پاکستان کا استحکام اور سیاسی قیادت

عمران خان سمیت 123 ارکان قومی اسمبلی کے رکن نہیں رہے


Editorial April 15, 2022
فوٹوفائل

MILAN: وفاق میں حکومت کی تبدیلی کا آئینی عمل مکمل ہونے کے بعد نومنتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف اپنے کابینہ کی تشکیل اور چند اہم ذمے داریاں ادا کرنے میں مصروف ہیں جب کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھی عوام کو اپنے حق میں متحرک کرنے کے لیے جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں' اس سلسلے میں انھوں نے گزشتہ روز پشاور میں عوامی جلسے سے خطاب کیا۔

اسی دوران جمعرات کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی کے اجتماعی استعفے منظور کر لیے' یوں عمران خان سمیت 123 ارکان قومی اسمبلی کے رکن نہیں رہے۔

یوں جس سیاسی و معاشی استحکام کے آثار نظر آ رہے تھے' شاید وہ استحکام ابھی دور ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے پورے ملک میں مظاہروں کا بھی اعلان کر رکھا ہے، جلسوں سے خطاب کرنا اور جلوس نکالنا ہر سیاسی جماعت کا جمہوری اور آئینی حق ہے لیکن جلسوں اور جلوسوں میں تقاریر کرتے ہوئے بھی آئین و قانون اور جمہوری اقدار کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کیونکہ اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات اور ایک دوسرے پرغدار یا غیر ملکی ایجنٹ جیسے الزامات لگانے سے ملک میں کشیدگی بڑھے گی اور اس کے مظاہر دیکھنے میں بھی نظر آ رہے ہیں۔

ملک میں سیاسی محاذ آرائی کو جس طریقے سے بڑھاوا دینے کی دانستہ کوشش ہو رہی ہے' اس سلسلے کو روکا نہ گیا تو غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے مداخلت کا خطرہ زیادہ بڑھ جائے گا،اصولی طور پر تو سابق حکمران جماعت کو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے تھے کیونکہ پارلیمانی جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے۔سابق وزیراعظمکو ہٹایا بھی ایک آئینی عمل کے ذریعے ہے۔

اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔اسمبلی سے استعفے دے کر سڑکوں پر آنا سیاسی دانشمندی نہیں کہلا سکتا۔ ایسا ہی عمل بنگلہ دیش میں ہو چکا ہے لیکن یہ فیصلہ بنگلہ دیش کی اپوزیشن کے لیے تباہ کن ثابت ہوا کیونکہ حسینہ واجد کی سربراہی میں عوامی لیگ کی حکومت پہلے سے بھی مضبوط ہو گئی۔ اس کے بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے،یقیناً ملک کے باشعور سیاسی حلقے اس سے آگاہ ہیں۔

پاکستان تقریباً گزشتہ چار سال سیمعاشی تنزلی کا شکار چلا آ رہا ہے۔ امریکا 'یورپی یونین اور خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستانی حکومت کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں بلکہ دیکھا جائے تو ایک طرح سے پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوا ہے۔ سابق حکومت آئی ایم ایف سے اپنے معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ایف اے ٹی ایف کو بھی مطمئن نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان بدستور گرے لسٹ میں چلا آ رہا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو خاصا نقصان ہوا۔ ایک حوصلہ افزاء اشارہ اس وقت سامنے آیا جب نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف نے حلف اٹھایا تو پاکستان اسٹاک ایکسچینج چالیس ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حد بھی عبور کرگئی ، جب کہ ڈالر کی قدر میں بھی کمی دیکھی گئی، لیکن ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ نئی حکومت کے لیے معیشت کو درپیش چیلنجز اپنی جگہ باقی رہیں گے۔

گردشی قرضوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔ تجارتی خسارے میں کمی پر کیسے قابو پایا جائے، روپے کی گرتی ہوئی قدر کو کیسے بحال کیا جائے۔ قرضوں کو اتارنے کے لیے کیا حکمت عملی وضع کی جائے۔گزشتہ روز وزیراعظم کو بجلی کے حوالے سے جو اعدادوشمار بتائے گئے' اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں بجلی کا بحران نااہلی'لاپروائی اور خود غرضی کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کا انفرااسٹرکچر ملکی ضروریات سے زائد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن بیوروکریسی کی بے حسی' کام چوری اور عدم توجہی نے کئی پاور پلانٹس بند کر ا دیے' اس پر مستزاد سابق حکومت کے وزیرتوانائی کی بے نیازی ہے۔

عجیب بات ہے کہ کابینہ کے اجلاس ہوتے رہے لیکن بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس کی حالت بہتر بنانے اور بجلی پیدا کرنے والے اداروں کے واجبات ادا کرنے پر کوئی پالیسی اختیار نہیں کی گئی۔ سابق حکومت نے گزشتہ ماہ جو سبسڈی پیکیج دیا تھا جس کے تحت پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں کم کی گئی تھیں'اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشی اور مالیاتی بحران کے باعث کیا نئی حکومت یہ سبسڈی جاری رکھ پائے گی؟ دوسری جانب آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے ہیں۔ جب کہ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔

نئی اتحادی حکومت کو چیلنجز درپیش ان میں مہنگائیسب سے پہلا اور بڑا چیلنج ہے۔ ڈالرکسی حد تک سستا ضرور ہوا ہے لیکن یہ اب بھی روپے کے مقابلے میںبہت بلند ہے۔ ملک پر ایک سو بلین ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ پہلے ہی چڑھا ہوا ہے اور روپے کی قدر کم ہونے سے یہ قرضہ مزید بڑھے گا ۔ سفارتی محاذ پر پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔

نئی حکومت کو امریکا، چین' روس اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں بیلنس لانا ہو گا۔ بھارت کے ساتھ بھی مذاکرات کا عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان جس قسم کے بحران کا شکار ہے اس سے نکلنے کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ ادھر پاکستان میں گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا ہے۔

ایک منصوبہ بندی کے تحت اداروں اور شخصیات کی کردار کشی کی جا رہی ہے بلکہ ریاست پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے' اس زہریلے اور منفی پروپیگنڈے کے تناظر میں دو تین روز قبل پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت فارمیشنز کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، فارمیشنز کمانڈرز کانفرنس میں شرکاء کو پیشہ ورانہ امور، قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کچھ حلقوں کی جانب سے پاک فوج کو بدنام کرنے، ادارے اور معاشرے کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی حالیہ پروپیگنڈا مہم کا نوٹس لیا گیا اور واضح پیغام دیا گیا کہ فارمیشنز کمانڈرز کانفرنس پوری فوج کی آواز ہے، پوری فوج آئین اور قانون پر عمل پیرا ہے۔

ہم پروپیگنڈا مہم چلانے والوں تک پہنچ گئے ہیں، کچھ بھی ہو جائے فوج قومی سلامتی پرکبھی کمپرو مائز نہیں کرے گی۔اس انتباہ کے بعد صورت حال کچھ حد تک بہتر ہوئی ہے لیکن ابھی بھی ایک گروپ پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔ اس ساری صورت حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دیدہ دانستہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالف سوچ کو پھیلایا جا رہا ہے۔

فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور ایمو جیسے سوشل میڈیا ٹولزکا پہلا مقصد انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ہم خیال افراد کو باہمی رابطے کی بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں ایک مخصوص گروہ سوشل میڈیا کے یہ سارے ٹولز پاکستان کی قومی سلامتیکے خلاف استعمال کر رہا ہے۔مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مہم میں اندرونی گروہ ہی متحرک نظر آتے ہیں۔ ان کا قلع قمع کرنا انتہائی ضروری ہے۔

ملک کے محافظ ادارے جب سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہے ہیں'تب سے پاکستان میںایک طبقہ پس پردہ رہ کردہشت گردوںکے لیے سہولت کاری کا کام کر رہا ہے جب کہ علمی اور فکری سطح پر ان کارروائیوں کو کبھی مذہبی اورکبھی قوم پرستی کی ایسی تاویلات کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے 'جس سے دہشت گردوں کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں اور عام پڑھا لکھا شہری ریاست کو ظالم سمجھنے لگے ۔ اسی مائنڈ سیٹ کے لوگ پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلانے میں مصروف ہیں۔ادھر دہشت گرد اب بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈا میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد ہلاک جب کہ پاک فوج کے میجر سمیت دو جوان شہید ہوگئے، فورسز نے موثر کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا ، ہلاک ہونیوالے دہشت گرد فورسزکے خلاف کارروائیوں میں ملوث تھے۔

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد سے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیس پر بیشتر حملوں کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ اگرچہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین کا استعمال کوئی نئی بات نہیں لیکن اب افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوناناقابل برداشت ہے۔

ایسے حالات میں سیاسی قیادت کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ ملک میں زہریلی سوچ اور فکر کو پروان نہ چڑھائے ' عوام میں مختلف قسم کے تعصبات کو ابھارنا اور انھیں اشتعال دلانا کسی صورت اس ملک اور اس ملک کے عوام کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔