اے چاند یہاں نہ نکلا کر
حکومت تبدیل بھی ہوگئی تو غریبوں کے حالات خراب ہی رہیں گے
VATICAN CITY:
میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، جن کی بیٹیاں ہیں، وہ میرا درد محسوس کریں گے۔ میں اپنے شوہر ناظم جوکھیو کے قتل میں ملوث قومی اسمبلی کے رکن جان عبدالکریم اور ان کے چھوٹے بھائی جام اویس کو اللہ کے واسطہ معاف کرتی ہوں۔
شیریں جوکھیو کے سوشل میڈیا پر وائرل اور بعض ٹی وی چینلز سے نشر ہونے والے کلپ نے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران سندھ میں انصاف کی پامالی کو عیاں کردیا تھا۔ موسم سرما میں وسطی ایشیائی ممالک سے پرندے ہجرت کر کے کراچی اور ٹھٹھہ کے اطراف کے علاقوں میں جھیلوں کے کناروں اور درختوں پر قیام کرتے ہیں۔
مقامی شکاری انھیں محدود پیمانہ پر شکار کرتے ہیں۔ خلیجی ممالک کے شہزادوں کو پرندوں کے شکار میں بڑی راحت محسوس ہوتی ہے ، یوں اب یہ لوگ اس موسم میں کراچی اور ٹھٹھہ کے مضافاتی علاقوں میں خیمہ زن ہوتے ہیں۔
ان غیر ملکی باشندوں کی جدید بندوقوں کے استعمال سے ہجرت کرنے والے پرندوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے جس کے ماحولیات پر منفی اثرات برآمد ہورہے ہیں۔ ناظم جوکھیو کو اپنے گوٹھ کے اطراف کے ماحول سے پیار تھا ، وہ ان لوگوں میں شامل تھا جو اس علاقہ کے ماحولیات اور قیمتی آثارِ قدیمہ کو بچانے کی جستجو میں مصروف ہیں۔
گزشتہ سال نومبر کے آخری ہفتہ میں جب ناظم جوکھیو نے شام کے وقت دیکھا کہ کچھ غیر ملکی باشندے پرندوں کے شکار کے لیے آئے ہوئے ہیں تو ناظم نے ان لوگوں کو متنبہ کیا کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں اور ان افراد سے مکالمہ کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔
جوکھیو قبیلہ کے سردار کو ناظم جوکھیو کی یہ گستاخی پسند نہ آئی۔ ناظم کو رات گئے اوطاق پر بلایا گیا اور بیہمانہ تشدد ہوا۔ ناظم حوصلہ والا تھا ، اس نے نہ معافی مانگی نہ وڈیو ڈیلیٹ کرنے پر تیا رہوا مگر ناظم جسمانی طور پر کمزور تھا ، وہ زندگی کی بازی ہارگیا۔ سندھ پولیس نے جب روایتی جانب داری کا مظاہرہ کیا اور پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکارکیا تو اس مظلوم کا ساتھ دینے والے غریب لوگوں نے نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صوبائی وزراء نے ناظم جوکھیو کے قتل کی مذمت کی۔ وزیر اطلاعات سعید غنی نے زوردار اعلان کیا کہ سندھ کی حکومت ناظم جوکھیو کے خاندان کے ساتھ کھڑی ہے۔ پولیس نے صوبائی اسمبلی کے رکن جام اویس اور ان کے قاتلو ں کو گرفتارکرلیا۔ قومی اسمبلی کے رکن جام عبدالکریم خاموشی سے دبئی چلے گئے۔
پولیس نے مسلسل چالان پیش کرنے میں دیر کی۔ بار بار تحقیقاتی افسر I.O کو تبدیل کیا گیا۔ انسانی حقوق کمیشن اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے کارکن ہی پیشی پر موجود رہے۔ انیس ہارون، جبران ناصر، اسد اقبال بٹ اور قاضی خضر وغیرہ نہ صرف عدالتوں میں پیش ہوئے بلکہ پولیس کے متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کر کے اس بات پر بھی زور دیا کہ پولیس ملزمان کو بچانے کے لیے چالان پیش کرنے میں دیر کررہی ہے۔
ناظم جوکھیو کے قتل کی ایف آئی آر ان کے بھائی افضل جوکھیو نے درج کرائی تھی۔ جوکھیو برادری نے پہلے افضل جوکھیو پر دباؤ ڈالا کہ وہ ایف آئی آر واپس لے لیں۔ افضل جوکھیو ایک چھوٹے گریڈ کا حکومت سندھ کا ملازم ہے۔
کراچی پریس کلب میں ڈاکٹر جبار خٹک کی کوششوں سے دانشوروں اور سوشل ایکٹی وسٹ کا ایک اجتماع منعقد ہوا۔ افضل جوکھیو نے اس جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ کسی صورت ایف آئی آر واپس نہیں لیں گے مگر دسمبر میں شام جلد ہی رات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ افضل کراچی پریس کلب سے روانہ ہوئے اور پھر ان کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ ایف آئی آر واپس لے رہے ہیں مگر ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو نے واضح الفاظ میں یہ بیان دیا کہ وہ قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلوانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گی۔
وزیر اعظم عمرا ن خان کے خلاف عدم اعتما دکی تحریک پیش ہوئی۔ پیپلز پارٹی کو اپنے مفرور قومی اسمبلی کے رکن جام عبدالکریم کے ووٹ کی ضرورت پڑی۔ اخبارات میں دستیاب مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت سندھ کی اعلیٰ قیادت متحرک ہوئی۔ جوکھیو برادری کے بزرگوں کو کہا گیا کہ وہ شیریں جوکھیو کو مقدمہ سے دستبردار ہونے کے لیے مجبورکریں۔ اس غریب بیوہ پر اتنا دباؤ بڑھا کہ شیریں تنہا رہ گئی اور وہ دباؤ برداشت نہ کرسکی۔
جام عبدالکریم جب عدالت میں پیش ہوئے تو سرکاری وکیلوں نے ہار پہنائے۔ محکمہ داخلہ نے سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو ایک رقعہ تحریرکیا گیا کہ وہ ناظم جوکھیو کے مقدمہ کے تحقیقاتی افسر جس کو جوکھیو خاندان کے کہنے پر نامزد کیا گیا تھا تبدیل کیا جائے ، مگر پولیس حکام نے محکمہ داخلہ کی ہدایت ماننے سے انکارکردیا۔ پولیس حکام نے یہ بیانیہ ترتیب دیا کہ یہ ایک ہائی پروفائل مقدمہ ہے۔
اس موقع پر آئی اوکو تبدیل کرنے سے نہ صرف پولیس کے محکمہ کی ساکھ مٹی میں مل جائے گی اور پہلے ہی دہشت گردی کے مقدمات کی عدالت کے جج اس مقدمہ کے آئی او کی تبدیلی اور چالان پیش نہ کرنے پر خفگی کا اظہارکرتے رہے ہیں اور میڈیا اس مقدمہ میں خاصی دلچسپی لے رہا ہے۔ پولیس افسران اب مزید اپنی بے عزتی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ فوجداری مقدمات کے وکلاء نے محکمہ داخلہ کے سیکریٹری کی اس ہدایت کو قانون سے بالاتر قرار دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اب جب مقدمہ آخری مرحلہ میں داخل ہورہا ہے تو تحقیقاتی افسر کی تبدیلی سے مقدمہ پر اثر پڑے گا۔ وفاقی حکومت کے قائم کردہ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی رکن انیس ہارون اور سوشل ایکٹیوسٹ جبران ناصر اس مقدمہ کے مدعی بننے کے لیے تیار ہیں۔ انیس ہارون کا کہنا ہے کہ نیشنل کمیشن کے ایکٹ کی شق 79 کے تحت انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق مقدمہ میں کمیشن مدعی بن سکتا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن HRCP کے کو چیئرمین اسد اقبال بٹ ، سندھ کے نائب صدر قاضی خضر اور سعید بلوچ جو گزشتہ ایک عشرہ سے لاپتہ افراد اور پولیس کے مبینہ مقابلوں میں ہلاک ہونے والوں کی داد رسی میں مصروف ہیں ان صاحبان کا واضح مؤقف ہے کہ شیریں جوکھیو کے اس مؤقف کے باوجود ایچ آر سی پی نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے ہم رکاب ہوگا۔
پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی تو عمران خان کی ہدایت پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے آئین کو پامال کرتے ہوئے اس تحریک کو مسترد کیا جس پر حزب اختلاف ہی نہیں سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنے پورے دور میں انسانی حقوق کا احترام نہیں کیا اور مروجہ قوانین کے برخلاف فیصلے کیے ہیں، بدقسمتی سے سندھ میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ یہ صورتحال آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والے صاحبانِ علم و دانش کے لیے مایوسی کا باعث ہے۔
ان صاحبانِ علم و دانش کے لیے عمران خان کی فاشسٹ حکومت اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی اس حکمت عملی میں فرق محسوس کرنا مشکل ہورہا ہے۔ ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کی ذمے داری ہے کہ ناظم جوکھیو کے قتل میں ملوث منتخب اراکین کو مستقبل میں پارٹی ٹکٹ نہ دے اور اس مقدمہ میں حکومت مداخلت نہ کرے۔
مگر شیریں جوکھیو نے اپنے شوہر کے قاتلوں کو معاف کرنے کے بیان میں بین السطور یہ حقیقت بیان کی ہے کہ بااثر افراد کے دباؤ پر اس فیصلہ کو قبول کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے شیریں جوکھیو سے جو وعدہ کیا تھا کہ اس کے شوہر کے قاتلوں کو قرارواقعی سزا ملے گی۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ حکومت شیریں اور اس کی بچیوں کے حقوق کا تحفظ کرے گی مگر حالات ثابت کررہے ہیں کہ ایک جیسی صورتحال ہے۔ یوں یہ محسوس ہورہا ہے کہ حکومت تبدیل بھی ہوگئی تو غریبوں کے حالات خراب ہی رہیں گے۔ عوامی شاعر حبیب جالب نے ایسی ہی مایوس کن صورتحال کے لیے یہ شعر تخلیق کیے تھے:
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر