رسول نہیں آئے گا جو بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لانے کی تدبیر کرے اور برے اور نافرمان لوگوں کو پانی میں غرق کر دے اور اللہ کے حکم کے مطابق کشتی بنائے اور فرمانبرداروں کو اس میں جمع کرکے طوفان سے بچا لے۔
ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین تھے اور قرآن پاک اللہ کی آخری کتاب اسی کتاب مقدس میں نافرمان قوموں کا ذکر موجود ہے، جنھوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور سرکشی کی، قوم عاد بھی ایسی ہی ایک قوم تھی۔ قوم عاد اونچی اونچی عمارات تعمیر کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔
حضرت ہود علیہ السلام نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی اور فرمایا کہ ''تم بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو، گویا تمہیں ہمیشہ یہاں رہنا ہے اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو جابر بن کر ڈالتے ہو، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، ڈرو اس سے جس نے وہ کچھ تمہیں دیا ہے جو تم جانتے ہو، تمہیں جانور دیے، اولادیں، باغ دیے اور چشمے دیے، مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔''
انھوں نے جواب دیا'' نصیحت کرو یا نہ کرو ہمارے لیے سب یکساں ہے یہ باتیں تو یوں ہی ہوتی چلی آئی ہیں اور ہم عذاب میں مبتلا ہونے والے نہیں ہیں'' آخر کار انھوں نے جھٹلادیا اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ہلاک کردیا۔
موجودہ دور بھی نافرمان اور ہوس پرستوں کی یاد دلاتا ہے، غلطیاں کرتے ہیں، ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں لیکن خود اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ایک طرف سیاسی حالات ابتر ہیں۔ طوفان آنے والا ہے، کون بچتا ہے اور کون ڈوبتا ہے، اس بات کی کسی کو پرواہ نہیں۔ہر دور میں ہوس پرست ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں کہ فتح ان کی ہو ،وہ غریبوں کا حق چھینتے رہے ہیں۔
جب کوئی بھی معاشرہ زوال کی طرف رواں دواں ہوتا ہے تو انسانیت کا ڈھانچہ نیم مردہ ہو چکا ہوتا ہے، بے حسی کو عروج حاصل ہو جاتا ہے، پتوکی کا واقعہ ایسا ہی ہے، وہ غریب پاپڑ والا، جس کی لاش شادی ہال میں مہمانوں کے درمیان میں رکھ دی گئی تھی اور بھوکے باراتی کھانے پر ٹوٹ پڑے تھے، برتنوں کی کھنکھناہٹ، بچوں اور بڑوں کی کھانے پر جھپٹنے کی آوازیں معمول کا حصہ تھیں جیسے لاش نہ ہو بلی کا مردہ بچہ ہو، لیکن باضمیر اور خوف خدا رکھنے والے نرم دل کے مالک اس وقت تک کھانے کا نوالہ نہیں توڑتے ہیں جب تک کہ اسے ڈائننگ ہال سے ہٹوا نہ دیتے، کیا وہ سارے ہی لوگ ظالم اور کٹھور تھے؟
ہوٹل منیجر، منتظمین شادی ہال، گارڈز اور دوسرے لوگ کسی کو رحم نہیں آیا؟ کیا اس شادی ہال میں جہاں ہزار پانچ سو لوگ شادی میں شرکت کے لیے آتے ہیں، وہاں لاچار بے بس اور مجبور شخص کی لاش کو رکھنے کے لیے ایک میز اور ایک علیحدہ کمرہ یا تھوڑی سی جگہ میسر نہ تھی جہاں اسے عزت و احترام کے ساتھ مقتل سے منتقل کردیا جاتا۔ افسوس صد افسوس! اسی طرح کے حالات ہر روز سامنے آتے ہیں جن میں درندگی اور سفاکی کی داستانیں رقم کی جاتی ہیں۔
سیاست میں بھی سفاکیت در آئی ہے اور یہ آج سے نہیں ہے یہ بہت پرانی اور مہلک بیماری ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے۔ آج کل تو مزید پروان چڑھی ہے ۔اس وقت ملک کے سیاسی حالات میں بہت گرما گرمی چل رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی تقریروں میں کہتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو مدینے کی ریاست کی طرح بنانا چاہتے ہیں، لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ دنوں، مہینوں اور سالوں میں کایا پلٹ جائے اور انصاف کا بول بالا ہو جائے۔
مدینے کی ریاست اس وقت وجود میں آئی جب آقائے دو جہاں ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تھے یہاں آپؐ کے ساتھ وہ ہستیاں تھیں جو رسول پاکؐ کے زیر سایہ تربیت یافتہ تھیں، مدینہ منورہ کے انصار آپؐ اور اسلام سے بے پناہ محبت کرتے تھے اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دیا تھا، لیکن اب ایسا پاکیزہ کردار کسی کا نہیں ،سیاست میں جو بھی آتا ہے اس کے پیش نظر سب سے زیادہ ذاتی مفادات کا حصول ہوتا ہے، لہٰذا ان حالات میں کس طرح ممکن تھا کہ عمران خان صاحب کے ساتھی دودھ کے دھلے بن جاتے، بحیثیت انسان ہر شخص سے غلطی ہو سکتی ہے تو حالات و واقعات کے تناظر میں اپنے رویے میں لچک دکھانا دانش مندی کا تقاضا تھا، جہانگیر ترین نے بہت ساتھ دیا، اسی طرح علیم خان کی بھی ہمدردی اور دوستی عمران خان کے لیے انمول تحائف سے کم نہ تھی اور بھی بہت سے وعدے کیے گئے جو وفا نہ ہو سکے۔
وزیر اعظم نے ای پاسپورٹ کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ ان کے خلاف بیرونی سازش کے تحت جال بنایا گیا ہے، وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اس بات کی بھی وضاحت کی کہ آزاد خارجہ پالیسی میں ملکی مفاد کو مدنظر رکھا جاتا ہے، عدم اعتماد کے دستاویزی ثبوت دکھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ قوم کو حقائق معلوم ہو سکیں، کابینہ ارکان نے خط پر قومی اسمبلی کا ان کیمرہ اجلاس بلانے کی تجویز دی۔ عمران خان نے کہا کہ خط کا تحریک عدم اعتماد سے گہرا تعلق ہے انھوں نے اس بات کا بھی عزم کیا کہ وہ آخری بال تک لڑیں گے، بے شک ''ہمت مرداں مدد خدا''۔
کیا تمام سیاستدان اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ پاکستانی سیاست میں کبھی کرسیاں مضبوط نہیں ہوتی ہیں، بڑی جلدی ٹوٹ جاتی ہیں، یہ کرپشن میں مبتلا مقتدر حضرات کا وزن سہہ نہیں پاتی ہیں اسی وجہ سے براجمان شخص کو زمین پر گرا دیتی ہیں، پھر وہی اندھیری رات مقدمات کا سامنا اور انتقامی کارروائیاں یا پھر انصاف کا بول بالا، جوکہ کم ہی ہوتا ہے۔
ناجائز ذرایع سے کمائی ہوئی دولت کام نہیں آتی ہے اس دولت سے صحت خریدی جاسکتی ہے اور نہ زندگی، اپنے اطراف میں نگاہ دوڑائیے، کتنی عبرت ناک کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔وزیر اعظم عمران خان سے عوام اس لیے خوش ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی اور استحکام میں پیش پیش ہیں،عوام کا ایک طبقہ عمران خان کا مداح ہے اس سلسلے میں نجی ٹی وی چینلز کے اینکرز نے مجمع میں جا کر شہریوں سے ان کی رائے معلوم کی تو ان کی پسندیدہ شخصیت عمران خان بتائی گئی۔
اس کی وجہ سب کے سامنے ہے، وہ ملک و قوم سے مخلص اور پاکستان کی عزت میں اضافہ کرنے کا باعث ہیں۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے، آمین۔ سیاستدان محض تھوڑے سے فائدے کے لیے کوئی غلط کام نہ کریں اور ملکی ترقی و خوشحالی کی جانب ترقی دیں۔