ہمارا سچ صرف یہ ہی ہے

خدارا اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اٹھو اپنی آزادی اور اپنی خوشحالی اپنی ترقی کے لیے اٹھو


Aftab Ahmed Khanzada April 15, 2022
[email protected]

اپنی موت سے کچھ عرصہ پیشتر کافکا نے اپنے گہر ے دوست میکس براڈ کو پنسل سے ایک خط لکھا جو اس کی موت کے بعد اسے ملا۔ وہ لکھتا ہے '' عزیزم میکس ! میری تم سے آخری استدعا ہے کہ میری الماریوں میں ، میر ے کمروں میں ، دفتر میں یا جہاں بھی میری کوئی تحریر ، روزنامچوں ، مسودوں ، خطوط یا کسی بھی اور صورت میں تمہیں ملے ، چاہے وہ مکمل ہو یا ادھوری ، چاہے وہ تمہارے پاس ہو یا دوسروں سے تمہیں حاصل ہو ، اسے بغیر پڑھے جلا دو ، جو لوگ میرے خطوط واپس کرنے سے انکار کریں ان سے انھیں جلد از جلد لینے کا وعدہ لو۔

تمہارا فرانز

میکس براڈ نے دنیائے ادب کو اپنا زیر بار احسان کرتے ہوئے نہایت احترام کے ساتھ اپنے دوست کی آخری خواہش کو پورا نہیں کیا اور اسے کسی بھی صورت میں کافکا کی جو تحریر ملی وہ اس نے چھپوا دی۔ کافکا نزع کے عالم میں تھا ، اس کا دوست کلو پسٹک کسی غرض سے اٹھ کر ایک طرف جانے لگا تو کافکا نے کہا '' مجھے چھوڑ کر مت جاؤ'' دوست نے جواب دیا '' میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جا رہا '' کافکا نے گہری آواز میں کہا '' لیکن میں تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں'' یہ کافکا کے آخری الفاظ تھے۔

آئیں ! کافکا کی لکھی ایک کہانی پڑھتے ہیں۔ '' ایک گدھ اپنی چونچ سے میرے پیروں سے گوشت نوچ رہا تھا۔ اس نے میرے جوتوں کو چیر پھاڑ دیا اور جرابوں کو کھسوٹ لیا تھا اور اب میرے پیروں کا گوشت نوچ رہا تھا۔ بار بار وہ پیروں پر چونچ مارتا بے چینی سے بار بار میرے گرد چکر کاٹتا اور پھر واپس اپنے کام میں جت جاتا۔ ایک معزز شخص میرے قریب سے گذرا کچھ دیر یہ منظر دیکھا ، پھر مجھ سے پوچھا کہ میں کیوں اس گدھ کو برداشت کررہا تھا۔ میں بے بس ہوں ، میں نے کہا جب یہ آیا اور مجھ پر حملہ کرنے لگا تو میں نے واقعی اسے پرے دھکیلنے کی کو شش کی تھی۔

اس کا گلا گھونٹنے کی بھی کوشش کی تھی لیکن یہ بہت طاقتور جانور ہوتے ہیں ، یہ میرے چہرے پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا ، لیکن میں نے اپنے پیروں کی قربانی دینے کو ترجیح دی اب تو قریب قریب یہ کٹ پھٹ ہی گئے۔'' حیرت ہے تم گدھ کی زیادتی برداشت کر رہے ہو'' معزز شخص نے کہا '' ایک گولی اور یہ گدھ ختم ہوجائے گا'' ، ''کیا واقعی'' میں نے حیرت سے پوچھا ''کیا تم ایسا کروگے '' بخوشی معزز شخص بولا '' مجھے گھر تک جانا ہوگا تاکہ اپنی بندوق لے آؤں ،کیا تم آدھا گھنٹہ انتظار کرسکتے ہو'' ''میں اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔'' میں نے کہا اور کچھ دیر درد سے کراہتا رہا پھر بولا '' براہ کرم پھر بھی جلدی آنے کی کوشش کرنا''۔ ''بہت اچھا'' معزز شخص بولا ''ممکنہ حد تک جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔'' گفتگو کے دوران میں گدھ نہایت اطمینان سے سن رہا تھا، نظریں میرے اور معزز شخص کے درمیان پھراتے ہوئے اب مجھے احساس ہوا کہ وہ ہر بات سمجھ گیا تھا۔

اس نے اپنے پر پھیلائے طاقت حاصل کرنے کے لیے گردن پیچھے گرائی اور پھر نیزہ پھینکنے والے کی طرح اپنی چونچ میرے منہ میں گھسیڑ دی میرے بہت اندر تک۔ پھر اس نے گردن پیچھے کھینچی تو اسے میرے خون میں غرق محسوس کرکے مجھے دلی طمانیت ہوئی جو ہر گہرائی میں گررہا ہر ساحل کو بھگو رہا تھا۔'' یہ کافکا کی لکھی ہوئی کہانی ''گدھ '' ہے اسے پڑھتے ہی یکایک ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی ہی نہیں ہے بلکہ ایک پورا سچ ہے ہمارا اپنا سچ ۔ جو 22 کروڑ پاکستانی ایک ساتھ یک زبان بیان کر رہے ہیں ، فرق صرف اتنا سا ہے کہ کافکا کی اس کہانی میں ایک گدھ ہے جب کہ پاکستانیوں کی کہانی میں ہزاروں گدھ ہیں جو ایک ساتھ مل کر پاکستانیوں کا گوشت نوچ نوچ رہے ہیں بس ان گدھوں نے نقاب کوئی اور پہن رکھے ہیں کسی نے نقاب جاگیر دارکا پہن رکھا ہے۔ کسی نے سرمایہ دار کا، کسی نے کرپٹ سیاست دان کا، کسی نے بزنس مین کا تو کسی نے مذہب کا۔ شوپہنار کہتا ہے انسان کی بد ترین خاصیت دوسروں کی تکالیف سے مزا لینا ہے۔ ظلم و زیادتی کی آج پاکستان سب سے زیادہ وحشت زدہ تصویر ہے جسے دیکھ کر انسان دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔

یاد رہے اپنی ذات کا درد کسی دور دراز کے ملک کے اس قحط سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے ، جو لاکھوں افراد کی موت کا باعث ہوتا ہے۔ اپنی گردن کا پھوڑا افریقہ کے چالیس زلزلوں سے زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے ، لیکن نہ نجانے کیوں ہمیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے، رحم نہیں آتا ہے۔ کیا ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوگئی ہے جو ہم ہر ظلم و زیادتی پر خاموش ہیں کیوں تمام ذلتوں کو چپ چاپ سہہ رہے ہیں۔

ہماری حیثیت فقط ان غلاموں کی سی ہوگئی ہے ، جو ذرا سی روگردانی کریں تو ہماری پیٹھ پر کوڑے برسنے لگتے ہیں ہم روز گل سٹر رہے ہیں۔ روز قتل کیے جاتے ہیں اور پھر روز زندہ کیے جاتے ہیں۔دوسری طرف اس بات پر زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ سارے عذابوں کے سامنے چپ چاپ کیوں ہیں ، وہ اپنے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہونے دے رہے ہیں ، اینڈی وار ھول کہتا ہے '' وہ کہتے ہیں کہ وقت چیزوں کو بدل دیتا ہے لیکن اصل میں آپ کو انھیں خود بدلنا پڑتا ہے۔''

شیزو فرینیا ایک شدید نوعیت کا ذہنی مرض ہے جس کی کئی علامتیں ہیں جن میں حقیقت کا احساس نہ رہنا بے ہنگم طرز عمل ، غیر منظم انداز میں سو چنا ، جذبات کے اظہار سے معذوری شامل ہیں۔ شیزو فرینیا کی اصطلاح یونانی الفاظ سے مشتق ہے جس کا مطلب بٹا ہوا ذہن بنتا ہے ، ایک مرتبہ یہ بیماری لاحق ہوجائے تو باقی ساری زندگی اس کے اثر میں رہتی ہے۔

اس بیماری میں مبتلا شخص حقیقی اور غیر حقیقی تجربات منطقی اور غیر منطقی سوچوں یا موزوں اور غیر موزوں رویے میں تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم سب یعنی 22 کروڑ لوگ شیزو فرینیا کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اسی لیے ہم ہر ظلم و زیادتی و ناانصافی کے خلاف چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ ہماری سمجھنے بوجھنے کی تمام صلاحیتیں اس بیماری کی وجہ سے ناکارہ ہوچکی ہیں ، ورنہ ہم ان تمام گدھوں کو جو ہمارا گوشت نو چ رہے ہیں مار نہ بھگاتے۔ اٹھ کھڑے نہ ہوتے خدارا اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اٹھو اپنی آزادی اور اپنی خوشحالی اپنی ترقی کے لیے اٹھو اپنے ساتھ ہونے والے تمام عذابوں کو ختم کرنے کے لیے اٹھو ظالموں ، لٹیروں، قاتلوں کو مار بھگاؤ لیکن اگر تم میں اٹھنے کی ہمت نہیں ہے تو پھر اپنے ساتھ یہ سب کچھ ہونے دو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں