آج کی بات
پاکستان کی موجودہ نازک سیاسی صورتحال میں یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ امریکا بہادر ہم سے ناراض ہے
کراچی:
ہم سات دہائیوں کی آزادی کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمارا پاکستان کیسا ہونا چاہیے کیونکہ جو بھی نیا حکمران آتا ہے وہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان بنانے کی بات کرتا ہے یعنی ہم سات دہائیوں سے ایک ایسے ملک میں زندگی گزار رہے ہیں جو قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان نہیں ہے اور آج بھی حکمران اسی تلاش میں ہیں کہ پاکستان کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنانا ہے۔
ایک عوام ہیں جو ان حکمرانوں کی مدح سرائی میں تن من دھن ایک کر دیتے ہیں اور اپنے محبوب قائدین سے محبت کا جذبہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ بسا اوقات آپس کے اختلافات میں بھی بدل جاتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نئے منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں ملک کی تمام جمہوری ، سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ہے اور پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانے کی بات کی ہے۔
شہباز شریف نے وزیر اعظم کا منصب عمران خان کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد سنبھالا ہے، وہ پاکستان کی ترقی کی بات کر ر ہے ہیں اورانتقامی سیاست سے گریز کے قائل ہیں البتہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا یعنی انھوں نے قانون کا سہارا لینے کا عندیہ دیا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ شہباز شریف نے کن حالات میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالی ہے اور اس میں کون کون سی پس پردہ قوتوں نے اپنا اپناکر دار ادا کیا ہے، شہبازشریف کی شہرت ایک اعلیٰ پائے کے منتظم کی ہے۔ انھوں نے پنجاب میں اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑے ہیں اوریہ بات ان کے کریڈٹ پر ہے کہ ان کے دور حکومت میں پنجاب نے ملک کے دوسرے صوبوں سے کہیں زیادہ ترقی کی ہے۔
اس وقت میرا مطمع نظر نہ تو نئے وزیر اعظم کی مدح سرائی ہے اور نہ ہی رخصت ہونے والے عمران خان کا نوحہ لکھنا ہے بلکہ ملک کو جو خطرناک صورتحال درپیش ہے اس کے بارے میں بات کرنا ہے۔ پاکستان کا قیام برصغیر کے مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کی خاطر ہوا تھا اور جو یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام پوری زندگی کا دین ہے تو بالکل درست ہے۔
پاکستان اسی دین کے ایک جدید ماڈل کے قیام کے لیے وجود میں آیا تھا اور وقت کے ساتھ اس نوزائیدہ ملک نے زندگی کی چوہتر بہاریں بھی دیکھ لیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران جیسے بھی رہے اور انھوں نے اس ملک کے ساتھ جو بھی سلوک کیا،وہ ہم سب کے سامنے ہے لیکن پاکستانی عوام نے اپنے ملک کو اپنا محبوب بنائے رکھا اور ملک میں اسلامی طرز زندگی پر استوار معاشرے کی بنیاد رکھی اور الحمد للہ یہ طرز زندگی آج ہماراطرہ امتیاز ہے۔
ایک مخصوص طبقہ فکر کی جانب سے پاکستان کو ایک سیکولر ملک میں ڈھالنے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن ہمارا معاشرتی نظام اس قدر مضبوط رہا کہ مغرب کے پروردہ اور اغیار کی یہ کوششیں ناکام رہیں۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مغرب کے پاس اس قدر طاقت ہے کہ وہ کسی بھی ملک کو برباد کر سکتا ہے، فاقہ کشی پر مجبور کر سکتا ہے۔
ان کی فوجی طاقت ختم کر سکتا ہے، زندگی کے کسی بھی شعبے کو بے اثر بنا سکتا ہے مگر وہ دلوں کے اندر پیدا ہونے والے کسی بھی جذبے کو دولت اور اسلحہ سے ختم یا مغلوب نہیں کر سکتا' یہی اس کی مجبوری ہے اور وہ ایسے ہی جذبوں سے خائف رہتا ہے اور ایسی ہر ایک کوشش کو کامیاب بنانے کی تگ و دو میں رہتا ہے جو نظام وہ تیسری دنیا کے ممالک میں نافذ کرنا چاہتا ہے۔ مغرب ہو یا امریکا اگر ان کی سپرمیسی کو کسی چیلنج کا سامنا رہا ہے تو وہ ان قوتوں سے رہا ہے جو جسم کے ساتھ بم باندھ کر آتش نمردو میں کودسکتی ہیں اور اس جرات اور جسارت کا ان طاقتور ترین ملکوں کے پاس کوئی جواب بھی نہیں ہے۔
جہاں تک امریکا بہادر کی بات ہے تو وہ پاکستان کو اپنے ایک محکوم کے طور پر دیکھنا پسند کرتا ہے اور پاکستان سے کسی ایسی جسارت کی توقع نہیں رکھتا جو اس کی توقعات کے خلاف ہو، وہ ایک بھارت کو بالادست تسلیم کرنے والا پاکستان چاہتا ہے اور ایسا کوئی حکمران امریکا کے وارے میں نہیں جو بھارتی بالادستی کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔ چین کے ساتھ دوستی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرے یا پھر روس کے ساتھ پیار و محبت کی پینگیں بڑھائے۔
پاکستان کی موجودہ نازک سیاسی صورتحال میں یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ امریکا بہادر ہم سے ناراض ہے اور اپنی اس ناراضی میں وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، وہ ہمارا حقہ پانی بند کر سکتا ہے اور اس کے لیے آئی ایم ایف کو اس کی اَبروکا ایک شارہ ہی کافی ہو گا۔ رخصت ہونے والے حکمران عمران خان نے اپنی رخصتی کا تمام تر الزام امریکا کے ایک مبینہ خط پر لگا دیا ہے ، عمران خان کا کہنا ہے اس خط میںان کی حکومت سے رخصتی کی شرط شامل ہے ورنہ دوسری صورت میں ناقابل برداشت پابندیوں کی مبینہ دھمکی کا بھی ذکر ہے۔