تبدیلی کا سبق
ایک اچھے مستقل کی آرزو میں پاکستانی عوام کی بڑی تعداد نے خود کو اس کے ساتھ وابستہ کیا
ایک دانشور دوست نے عجب ٹویٹ کیا۔ لکھا:
''میں عمران خان کی حمایت کو اپنا جرم سمجھتا ہوں۔ پہلے تو اس پر صرف معذرت خواہ تھا، اب مجھے لگتا ہے کہ نہیں اس کے لیے صلوۃ التوبہ پڑھنی چاہیے اور کفارہ کے طور پر نفلی روزے رکھنے چاہئیں۔ رب کریم یہ غلطی بخش دے اور آیندہ ایسی غلطیوں سے بچائے،(آمین)''۔
برادرم عامر ہاشم خاکوانی صحافی اور کالم نگار ہیں لیکن وہ صرف صحافی اور کالم نگار نہیں، تاریخ، سیاست اور تہذیب جیسے وقیع شعبہ ہائے زندگی میں گہری درک رکھنے والے سنجیدہ دانشور ہیں۔ گزشتہ دس بارہ برس جب سے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف ہماری سیاست کی بساط پر ایک نئے کردار کی حیثیت سے داخل ہوئی، وہ اس کی حمایت کر رہے تھے۔
کسی کی رائے کو ایمان دارانہ رائے سمجھنے کے بجائے اس کے پس پشت بد دیانتی اور کوئی مفاد تلاش کرنے کے بے مہر عہد میں بہت آسانی کے ساتھ اس حمایت کو کوئی بھی معنی پہنائے جا سکتے ہیں لیکن اگر بدگمانی جیسی بدترین بد تہذیبی کو ایک طرف رکھ دیاجائے تو اس حمایت کے پس پشت بہت کچھ اچھا بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
برادرم عامر ہاشم خاکوانی اس ملک کے کوئی تنہا شہری نہیں تھے جن کے دل میں تبدیلی، شفافیت اور انصاف کی فراوانی کی آرزو کروٹیں لے رہی تھی بلکہ ان جیسے لاکھوں تھے جنھوں نے عمران خان کو ہیرواور نجات دہندہ سمجھا اور ان کے اس امیج کو قائم رکھنے کے لیے قلمی جہاد کیا۔ پاکستان کی بدقسمت تاریخ کے نشیب و فراز پر نگاہ ڈالنے کے بعد وہ بہت سے پاکستانیوں میں سے ایک تھے۔
جنھوں نے تبدیلی کی آرزو میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کا ساتھ دیا۔ انھوں نے جب ایک دفعہ عمران خان کو اپنی قیادت کے لیے منتخب کر لیا اور انھیں ووٹ دینے کا فیصلہ کر لیا تو صرف انھیں ووٹ ہی نہیں دیا، اپنی تمام تر دانش ورانہ قوت اور صلاحیت بھی ان کے لیے وقف کر دی۔
اسی لیے اگر یہ کہا جائے کہ عمران خان کامیاب ہوئے تو اس کامیابی کا سہرا تنہا ان کے سر نہیں بندھتا تھا بلکہ اس کامیابی میں ان کے علاوہ عامر ہاشم خاکوانی جیسے ان دانشوروں کا بھی ہاتھ تھا جنھوں نے کسی لالچ یا ذاتی خواہش کی آرزو کے بغیر اس تبدیلی کا ساتھ دیا۔
غور و فکر کے لیے یہ نکتہ ہم وطنوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے ایک اور بات بھی کہنے کو جی چاہتا ہے۔ بنیادی بات نیک نیتی ہے۔ کسی نیک مقصد کے لیے کوئی راستہ اختیار کرتے ہوئے کسی بھی انسان سے غلطی کا سرزد ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے لیکن غلطی اتنا بڑا جرم نہیں جتنا بڑا جرم غلطی پر اصرار کرنا اور اس پر ڈٹے رہنا ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران میں ہم سب بلکہ پوری قوم نے غلطی پر اصرار دیکھا۔ ایک ایسا اصرار جس کے نتیجے میں ریاستی ادارے باہم دست و گریباں ہو گئے۔ تصادم کی اس کیفیت میں بالکل اسی طرح جیسے اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، ریاست کے دست و بازو کہیں گم ہو کر رہ گئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان پرآشوب دنوں میں یہ ریاست اپنے سر یعنی حکومت سے ہی محروم ہو چکی ہے۔
دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ جب کسی ملک میں ایسی صورت حال پیدا ہو جائے اور جن چند لوگوں کی وجہ سے ایسی کیفیت پیدا ہو، ان کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اس پیچیدہ اور پرآشوب مرحلے پر ایک لمحے کو ٹھہر کر اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کی وجہ سے کوئی خرابی تو جنم نہیں لے چکی؟ پھر جب یہ سمجھ میں آ جائے کہ ہمیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے، راستہ بدلنے کی فکر کریں۔
ایسی کیفیت میں ضروری ہو جاتا ہے کہ انسان اپنی اصلاح کرے۔ ان چند ہفتوں کے تجربے سے ہمیں اندازہ ہوا کہ بعض لوگوں میں اپنا جائزہ لینے اور اپنی اصلاح کرنے کی ذرا سی بھی صلاحیت نہیں ہوتی۔ کسی، گروہ یا شخص میں ایسی کیفیت پیدا ہو جائے، اندیشہ یہی ہوتا ہے یہ طرز عمل ایک ایسی تباہی کا راستہ کھول دے گا جس کی اصلاح آسان نہیں ہوتی۔ یہی کیفیت اس تجربے میں بھی دکھائی دیتی ہے۔اس ضد، ہٹ دھرمی اور تنک مزاجی نے وطن عزیز کو جس راہ پر گامزن کر دیا تھا، اس کے نتیجے میں ریاست شکست و ریخت سے دوچار نہیں ہو گئی بلکہ عوام کے ایک قابل لحاظ حصے، خاص طور پر نوجوانوں کے مزاج پر بھی مضر اثرات مرتب ہوئے۔
ان لوگوں کی تربیت کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہو گا۔ اس صورت حال کا دوسرا قابل توجہ پہلو وہ ہے جسے دیکھ کر غالب کے شعر کا ایک مصرع یاد آتا ہے جس کے دوسرے مصرعے میں آبرو وغیرہ کا ذکر ہے۔ پہلا مصرعہ ہے ع
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
سیاسی آزمائش کے اس زمانے میں بہتر ہوتا کہ یہ قیادت اقتدار کو اہمیت دینے کے بجائے اپنے سیاسی مستقبل اور عزت وقارکو برقرار رکھنے پر توجہ دیتی تاکہ اتنی محنت سے بنائی ہوئی ایک جماعت شکست و ریخت کا شکار نہ ہواور وہ اپنی اجتماعیت برقرار رکھ سکے، ایک اچھے مستقل کی آرزو میں پاکستانی عوام کی بڑی تعداد نے خود کو اس کے ساتھ وابستہ کیا۔کاش، خود احتسابی کا یہ احساس ان لوگوں کی جبیں پر بھی چمکتا ہوا دکھائی دیتا جن کے کاندھے پر قوم نے بھاری ذمے داری ڈالی تھی۔ یہ احساس پیدا ہو جائے تو سمجھیے کچھ نہیں گیا۔