وہ گائے والا اور ہمارے سیاستدان
فی زمانہ ہمارے ملک میں جو حالات نظر آ رہے ہیں وہ گزشتہ سالوں کا شاخسانہ ہے
کراچی:
فی زمانہ ہمارے ملک میں جو حالات نظر آ رہے ہیں وہ گزشتہ سالوں کا شاخسانہ ہے، ان واقعات و سانحات کے تناظر میں مولانا رومی کی ایک حکایت یاد آگئی ہے چونکہ یہ واقعہ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں پیش آیا تھا، حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی اور رسول تھے اور بادشاہ۔ انبیا کرام میں حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت داؤدؑ ہی وہ پیغمبر ہیں جنھیں قرآن کریم نے خلیفہ کے لقب سے نوازا۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنا دیا، تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو۔''
مفکرین کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں، پرندوں، جانوروں کو حکم دیا تھا کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کی تسبیح بیان کریں تو وہ سب بھی ان کلمات کو دہرائیں، جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تو پرندے بھی ہوا میں ٹھہر کر ان کے ساتھ ذکر الٰہی میں شامل ہو جاتے، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو دوسرا معجزہ جو عطا کیا تھا وہ تھا لوہے کو نرم کرنے کا، انھیں لوہا موڑنے کے لیے کسی ہتھوڑے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، بغیر آگ و بھٹی کے وہ لوہے کو موڑ کر ہاتھ سے کڑیاں بنا لیا کرتے تھے۔
ان کے زمانے میں ایک سادہ لوح اور نیک دل آدمی تھا، وہ محنت و مشقت کرنے سے دور رہنا چاہتا تھا، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دعاؤں پر اکتفا کرتا، ہر روز، ہر وقت دعا کرتا کہ اے اللہ میں غریب اور بے سہارا ہوں، تو میری مدد فرما اور مجھے غیب سے رزق عطا فرما، میں محنت کی اذیت سے بچنا چاہتا ہوں، اس کی غربت و افلاس سے اس کے پڑوسی اور جاننے والے واقف تھے، وہ حیران تھے کہ یہ کیسا شخص ہے جو بغیر ہاتھ پاؤں چلائے کھانے پینے کی اشیا طلب کر رہا ہے، لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے، اس کا مذاق اڑاتے اس کی کاہلی اور سستی کی داستان ہر کس و ناکس کے کانوں تک پہنچ چکی تھی، لیکن اسے کسی کی پرواہ نہ تھی وہ دعاؤں کے ذریعے اپنے حالات بدلنے کا خواہش مند تھا۔
ایک دن ایسا بھی آیا جب اس کی دعا مستجاب ہوگئی، وہ دن اس کے لیے خوش نصیب ثابت ہوا، جب ایک گائے دروازے کو دھکا دیتی ہوئی اس کے گھر میں داخل ہوگئی، اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا، ڈھیر سارا گوشت اس کے پاس چل کر آیا تھا، اس نے فوراً ہی گائے کو قابو میں کیا اور اس کی گردن پر چھری پھیر دی اور قصاب کو بلا کر اپنی پسند کی بوٹیاں بنوا لیں، ادھر گائے کا مالک گائے کو ڈھونڈتا، گلی کوچوں کی خاک چھانتا وہاں آگیا، دیکھا گائے تو کٹ چکی ہے اور قصائی گوشت بنا رہا ہے، گائے کی یہ حالت دیکھ کر اس نے گریہ و زاری شروع کردی، روتا جاتا تھا اور دل خراش آواز میں اسے برا بھلا کہہ رہا تھا تو نے یہ کیا غضب کیا، تیرا بھلا کیا حق تھا تو اسے مفت کا مال سمجھ کر ذبح کر دیتا۔
وہ قلانچ شخص غصے سے بولا، تم خواہ مخواہ شور کر رہے ہو، میری برسوں کی دعا پوری ہوئی اور گائے میرے گھر میں آگئی، گائے کے مالک کو اس کی احمقانہ باتوں نے چراغ پا کردیا اور وہ اسے حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں لے گیا، پہلے گائے والے نے پورا واقعہ بیان کیا، اس کے بعد اس معصوم آدمی نے اپنی صفائی پیش کی کہ وہ چور اچکا ہرگز نہیں ہے، میں اپنی بدحالی پر ہر دم اللہ کا شکر گزار رہا، اب جب کہ مجھے رزق حلال بغیر کسی محنت کے حاصل ہو گیا تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اسے ذبح کردیا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا کہ کوئی معقول دلیل پیش کر، وہ روتا ہوا بولا، دوسرے لوگوں کی طرح آپ بھی مجھے قصور وار سمجھ رہے ہیں، پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر فریاد کی کہ'' اے اللہ تو حضرت داؤد علیہ السلام کو حقیقت سے آگاہ فرما کہ میں بے خطا ہوں۔'' وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ اس کے گریہ میں ایسا درد تھا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے دل میں بھی اس کے لیے ہمدردی پیدا ہوگئی۔ انھوں نے گائے کے مالک سے کہا کہ'' اس کا فیصلہ ایک دن بعد کیا جائے گا'' پھر وہ حجرے میں تشریف لے گئے۔
دوسرے دن حضرت داؤد علیہ السلام نے گائے کے مالک سے کہا ''اس کا پیچھا چھوڑ دے اور اسے معاف کردے، حق تعالیٰ تیرے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائے گا۔'' حضرت داؤد علیہ السلام کا فیصلہ سن کر وہ غصے سے بے قابو ہوتا ہوا بولا، ''آپ کے انصاف کی شہرت زمین و آسمان تک پہنچ چکی ہے، لیکن میرے ساتھ یہ ظلم کیوں؟'' حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کے جواب میں کہا'' تیرے لیے بہتر یہ ہوگا کہ اپنا تمام مال و اسباب اس کے حوالے کردے ،ورنہ تیری بہت رسوائی ہوگی اور کچھ عجب نہیں تیرے کیے ہوئے ظلم و ستم بھی ظاہر ہو جائیں۔''
وہ نادان کچھ سننے سمجھنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھا بلکہ گائے کے ذبح ہونے کی دہائی دے رہا تھا، تیسری بار پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ''تو اپنے اہل و عیال بھی اس کے حوالے کردے'' یہ سننا تھا کہ وہ اپنا سر پتھر سے پھوڑنے لگا۔ لوگ بھی حیران تھے کہ اللہ کے نبی نے یہ کیسا فیصلہ سنایا ہے۔ انھوں نے وضاحت طلب کی کہ'' آخر بے قصور گائے والے پر اتنا ظلم کیوں؟''حضرت داؤد علیہ السلام نے لوگوں کے جواب میں کہا کہ'' آؤ میرے ساتھ۔ ''وہ سب آپؑ کے ساتھ چل دیے۔
ایک گھنے درخت کے پاس رک کر آپؑ نے فرمایا'' یہ وہ درخت ہے جہاں ایک آدمی کو قتل کیا گیا تھا۔ گائے والا اپنے آقا کا قاتل ہے، یہ شخص مقتول کا زرخرید غلام تھا، اس نے اپنے مالک کو قتل کرکے تمام جائیداد اور مال و دولت پر قبضہ کرلیا اور یہ دعا مانگنے والا مقتول کا بیٹا ہے، اس ظالم نے مقتول کے کم سن اور یتیم بچوں کو تختہ مشق بنایا اور دانے دانے کو محتاج کردیا۔ جس چھری سے اس نے اپنے آقا کو قتل کیا وہ چھری بھی ساتھ ہی دفنا دی'' قبر کھودی گئی تو کھوپڑی کے ساتھ چھری بھی نکلی۔ حقیقت سامنے آنے کے بعد گائے والا خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے شریعت کا فیصلہ سنا دیا۔چنانچہ اسی چھری سے اس کی گردن اڑا دی گئی، زیادہ تر سیاستدان گائے والے جیسے ہی ہیں۔ مال و اسباب بھی ہڑپ کر جاتے ہیں اور واویلا بھی خوب مچاتے ہیں اپنی شرافت و پاک بازی کی قسمیں کھا کر لوگوں سے ووٹ حاصل کرتے ہیں اور جب جیت جاتے ہیں تو اسی عوام کے ٹیکسوں سے محل بناتے اور موجیں اڑاتے ہیں اگر کوئی غبن اور جھوٹ سامنے آجاتا ہے تو بھی بڑی آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔ ہر چیز پیسے سے خریدی جاتی ہے ۔ اسی لیے کہتے ہیں آزمائے ہوؤں کو آزمانہ نادانی کے سوا کچھ نہیں۔