بھٹو کا نام مٹایا نہیں جا سکا ہے
43سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد مگرآج بھی یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ بھٹوکا نام اوراُن کی خدمات کومٹایا نہیں جاسکا ہے
43سال قبل،4اپریل1979 کو، آج ہی کی منحوس تاریخ کو،پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ، ذوالفقار علی بھٹو ، کو بے رحمی سے پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا تھا ۔ اس بہیمانہ اور سنگین فعل کو بعد ازاں ، کئی ثبوتوں کے ساتھ ، عدالتی قتل کا نام بھی دیا گیا ۔
بھٹو کو پھانسی دے کر قتل کرنے والوں نے سوچا تھا کہ یوں بھٹو کا نام اور اُن کی شاندار قومی خدمات کو بھی پھانسی پر چڑھا کر مٹا دیا جائے گا ۔ کوئی اُن کا اور اُن کے خاندان کا نام بھی یاد نہیں رکھ سکے گا۔
43سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد مگر آج بھی یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ بھٹو کا نام اور اُن کی خدمات کو مٹایا نہیں جا سکا ہے ۔ مٹانے اور محو کرنے کے سب برخود دعوے غلط ثابت ہُوئے ۔آج 4اپریل2022 کو جب ہم بھٹو مرحوم کی تنتالیسویں برسی منا رہے ہیں تو یہ بھی بھٹو کے نہ مٹنے کی ایک نشانی ہی تو ہے ۔
بھٹو صاحب مرحوم کے کٹر مخالفین ،43برس گزرنے کے بعد ، آج کفِ افسوس ملتے ہُوئے کہنے پر مجبور ہیں کہ بھٹو ایسے عظیم اور بے بدل شخص کو یوں پھانسی دے کر ختم نہیں کرنا چاہیے تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ بھٹو صاحب پھانسی کے پھندے میں جھُول کر معدوم نہیں ہُوئے ہیں ۔ انھیں موت کے رُوپ میں ہمیشہ کی زندگی ملی ہے ۔
بھٹو آج بھی پھانسی دینے والوں کے اعصاب پر سوار ہیں ۔ ترک حکمرانوں نے بھٹو صاحب کو پھانسی دیے جانے سے قبل ، مبینہ طور پر، پاکستانی مطلق حکمران سے بجا کہا تھا کہ ہم آج تک اپنے پہلے منتخب وزیر اعظم ( عدنان میندریس) کو پھانسی دینے کی سزا بھگت رہے ہیں، اس لیے آپ بھی بھٹو کو پھانسی دینے سے باز رہیں ۔ یہ وارننگ مگر بھٹو کی جان لینے والوں کو قبول تھی نہ اُن کی سمجھ میں آ سکی ۔ نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔
بھٹو صاحب کی 43ویں برسی سے قبل ، چند روز پہلے، راقم نے خیبر پختونخوا کے ایک سابق اور ریٹائرڈ چیف سیکریٹری سے بھٹو صاحب کے بارے میں ایک سوال پوچھا۔ یہ سابق چیف سیکریٹری ہمارے بزرگ دوست ہیں ۔ بھٹو صاحب مرحوم کے بارے میں اُن سے چند سوالات پوچھے تو فرمانے لگے :''بھٹو صاحب کی حکومت کے آخری ایام کے دوران مَیں جنوبی وزیرستان کا پولیٹیکل ایجنٹ تھا ۔
وزیرستان کے دگرگوں حالات ہم نے بڑی محنت سے درست کیے تھے ۔ بھٹو صاحب اس کامیابی پر بڑے خوش تھے ۔ وہ اپنے اطمینان کی خاطر وزیرستان تشریف لائے تو مَیں نصف گھنٹہ اُن کے پاس بیٹھا ۔ اس دوران انھیں وزیرستان کی سابقہ اور تازہ صورتحال پر بریفنگ بھی دی ۔
سُن کر بے حد خوش ہُوئے ۔ میں نے اس آدھ گھنٹے کی بالمشافہ ملاقات کے دوران اندازہ لگایا کہ یہ بھٹو اخبارات کے منفی پروپیگنڈے سے قطعی مختلف ہے ۔ ایک شاندار ، قیمتی اور نہایت ذہین بھٹو ۔''پھر ہمارے یہ بزرگ محترم دوست کچھ یاد کرتے ہُوئے فرمانے لگے:'' بھٹو صاحب کے مجھ پر دو بڑے احسانات ہیں ۔ میرا جدہ کے پاکستانی سفارتخانے میں فرسٹ سیکریٹری متعین ہونا اور میری بیٹی کا ایوب میڈیکل کالج ( ایبٹ آباد) میں داخلہ ۔ بھٹو صاحب کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔''
واقعہ یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے بعد زیڈ اے بھٹو پاکستان کی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں بہت زیادہ کتابیں ، کالم ، مضامین اور تجزیے لکھے گئے ۔ جن کے بارے میں اب بھی بہت کچھ لکھا اور کہا جارہا ہے اور آیندہ بھی لکھا، کہا اور بیان کیا جاتا رہے گا۔
اگر ہم لاہور میں بروئے کار ''بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن'' ہی کا جائزہ لیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ اِس واحد ادارے کے پرچم تلے بھٹو صاحب مرحوم پر اس قدر کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ بشیر ریاض صاحب ( جنہیں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ مرحومہ پیار اور احترام سے Bashکہہ کر پکارا کرتی تھیں) نے اس ادارے کی خوب سرپرستی، رہنمائی اور نگرانی کی ہے ۔ اس ادارے کے تحت ، بھٹو اور بھٹو خاندان کی خدمات بارے، اُن کی اپنی بھی کئی کتابیں شایع ہو چکی ہیں ۔ بھٹو خاندان کے کئی لوگوں نے جانوں کی قربانی دے کر پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کا نام زندہ رکھا ہے ۔ یہ ایک غیر معمولی کامیابی ہے ۔ پیپلز پارٹی کو بھی شاباش جس نے قوم کی یادداشت سے زیڈ اے بھٹو کا نام مٹنے اور محو نہیں ہونے دیا ۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو کا نام مٹانے اور لوگوں کے دلوں سے اُن کی قومی خدمات کی یاد کھرچنے کی بے پناہ کوششیں ہُوئی ہیں ۔ یہ کوششیں مگر ناکام اور نامراد ہی ہُوئیں ۔ پچھلے چارعشروں سے زائد عرصے سے، ہر سال4اپریل کو، پورے پاکستان میں بھٹو صاحب مرحوم کی برسی جس شان و شکوہ سے منائی جاتی ہے ، یہ بھی اس امر کا واضح اظہار اور ثبوت ہے کہ متنوع اور بسیار کوششوں اور سازشوں کے باوصف بھٹو صاحب کا نام مٹایا اور محو نہیں کیا جا سکا ہے ۔
جس ذہنیت نے زیڈ اے بھٹو کو پھانسی دی ، تختہ دار پر بھٹو کو لٹکانے کے باوجود اس ذہنیت کو تسکین ملی نہ اُس کے دل میں ٹھنڈ پڑی ؛ چنانچہ ہم سب نے دیکھا کہ بھٹو ، اُن کے خاندان اور اُن کی پارٹی کو مٹانے ، گرانے اور جریدۂ ہستی سے نابود کرنے کی بے شمار کوششیں بروئے کار لائی گئیں ۔ جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دَور میں بھی اور جنرل ضیاء کی باقیات نے بھی بھٹو، بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے وجود کے خاتمے کی انتھک اور لا تعداد کوششیں کیں لیکن ایک بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی ۔
آج 4اپریل ہے۔ آج پھر پاکستان بھر میں جس طرح پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے بھٹو صاحب کا نام پکارا جا رہا ہے ، یہ اس ضمن میں ایک اور زندہ و پایندہ ثبوت ہے کہ بھٹو صاحب کا نام مٹایا نہیں جا سکا ہے ۔ بھٹو اور اُن کے تین بچوں کو سفاکی اور بیدردی سے قتل کرنے کے باوجود بھٹو اور اُن کی پارٹی کا نام ختم نہیں کیا جا سکا ہے ۔دو آمرانہ ادوار نے، سرکاری اور مارشل لائی سرپرستی میں، بھٹو اور پیپلز پارٹی کا نام مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اب تو جناب عمران خان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بھٹو صاحب آزاد خارجہ پالیسی چلانے والے حکمران تھے، اسی لیے کچھ قوتیں اُن کی مخالف ہو گئیں ۔
خانصاب نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھٹو صاحب کو قتل کیا گیا۔ زیڈ اے بھٹو مرحوم کے مبینہ عدالتی قتل کے بعد اُن کی بیٹی کا دو بار وزیر اعظم منتخب ہونا اس امر کا بین ثبوت تھا کہ بھٹو کا نام مٹایا نہیں جا سکا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بھٹو صاحب کے داماد کا صدرِ پاکستان بن جانا اور مرکز میں پیپلز پارٹی حکومت کا قیام بھی بھٹو صاحب کے نہ مٹنے کا ایک ثبوت ہے۔
بھٹو صاحب کو پھانسی دیے جانے کے باوجود سندھ میں پیپلز پارٹی کا ایک سے زیادہ بار حکومت بنانا بھی بھٹو کے نہ مٹنے کا ایک بڑا حوالہ ہے ۔ پیپلز پارٹی آج بھی بھٹو کو تختہ دار پر کھینچنے والی قوتوں کے سامنے اپنا چراغ جلارہی ہے ۔ آج مرکز اور ایک صوبے کی حکومتوں کی تبدیلی میں پیپلز پارٹی جو بنیادی کردار ادا کررہی ہے، یہ بھی بھٹو صاحب کے نہ مٹنے کی ایک زندہ نشانی ہے۔