دانشمندانہ رویوں کی ضرورت
دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں ان تحریکوں کے ذریعے حکومتیں بدلاکرتی ہیں۔یہ ایک پرامن اورآئینی طریقہ ہوتاہے
KABUL:
وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔ گزشتہ ماہ کی سات تاریخ کو ہماری اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی، جب ہی سے اسلام آباد کی فضاؤں میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی تھی۔
اس عدم اعتماد کی تحریک کی تیاری دو مہینوں سے کی جارہی تھی اور اپوزیشن اپنے نمبر پورے کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھی ۔اُسے جب مکمل یقین ہوگیاکہ مطلوبہ نمبرز پورے ہوچکے ہیں تووہ اس تحریک کو پارلیمنٹ میں لے آئی۔
اس سے پہلے حکومتی وزراء اپوزیشن کو چیلنج کرتے دکھائی دے رہے تھے کہ ہمت ہے تو تحریک لاکے دکھاو ٔاوردیر ہونے پر وہ اس کا مذاق اُڑا رہے ہوتے تھے ۔ مگر جب تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی تو حکومت کا رویہ انتہائی معاندانہ بلکہ جارحانہ ہوگیا۔عدم اعتمادکی تحریک کوئی انہونی یا غیر قانونی اور غیر آئینی ہرگز نہیں ہوتی۔
دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں ان تحریکوں کے ذریعے حکومتیں بدلاکرتی ہیں۔یہ ایک پرامن اورآئینی طریقہ ہوتاہے ،اس پرکسی کو خفا نہیںہوناچاہیے۔وزیراعظم اگر پارلیمنٹ کی اکثریت کااعتماد کھودے تو پھر اُسے مزید دنوں کے لیے برسراقتدار نہیں رہنا چاہیے۔یہ پارلیمانی طرز حکومت کا ایک مہذب اورشائستہ طریقہ ہے۔پاکستان میں آج تک اس طریقہ سے حکومت کبھی تبدیل نہیں ہوئی ۔
یہ پہلا موقعہ تھا کہ اس تحریک کے نتیجے میں برسراقتدار طبقہ کو کچھ زیادہ ہی خطرات کاسامنا رہا اِسی لیے وہ اتنا مضطرب اور پریشان دکھائی دیتا رہا۔ وزیراعظم نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ہرممکن کوشش کی اور اپوزیشن کو دھمکیوں سمیت تمام حربے استعمال کیے۔ جب سارے حربے ناکام ہوچکے تو پھر وہ امریکا میں متعین اپنے سفیر کا ایک ایساخط منظر عام پرلے آئے جو اُن کے بقول اُن کی حکومت گرانے کی کسی غیر ملکی چال کاپتادیتا تھا۔اس خط کے مندرجات عوام کو نہیں دکھائے گئے لیکن اسے ایک سیاسی حربہ کے طور پر مسلسل استعمال کیا جاتا رہا۔
نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں ضرور رکھاگیالیکن میٹنگ کے اعلامیہ میں کہیں بھی اِسے عدم اعتمادکی تحریک سے منسلک نہیں سمجھاگیا۔اس لیے یہ کہنا کہ عدم اعتماد کی تحریک اسی غیر ملکی سازش کاایک حصہ تھی کسی لحاظ سے درست اورصحیح معلوم نہیں ہوتا۔
اپوزیشن تو اس حکومت کے خلاف پہلے دن سے ہی سرگرم تھی اورخود وزیراعظم بھی اپنے اس دور حکومت میں اکثر یہی کہتے دکھائی دیے گئے کہ میرے خلاف تو یہ پہلے دن سے نبردآزما ہیں۔لہٰذا یہ سمجھنا کہ اپوزیشن امریکا کے کہنے پر اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئی تھی عقل وفہم کے کسی پیمانے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔
خود ہمارے وزیراعظم ابھی دوسال قبل تک امریکاکے اپنے دوروں کو بہت اہمیت دیاکرتے تھے اوراُن کی دلی خواہش بھی یہی ہوتی تھی کہ کسی طرح انھیں بھی امریکا کی وہ آشیرواد حاصل ہوجائے جو اُن سے پہلے ہمارے کئی حکمرانوں کو ملتی رہی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ 2019 میں ٹرمپ سے ملکر جب وہ واپس لوٹے تھے تو وہ اتنے خوش وخرم تھے کہ جوش خطابت میں اسلام آباد ائیرپورٹ پریہ کہاکہ ''مجھے آج اتنی خوشی محسوس ہورہی ہے جیسے میں نے ایک ورلڈ کپ پھرسے جیت لیا ہو۔'' ڈونلڈ ٹرمپ کے چلے جانے اوراُنکی جگہ جوبائیڈن کے برسراقتدار آنے سے امریکی طور طریقوں میں بہت تبدیلی دیکھی گئی ہے، جوبائیڈن کوئی اورطریقہ کی سوچ رکھتے ہیں۔ انھوں نے ہمیں اب اہمیت دینا شاید اس لیے بھی ضروری نہ جانا کیونکہ افغانستان کے حالات بدل چکے ہیںاور اب انھیں ہماری ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔
خان صاحب کو سمجھنا چاہیے تھا کہ دنیاکے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں ۔کوئی کسی کادائمی دوست اورہمدرد نہیں ہوتا۔یہ ہمالیہ سے اُونچی دوستی کے نعرے بھی دل کے بہلاوے کے سوا کچھ نہیںہوتے۔ہم اگر ایک مضبوط معیشت رکھتے ہوتے تو ہمیں بھی دنیاکوئی اہمیت دینے پرمجبور ہوتی۔ ہم توزمانے میں کاسہ گدائی لیے پھرتے ہیں۔ خود وزیراعظم صاحب نے اقتدار ملتے ہی خودی اور خود انحصاری کے اپنے دعوؤں کی دھجیاں بکھیرکے رکھ دیں ۔ ہم جب بھی کسی غیرملکی دورے پرجاتے ہیں تو ہماری اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ واپسی پرکچھ نذرانے اپنی جھولی میں سمیٹ کر لے جائیں۔
ملکی معیشت کایہ حال ہوچکاہے کہ ہمارے پاس اگلے تین ماہ گذارنے کے لیے زرمبادلہ باقی نہیں بچا ہے۔ ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف سمیت دنیا کے تمام آپشنز ہم آزما چکے ہیں ۔اب ہمیں اپنا کوئی دوست ملک بھی مزید قرضے دینے کو تیارنہیں ہے۔ ڈالرکی اُڑان اور روپے کی بے قدری نے باقی رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے ۔
دو مہینے بعد سالانہ بجٹ پیش کرنا ہے اورہم ابھی حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی کو جلد ازجلد نمٹاکے روزمرہ کے کاموں میں پھرسے لگ جاتے لیکن یہاں توغیرضروری طول دیکر اُسے معیشت کی مزید تباہی کاذریعہ بنادیاگیا۔کشمکش اور غیریقینی صورتحال نے حالات دگرگوں بنادیے ہیں۔
وزیراعظم کوفکر رہی توصرف اپنے اقتدار اوراپنی کرسی کی رہی۔ انھوں نے اُسے بچانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگائی اور جب بات نہ بنی تو پھر قومی اسمبلی ہی تحلیل کر دی۔ اگر وزیر اعظم اسمبلی تحلیل نہ کرتے اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی تو اپوزیشن اُنکی چھوڑی ہی بدحال معیشت کوسدھارنے کی کوششوں میں پھنس جاتی۔یہ تو اُن کے لیے اوربھی اچھا موقعہ ہے کہ سڑکوں پرنکل کر ایک بار پھربھاری اکثریت سے جیت کر دوبارہ حکومت بنالیں۔
محاذآرائی اورانارکی کی سیاست سے ملک اورقوم کانقصان ہواکرتاہے۔ ہم قوم کو نفرتوں کی بھینٹ چڑھاکے ایک دوسرے کا دشمن بنارہے ہیں۔ احتجاج اورہنگامے کی کالیں دیکرملک دشمنی کررہے ہیں۔ سیاست کوسیاست تک ہی رہنے دینا چاہیے ، اسے دائمی دشمنی میں تبدیل نہیں کرناچاہیے۔دوسری جانب اپنی ناکامی کااعتراف کرنے کے بجائے غیر ملکی سازشوں کو الزام دینا بھی ہمارے کسی مفاد میں نہیں ہے۔ ہم جب عالمی طاقتوں سے ناتا توڑکرایک دن بھی گذارنہیں سکتے توپھرایسی تقریروں اوربیانوں سے بلاوجہ قوم کی مشکلات میں اضافہ کیوں کرتے ہیں۔
ہم جب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری ایکسپورٹ کا بہت بڑاحصہ اِنہی مغربی ملکوں کوجاتاہے۔ روس یاکوئی دوسرامشرقی ملک ہم پرابھی تک اعتبار کرنے کا روادار ہی نہیں ہے۔ ہم نے ماضی میں اُنکے ساتھ جو رویہ اختیار کیارکھاہے وہ کسی سے ڈھکاچھپابھی نہیں ہے۔خارجہ پالیسیاں یکدم نہیں بدلاکرتیں۔ رفتہ رفتہ اورآہستہ آہستہ اپنے رویوں میںبدلاؤ لایاجاتاہے۔ امریکاسے اچانک دشمنی اوراس کے حریفوں سے اچانک دوستی نیوٹرل ہونے کی نشاندہی نہیں کرتی۔بلکہ یہ ایک غیرذمے دارانہ اور غیردانشمندانہ طرزعمل کہلاتاہے جس کاخمیاز ہ قوموں کوبھگتناپڑتاہے۔