جامعات کے مسائل اور ایچ ای سی کی پالیسیاں
موجودہ پالیسی کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں تمام اساتذہ مجبوراً صرف ترقی کے لیے تحقیقی مقالے لکھ رہے ہیں
جامعات کے اساتذہ کو آخر کار ایک اچھی خبر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے مل ہی گئی کہ رمضان المبارک کے بعد پروموشن سے متعلق نئی پالیسی پیش کر دی جائے گی۔
اطلاعات ہیں کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اساتذہ تنظیموں کے موقف کو مد نظر رکھتے ہوئے جامعات کے اساتذہ کے پروموشن کے لیے قابل قبول پالیسی مرتب کر رہا ہے۔ اس ضمن میں یہاں راقم کچھ تجاویز پیش کر رہا ہے جو ممکن ہے کہ نئی پالیسی بنانے میں مدد گار ثابت ہو لیکن ابتدا میں تھوڑا سے جائزہ اس بات کا لینا چاہیے کہ یہ مسائل کیوں پیدا ہوئے، ظاہر ہے کہ مسائل کی وجوہات جاننے کے بعد ہی ان کا حل یا بہتر پالیسی تشکیل دی جاسکتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب سے ایچ ای سی وجود میں آئی تب سے اعلیٰ تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے مختلف پالیسی پیش کی گئیں جن میں تعلیمی اور تحقیقی معیار کو بلند کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے، مثلاً پروموشن کے لیے ماضی کی شرائط کو مزید سخت کر دیا گیا کہ اساتذہ اپنے تحقیقی مقالوں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں مزید بڑھائیں یا مقالات کسی اچھے ریسرچ جرنل میں شایع کیے جائیں وغیرہ وغیرہ۔
چنانچہ اس پالیسی کو یہ سمجھ کر لاگو کیا گیا کہ اب اساتذہ پرموشن کی خاطر اپنی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کو بڑھاوا دیں گے، مگر اس سے دوسری طرف اساتذہ کے پرموشن کی مشکلات اور بڑھ گئیں۔ مثلاً اب اگلے عہدے پر ترقی کے لیے ایک استاد کو نہ صرف اپنے تحقیقی مقالوں کی تعداد کو بڑھانا تھا بلکہ ان کی اشاعت کے لیے اعلیٰ معیار کے غیر ملکی ریسرچ جرنل تک رسائی بھی حاصل کرنا تھی نیز پھر ان کی اشاعت کے لیے فیس کے اخراجات بھی برداشت کرنا تھے ، فرض کریں کسی اچھے غیر ملکی ریسرچ جرنل میں ایک مقالہ بھی شایع کرانا ہو تو اس کے لیے کم ازکم پچاس ہزار سے زائد کی فیس ادا کرنا ضروری ہے اور ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کے لیے کم ازکم دس سے گیارہ مقالے شایع ہوچکے ہوں تو کوئی استاد اگلے عہدے کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔
اب ذرا اندازہ لگائیں کہ ایک استاد جس کی ایک سال کی بنیادی تنخواہ سے بھی زیادہ خرچہ اس کے مقالوں کی اشاعت پر آتا ہو تو وہ کیسے اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اس کا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ ایک استاد کے لکھے گئے مقالے میں کئی اساتذہ اپنے نام شامل کرکے اور خرچ تقسیم کرکے شایع کرانے لگے اور یہ عمل بھی وہ اساتذہ کرسکے کہ جن کی پہنچ ایسے بین الاقوامی ریسرچ جرنل تک ہوتی جب کہ عام اساتذہ تو پلاننگ کرتے ہی رہ جاتے۔
اس طرح جامعات کے اساتذہ کے پروموشن کا طریقہ کار جو پہلے ہی الجھا ہوا اور غیر منطقی تھا مزید مشکل ہوگیا۔ یعنی پہلے ایک استاد کو اپنی ہی جامعہ کے شعبہ میں پرموشن کے لیے کوئی راستہ دستیاب نہ تھا بلکہ اسے انتظار کرنا پڑتا تھا کہ اس کے اپنے شعبہ میں کوئی جگہ خالی ہو اور جامعہ اس آسامی کے لیے اشتہار اخبارات میں دے ، پھر خود بھی دیگر بیرونی لوگوں کی طرح اس اشتہار کے جواب میں اپنی درخواست جمع کرائے اورپھر تمام درخواست گزاروں کی طرح انٹرویو دے کر نتیجہ کا انتظار کرے۔
یعنی اس عمل میں ایک استاد کو اپنی ہی جامعہ کے تجربے اور تدریسی خدمات کے عوض دیگر امیدواروں پر کوئی ترجیح نہیں یوں اس کی یہ خدمات اور تجربہ سب فضول، جب کہ دنیا میں تمام ملازمین کو ان کی خدمات اور تجربے کی بنیاد پر پروموشن اور دیگر مراعات وغیرہ ملتی ہیں اور خود جامعہ کے اندر غیر تدریسی ملازمین کو بھی پروموشن اسی طریقے پر ملتا ہے مگر اساتذہ کو نہیں۔
یہ وہ پس منظر ہے کہ جس کے سبب جامعہ کے اساتذہ اور ان کی تنظیمیں احتجاج کرنے اور مطالبات کرنے پر مجبور ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اساتذہ کا پروموشن اور معیار تعلیم و تحقیق دونوں کیسے ممکن ہوں۔ اس ضمن میں تجویز ہے کہ پروموشن اور معیار تعلیم کے ٹریک الگ الگ کردیے جائیں مثلاً جس طرح دیگر سرکاری ملازمین کو تجربے اور خدمات کے عوض پروموشن دیا جاتا ہے اسی طرح ان اساتذہ کو بھی دیا جائے۔
ایک طریقہ ''ٹائم پے اسکیل '' اور ''انسینٹیو اسکیم ''کا سرکاری ملازمین میں رائج ہے، جس کے مطابق پانچ سال کے تجربے پر ملازمین کو اگلے پے اسکیل میں ترقی دے دی جاتی ہے لیکن عہدہ نہیں دیا جاتا۔( یعنی مالی لحاظ سے ملازم کا فائدہ ہو جاتا ہے جس سے وہ خوش ہو جاتا ہے اور دل جمی سے کام بھی کرتا ہے)، جب کہ اگلے عہدے کے لیے کسی ملازم کو وہی شرائط پوری کرنا پڑتی ہیں جو اس عہدے کے لیے لازمی یا رائج ہیں۔
ٹائم پے اسکیل کا سلسلہ جامعات کے غیر تدریسی ملازمین میں رائج ہے جب کہ اساتذہ اس سے محروم ہیں اگر یہی پالیسی اساتذہ کے لیے بھی اپنا لی جائے تو اس سے اساتذہ میں پھیلے مایوسی اور بے چینی بھی ختم ہوگی اور وہ دل لگا کر تدریس و تحقیق کے کام بھی کر سکیں گے ،کیونکہ اس کے بغیر ایک استاد اپنی پروموشن کے انتظار میں بعض اوقات اسی گریڈ اور عہدے پر ریٹائر ہو جا تا ہے جس پر اس کا اپائنمنٹ ہوا تھا۔
اس کی مثال جامعہ کراچی ہے جہاں حال ہی میں ایک استاد کے اس طرح ریٹائر ہونے پر احتجاج ہوا تھا کیونکہ وہ پروموشن کے معیار پر بھی اتر تا تھا مگر اس کا سلیکشن بورڈ وقت پر نہ ہو سکا تھا اس قسم کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ سلیکشن بورڈ ہونے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔اس وقت اساتذہ تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ پر وموشن کے لیے الگ طریقہ کار ہونا چاہیے جو نہ صرف شعبہ کے اساتذہ کے مابین ہی ہو اور بروقت ہو۔
بہر کیف یہاں ٹائم پے اسکیل کی تجویز دینے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس طرح پروموشن کا ٹریک الگ ہو جائے گا اور عہدے کی ترقی کے لیے الگ ٹریک قائم کرکے تعلیم و تحقیق کے معیار کو بڑھایا جا سکتا ہے، عہدے پر ترقی کے لیے ضرور معیاری شرائط لاگو کی جاسکتی ہیں، یوں جب تجربے کی بنیاد پر ''پے اسکیل '' مل جائے گا تو اساتذہ پرسکون ہوکر مزید محنت کرکے تعلیم و تحقیق کے عمل کو آگے لے کر جائیں گے تاکہ انھیں عہدہ بھی مل سکے، یوں حقیقی طور پر اہل اساتذہ ہی پے اسکیل اور عہدے کے ساتھ آگے بڑھ سکیں گے جو جامعات کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔
واضح رہے کہ موجودہ پالیسی کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں تمام اساتذہ مجبوراً صرف ترقی کے لیے تحقیقی مقالے لکھ رہے ہیں یوں یہ زبردستی کی پالیسی تعلیمی و تحقیقی معیار پر اثر انداز ہو رہی ہے، جب پروموشن کی مجبوری الگ کر دی جائے گی تو پھر صرف حقیقی اور معیاری تعلیم و تحقیق ہی منظر عام پر آئے گی۔ بات یہ ہے کہ جب معیار بڑھانا ہے تو پھرتحقیق کرنے والے اساتذہ کو ایسی مراعات بھی پیش کریں، جس کو دیکھ کر وہ اور محنت اور دل سے کام کریں۔