فاؤل پلے

ہر کھیل کے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں جن پر عمل کرکے ہی کھیل کو دل چسپ اور نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے


MJ Gohar April 15, 2022
[email protected]

ہر کھیل کے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں جن پر عمل کرکے ہی کھیل کو دل چسپ اور نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے۔ ہر کھیل کا کھلاڑی اس بات سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے کہ اگر اس نے کھیل کا کوئی اصول یا قانون توڑا تو '' فاؤل پلے'' کے جرم میں اسے منفی نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ اسی طرح ہر شعبہ ہائے زندگی کے بھی کچھ اصول اور قاعدے قانون ہوتے ہیں جن پر عمل کرکے لوگ کامیابی کی منازل طے کرتے ہیں۔

سیاست سے لے کر صحافت تک اور عدالت سے لے کر حکومت تک ہر شعبے میں قسمت آزمانے کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔ ہر شخص اپنی لیاقت، صلاحیت، قابلیت اور دانش کے مطابق کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتا ہے۔

شرط صرف یہی ہے کہ وہ ہر شعبہ کے اصول، قاعدے اور قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل کرے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے کھیل سے لے کر سماجی خدمت اور سیاست تک تینوں شعبوں میں قسمت آزمائی۔ سب سے زیادہ کامیابی انھیں کرکٹ کے کھیل میں ملی۔ عزت، دولت اور شہرت ان کے گھر کی باندی بنی رہی۔ 1992 میں کرکٹ ورلڈ کپ ان کی سب سے بڑی فتح تھی جس نے انھیں شہرت دوام بخشی۔ پھر انھوں نے سماجی خدمت کے شعبے میں قدم رکھا۔ کینسر کے مرض میں مبتلا والدہ کے انتقال نے ان پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

انھوں نے اپنی مرحوم والدہ شوکت خانم کے نام پر کینسر اسپتال کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا اور کرکٹ کی شہرت کو استعمال کرتے ہوئے اندرون اور بیرون ملک فنڈ ریزنگ سے کروڑوں روپے جمع کرکے کینسر اسپتال کی تعمیر کا خواب پورا کردیا۔ ان دونوں شعبوں میں عمران خان نے کوئی ''فاؤل پلے'' نہیں کیا بلکہ اسپورٹ اسپرٹ کا مظاہرہ کیا۔کرکٹ ورلڈ کپ کی فتح اور کینسر اسپتال کی تکمیل نے ان کے حوصلے بلند کردیے۔

وہ اپنی کرشماتی اور سحر انگیز شخصیت کے باعث ملک کے نوجوانوں، بچوں، خواتین اور عام لوگوں میں مقبولیت اور شہرت حاصل کرتے چلے گئے۔ بعدازاں انھوں نے میدان سیاست میں قدم رکھا۔

ان کا خواب تھا کہ وہ ملک کو ایک انصاف پسند ریاست بنائیں گے جہاں امیر و غریب کے لیے ایک قانون ہوگا، احتساب کا شفاف نظام قائم کیا جائے گا، جہاں طاقتور اور مظلوم ایک کٹہرے میں کھڑے ہوں گے، جہاں آئین و قانون کی حکمرانی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے تحریک انصاف پاکستان کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی۔ دو عشروں سے زائد عرصے تک وہ سیاسی جدوجہد کرتے رہے۔

پاکستان کی سیاست کے موجودہ تقریباً سب ہی کرداروں پر عمران خان نہ صرف کھل کر تنقید کرتے رہے بلکہ ان سے اپنی نفرت، بے زاری اور ناپسندیدگی کا برملا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کا موقف رہا ہے کہ آج کا پاکستان جن گمبھیر مسائل، مشکلات، مصائب، آلام اور پریشانیوں و بحرانوں میں گھرا ہوا ہے اس کی ذمے دار ملک کی موجودہ سیاسی قیادت ہے جنھیں ایک سے زائد مرتبہ اقتدار میں آنے کے مواقع ملے اس کے باوجود وہ بجائے ملک کو گرداب سے نکالتے الٹا نئے بھنور، سنگین چیلنجز اور پریشانیوں میں مبتلا کرتے چلے گئے۔

عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی، غریب آدمی غریب تر اور امیر آدمی امیر تر ہو گیا، انصاف، تعلیم اور قانون کا نظام تباہ و برباد ہو گیا۔ عمران خان نے ''تبدیلی'' کا دل فریب نعرہ لگا کر عوام کو سنہرے خواب دکھاتے ہوئے اپنے آپ کو ملک کے ''نجات دہندہ'' کے طور پر پیش کیا۔ اوائل سیاست میں عمران خان کو میدان سیاست میں خاطرخواہ کامیابی نہ ملی انھیں اپنی سیٹ جیتنا بھی کارمحال تھا، تاہم انھوں نے ہمت نہ ہاری، منزل کے حصول کے لیے سیاسی سفر جاری رکھا۔ انھیں پہلی بڑی کامیابی 2013 کے انتخابات میں خیبرپختونخوا میں ملی۔

لوگوں نے ان پر اعتماد کیا اور کے پی کے کے روایتی سیاسی لوگوں کو نظرانداز کردیا۔ وقت گزرتا رہا اور عمران خان کا سیاسی سفر آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی نے خاصی اصلاحات کیں۔

عوامی فلاح و بہبود کے کام کرکے لوگوں کا اعتماد حاصل کرلیا۔ ادھر عمران خان مرکز میں میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف بھرپور مہم چلاتے رہے کہ اسی اثنا میں پانامہ لیکس کا دھماکہ ہوا۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر (ن) لیگ کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔

عمران خان کے کرپشن کے خلاف اور ملک کی موجودہ سیاسی قیادت کی بدعنوانیوں کے خلاف بیانیے کو تقویت ملی۔ نتیجتاً عمران خان کی لوگوں میں پذیرائی اور مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور پھر انھوں نے عوام کو سبز باغ دکھانے شروع کردیے۔

ملک کے عوام جو بار بار کے آزمائے ہوئے روایتی و خاندانی سیاست دانوں کے طرز حکمرانی سے نالاں اور شکوہ طراز تھے انھیں عمران خان کی صورت میں ملک و قوم کے لیے ایک ''نجات دہندہ'' نظر آیا لہٰذا ملک کے کروڑوں عوام نے ''تبدیلی'' کے نعرے کے جواب میں انھیں 2018 کے انتخابات میں اقتدار کے ایوانوں میں بڑی امیدوں اور توقعات کے ساتھ پہنچا دیا لیکن ان کے ساڑھے تین سالہ دور میں ملک کے عوام سے لے کر معیشت تک سیاست سے لے کر دستور تک ہر شعبے میں ''فاؤل پلے'' کی سیاست نے انھیں سخت نقصان پہنچایا۔

احتساب کا بیانیہ دم توڑ گیا۔ معیشت زبوں حالی کا شکار، قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگیا، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت نے عوام کا جینا محال کر دیا جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتوں نے اٹھایا۔ ان کے خلاف 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ بعدازاں عمران خان نے اسلام آباد میں ایک بڑا جلسہ کرکے اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا اور ایک خط لہراتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کے خلاف بیرونی سازش کی گئی ہے۔

اپوزیشن اس سازش کا حصہ ہے جو بیرونی مدد سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے میری حکومت کو گرانا چاہتے ہیں۔ تاہم ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کردیا۔

بس پھر کیا تھا کہ ایک بھونچال آگیا۔ منصف اعلیٰ پاکستان نے ازخود نوٹس لے لیا، ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کو پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر غیر آئینی قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے اسمبلیاں بحال کردیں اور 9 اپریل کو صبح 10:30 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم صادر فرمادیا۔ مقررہ وقت پر اجلاس تو شروع ہو گیا، اسپیکر اسد قیصر نے یقین دہانی کرائی کہ وہ عدالتی حکم پر ہر صورت تعمیل کریں گے لیکن بار بار اجلاس ملتوی ہوتا رہا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کرائی گئی۔ اپوزیشن بار بار ووٹنگ کا مطالبہ کرتی رہی لیکن وقت گزرتا رہا۔ رات کے دس بج گئے، اسپیکر اسد قیصر قومی اسمبلی اور وزیر اعظم ہاؤس کے درمیان پنڈولم بنے رہے۔ میڈیا میں عجیب و غریب خبریں چلتی رہیں، اعصاب شکن ماحول نے جنم لے لیا۔

رات گیارہ بجے کے بعد صورتحال مزید سنگین اور نازک ہوگئی۔ سیکیورٹی ادارے حرکت میں آگئے۔ سپریم کورٹ رات 11 بجے کھول دی گئی۔ آئین کے آرٹیکل 6 لگانے کی تیاری کی جانے لگی۔ تاہم ''مداخلت کاروں'' نے اپنا روایتی کردار ادا کیا اور عمران خان کو مزید ''سرپرائز'' دینے سے روک دیا۔ اسپیکر اسد قیصر مستعفی ہوگئے۔

ایاز صادق نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی اور عمران خان 174 ووٹوں سے شکست کھا کر بنی گالا چلے گئے اور شہباز شریف ملک کے نئے وزیر اعظم بن گئے۔ پھر عمران خان سیاست کے کھیل میں شکست کیوں کھا گئے؟ استعفیٰ دے کر باوقار طریقے سے رخصت کیوں نہ ہوئے۔ اس ضمن میں بحث کی بڑی گنجائش ہے۔ کس نے کب کہاں ''فاؤل پلے'' کیا، جواب تلاش کرنا پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔