گیم آن ہے

اپوزیشن کے پاس سیاسی استحکام اور معاشی استحکام کا متبادل پروگرام کیا ہے؟



فیصلہ آنے سے قبل کا مرحلہ بھی بڑا جانگسل تھا، اندیشوں اور امکانات کے غبار سے اٹا ہوا۔ فیصلہ آنے کے بعد یہ غبار چھٹا ہے تواب اگلے مناظر کے امکانات اور اندیشوں نے ڈیرہ ڈال دیا ہے۔

سیاسی میدان کا منظر پانچ دنوں بعد بظاہر اسی مقام پر آن رکا ہے لیکن اس دوران بہت سا پانی پلوں کے نیچے بہہ گیا۔تاہم فیصلے کے مطابق کم از کم سیاسی سلسلہ وہیں سے شروع ہوگا جہاں سے ٹوٹا تھا۔

سیاست کے معاملات تو خیر وہیں سے شروع ہو جائیں گے جہاں سے ٹوٹے تھے لیکن اس دوران سیاست کی وجہ سے معیشت اور سماجی رویوں کی شکل میں جو کچھ ٹوٹا ہے، اس کا سلسلہ وہیں واپس جانا بعید از قیاس ہے۔ دور کیا جانا؛ روپے ڈالر کی شرح مبادلہ میں اب صرف کاروباری لوگوں اور امراء کی ہی جان نہیں اٹکی بلکہ عام آدمی کی آسودگی بھی اس پر منحصر ہے؛ دالیں ، گھی اور کوکنگ آئل جیسی بنیادی ضرورت کا غالب حصہ امپورٹ سے پورا ہوتا ہے۔

اِدھر روپے کی قیمت میں کمی آئی اُدھر مہنگائی جھٹ سے ایک اور زینہ اوپر چلی جاتی ہے۔ بجلی ، گیس، آئل، ٹرانسپورٹ، دوائیاں،، حتیٰ کہ بچوں کی اسٹیشنری تک کے ریٹس بڑھ جاتے ہیں۔ عدم اعتماد تحریک پیش ہونے سے لے کر روپے کی شرح مبادلہ میں کم و بیش دس روپے کی کمی ہو چکی ہے؛ یعنی تقریباً 5% سے زائد۔

صرف اسی پر بس نہیں، اسٹاک ایکسچینج کا دل بیٹھا تو اربوں روپے کی مالیت ہوا ہو گئی۔ نو ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 35 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے۔ مالیاتی استحکام کا بھرم سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔ سیاسی رولر کوسٹر چلی تو مالیاتی استحکام جو پہلے ہی ہلکے سُروں میں کھانس رہا تھا ، اسے شدید غوطہ لگا، ایسا کہ جیسے سانس اٹک سا گیا ہو۔ اسٹیٹ بینک نے فورا ایمرجنسی میں ایک ہی جھٹکے میں شرح سود میں 2.5% کا اضافہ کر دیا اور خبردار کر دیا کہ افراطِ زر بدمستی پر اتر آیا ہے اس لیے خبردار رہیے۔

نہیں معلوم بیرونی سازش کے کردار بے نقاب کرنے سازشی ملک کا بال بیکا ہوا یا نہیں لیکن دنیا بھر میں ہمیں سب نے مڑ کر ضرور دیکھا۔ آئی ایم ایف نے کہا ؛ صاحبو، تازہ تازہ بحال ہوئے پروگرام کو ایک وقفے کی حاجت ہے، اس لیے کہ نہیں معلوم کون حکمران ہے، جو وعدے وعید کیے گئے انھیں پورا کرنے کا ذمے اب کون لے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے وارننگ دی سیاست کا بحران معیشت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکاہے ۔

اس دوران میں زرِ مبادلہ کے ذخائر میں ہر ہفتے ٹھیک ٹھاک کمی ہونے لگی۔ اب صورت کچھ یوں ہے کہ چھ ہفتے کے لگ بھگ کی امپورٹ کوریج رہ گئی ہے جو ظاہر ہے کہ چراغِ مفلس کی مانند دو چار بیرونی ادائیگیوں کی پھونک کی مار ہے۔

ہاں ، ایک اور بات جسے ہم آپ زرِ مبادلہ کے ذخائر سمجھ رہے ہیں یہ بھی دراصل دوستوں کی کرم فرمائی سے موجود ہیں ورنہ انھیں اب تک اُن کی قسطوں میں کھپ جانا تھا۔ سیاسی آپا دھاپی کے طوفان میں کسی نے کم ہی نوٹ کیا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں چین، سعودی عرب اور عرب امارات نے اپنے قرضوں کی قسطوں کو رول اوور کیا جس کے سبب یہ چند ارب ڈالرز ذخیرہ نظر آتے ہیں۔ ان موخر ادائیگیوں کی کل رقم شامل کرلیں تو اسٹیٹ بینک کے پاس جمع ڈالرز بطور زرِمبادلہ ذخائر کی حقیقت بھی سمجھ آ جاتی ہے۔

اب جب کہ اپوزیشن کے بقول عمران خان حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے ، وزیر اعظم عمران خان نے انڈسٹری اور عوام کے لیے گزشتہ چند ماہ کے دوران جو اقدامات اٹھائے ان کا تسلسل مخدوش ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کو جون تک فریز رکھنے کا وعدہ تھا ( یہ الگ بات کہ اس رعایت کو پورا کرنے میں خزانہ کی اپنی حالت غیر ہو چلی ہے !)۔ بجٹ سر پر ہے، آمدن اور اخراجات کے تخمینے اور سال بھر کا بجٹ پیش کرنے کی بلا کس کے سر بندھے گی اور کون کتنی ذمے داری اٹھاتا ہے اور کتنا حصہ پیشرو مخالفین کے سر ڈالتا ہے۔

تسلیم کہ عدم اعتماد تحریک کامیاب ہو جاتی ہے۔ بقول اپوزیشن نااہل حکومت سے چھٹکارہ مل گیا، اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟ اپوزیشن کے پاس سیاسی استحکام اور معاشی استحکام کا متبادل پروگرام کیا ہے؟ ایسے وسیع البنیاد اتحادوں کی تاریخ یہ رہی ہے کہ مشترکہ دشمن کی موجودگی تک اتحاد قائم رہتا ہے مگر اس کے بعد سیاسی مفادات اور تضادات بسیرے کے لیے قطار اندر قطار اترنے لگتے ہیں۔

عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں نئے قائد ایوان کا انتخاب ہونا ہے۔ نئے قائد نے بطور وزیر اعظم اپنی کابینہ کا انتخاب کرنا ہے۔ ایسے وسیع البنیاد اور وسیع المفاد اتحاد کی موجودگی میں یہ انتخاب آسان نہیں۔ اختلاف رائے کی چنگاری بھڑکتے دیر نہیں لگتی۔

حوالے کے لیے گزشتہ سال پی ڈی ایم میں بظاہر مثالی اتحاد کے بعد پی پی پی اور ن لیگ میں اختلاف رائے جلسوں جلسوں ، ٹاک شوز اور بیانات کی زینت یاد رہے ۔ تب تو اقتدار ہنوز دور تھا اب جب کہ اقتدار کی لیلیٰ گھونگھٹ نکالے حجلہ حکومت میں منتظر ہے، ایسے میں یہ مثالی اتحاد اور اتحادیوں کے ناز نخرے اٹھانے میں خود سپردگی کا جذبہ ایسے ہی قائم رہے گا ۔ بقول غالب کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔

اس دوران میں پی ٹی آئی نے جس جارحانہ سیاسی انداز کا مظاہرہ کیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ اپوزیشن کو چین سے حکومت نہیں کرنے دے گی۔ اپوزیشن اگر حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو اسے اپنے احتسابی مقدمات کے ڈنک نکالنا ہیں، انتخابی اصلاحات میں کچھ ایسا کرنا ہے کہ پچھلے تجربات کے شگاف پُر ہوں، پی ٹی آئی حکومت کا کچا چٹھا کھولنا ہے تاکہ اگلے الیکشن میں اس کی جیت کے امکانات نہ رہیں اور بانس اور بانسری کی سردردی ختم ہو سکے۔

آنے والے دن ثابت کریں گے کہ اس فیصلے کے بعد سلسلہ وہیں سے جڑ پائے گا جہاں سے ٹوٹا تھا یا کچھ حیران کن ، ان دیکھے نئے سلسلے شروع ہونگے۔ سو بقول ہمارے ایک دوست ایک گیم ختم ہوئی ہے جب کہ نئی گیم آن ہو گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں