جنوبی ایشیا میں کامرس کی تعلیم کا پہلا ادارہ
یونیورسٹی کے کردار کو بدنما کرنے کے لیے وقفہ وقفہ سے اس پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں
ہیلے کالج جنوبی ایشیا میں کامرس کی تعلیم کا پہلا ادارہ تھا جس کا قیام 1927ء میں عمل میں آیا ا س کالج سے فارغ التحصیل ہونیوالوں نے پیشہ ورانہ زندگی کے تمام شعبوں میں نام کمایا ان میں سابق بھارتی وزیر اعظم آئی کے گجرال، مشیر خارجہ، سرتاج عزیز، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، سابق گورنر پنجاب میاں اظہر، سابق وفاقی وزیر جہانگیر بدر اور سابق چئرمین ایف بی آر عبداللہ یوسف بھی شامل ہیں۔ لیکن پھر یہاں کامرس کی تدریس میں زوال شروع ہو جاتا ہے۔ 2002ء میں بی کام کے دو سالہ پروگرام کے بعد انٹرن شپ کا سلسلہ ختم کر دیا جاتا ہے جس سے بی کام کی حیثیت پروفیشنل کی بجائے عام تعلیم کی سی رہ جاتی ہے۔ ٹیوشن کلچر کو فروغ دینے اور ذاتی مفادات کے لیے بی کام کو پرائیویٹائز کر دیا گیا۔ ایک نظر ادارہ کی فیکلٹی پر ڈالی جائے تو تو ادارے میں مستقل اساتذہ کی 21 آسامیاں ہیں جو دوستوں اور عزیزوں کو نوازنے کے لیے خالی رکھی گئی ہیں۔
11 اساتذہ کنٹریکٹ پر ہیں لیکن ان کی تقرری کسی اشتہار، ٹیسٹ اور انٹرویو کے بغیر عمل میں آئی ہیں اسی طرح 30 وزٹنگ لیکچررز کے یے بھی کوئی باضابطہ طریقۂ کار اختیار نہیں کیا گیا۔ کالج میں تین طرح کے الگ الگ بی کام سے بھی ابہام جنم لیتا ہے ان میں ایک بی کام (آئی ٹی)، کا دو سالہ پروگرام سالانہ امتحانات کے تحت ہوتا ہے، دوسرا بی کام (آنرز) سمسٹر امتحانات کے تحت چار سالہ پروگرام ہے تیسرا ٹرم سسٹم امتحانات کے تحت چار سالہ بی ایس کامرس پروگرام ہے۔ اسی طرح ایم کام کی بھی تین الگ ڈگریاں ہیں۔ سالانہ امتحان کے نظام کے تحت ایم کام دو سالہ پروگرام، بی کام (آنرز) کے بعد سمسٹر سسٹم کے تحت ایم کام کا ڈیڑھ سالہ پروگرام جو ایم فل کے مساوی ہے اس کی منظوری ایچ ای سی نے دی ہے تاہم اگر کوئی ڈیپارٹمنٹ اسے تسلیم نہ کرے تو ایچ ای سی اس ڈگری کو سپورٹ نہیں کرے گا (یہ بات ایچ ای سی کے نوٹیفکیشن میں لکھی گئی ہے) حتیٰ کہ ہیلے کالج آف کامرس میں بھی تقرری کے لیے اسے کوئی وزن نہیں دیا گیا۔ دوسری جانب طالب علموں نے اپنی پریشانیوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ڈگریوں کی حیثیت مشکوک ہونے کے باعث بینکوں نے بھی ان کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ملک بھر میں سرکاری و نجی جامعات دو سالہ سمسٹر سسٹم کے تحت ایم کام کی ڈگری دیتی ہیں لیکن ہیلے کالج یونیورسٹی آف پنجاب میں اس کے تین شیڈز ہیں اس صورتحال میں طلبہ اسے چھوڑ رہے ہیں جہاں پہلے کچھ کلاسوں کے چار سکیشن ہوتے تھے اب وہاں تین رہ گئے ہیں جہاں تین تھے وہاں دو اور جہاں دو تھے وہاں صرف ایک سیکشن بچا ہے۔
کالج ذرایع کے مطابق پانچ سال سے یہاں کوئی سیکشن بورڈ نہیں بنا۔ لیکچررز کے لیے دو اشتہار تین سال اور بعض کے چار سال قبل دیے گئے لیکن سلیکشن بورڈ کہیں نہیں ہے۔ اسسٹنٹ پروفیسر کی چار آسامیاں دس سال سے خالی پڑیں ہیں۔ سلیکشن کے عمل کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اسی طرح فل پروفیسر کی دو آسامیاں گزشتہ پانچ سال سے خالی ہیں، جس کا اشتہار دیا گیا لیکن سلیکشن بورڈ ہی نہیں ہے۔ جب کہ کالج میں انگلش کا کوئی مستقل ٹیچر نہیں۔ یہ درسگاہ پندرہ سال سے پاکستان اسٹڈیز اور تیس سال سے اسلامک اسٹڈیز کے مستقل ٹیچر کی منتظر ہے۔ ذرایع نے الزام عائد کیا ہے کہ سربراہ ادارہ نے حکومت کے اسکالر شپ پر پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد گزشتہ دس سال سے انھوں نے ایک بھی کلاس نہیں پڑھائی۔ گزشتہ پانچ سال میں اپنے طور پر ایک بھی ریسرچ آرٹیکل نہیں لکھا، تین سالوں میں کسی ایک کلاس کا وزٹ نہیں کیا جب کہ پرنسپل ہیلے کالج آ ف کامرس کے علاوہ وہ ڈین فیکلٹی آف کامرس، پرنسپل لاء کالج (قائم مقام)، ڈین فیکلٹی آف لاء (قائم مقام)، ڈین فیکلٹی آف فارمیسی (قائم مقام)، ڈین فیکلٹی آف اورئنٹل لنگویجز پنجاب یونیورسٹی، ممبر سنڈیکیٹ پنجاب یونیورسٹی، ممبر بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ ، ممبر ڈاکٹوریل پروگرام کوآرڈینیشن کمیٹی پنجاب یونیورسٹی، چیئرمین ایڈمشن کمیٹی پنجاب یونیورسٹی، چیئرمین ڈسپلنری کمیٹی، وارڈن ہاسٹل نمبر 19، ڈپٹی چیئرمین ہال کونسل پنجاب یونیورسٹی، کنٹرولر امتحانات پنجاب یونیورسٹی بھی ہیں اس مد میں تمام تر لوازمات کے علاوہ چار ٹویوٹا ہائی ایس اور ایک ہنڈا سٹی کار بھی رکھتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کا شمار ملک کی صف اول کی جامعات میں ہوتا ہے۔ یہاں علم و تحقیق کے جو دروازے گزشتہ چند سالوں سے علم کی پیاس بجھانے والوں کے لیے کھولے گئے ہیں ان کے بل بوتے پر یونیورسٹی نے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کی سربراہی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہے اور آج یونیورسٹی میں علم و تحقیق کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ یہاں یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے کہ موجودہ وائس چانسلر نے کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر جامعہ کو ملک و قوم کی ترقی کا گہوارہ بنایا ہے۔ جہاں ہر معاملے میں صرف اور صرف میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ چاہے وہ داخلوں کا مسئلہ ہو، اساتذہ اور دیگر ملازمین کی بھرتی کا معاملہ ہو یا ان کی ترقی کا مرحلہ ہو ہر موقعہ پر میرٹ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
تاہم یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ یونیورسٹی کے کردار کو بدنما کرنے کے لیے وقفہ وقفہ سے اس پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں جن کے جواب کے طور پر وائس چانسلر نے مضبوط موقف بھی اختیار کیا ہے اور ڈٹ کر ان ان بے بنیاد الزامات کا مقابلہ بھی کیا ہے۔ اسی نوعیت کے چند ایک الزامات ہیلے کالج آف کامرس کے سربراہ پر بھی عائد کیے گئے ہیں۔ تاہم ہماری دعا ہے کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہو۔ لیکن بالفرض محال اگر یہ درست ثابت ہوئے تو وائس چانسلر کی محنت پر پانی پھر جائے گا۔ اس سلسلے میں یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ وائس چانسلر ان معاملات کو جو انتہائی احتیاط سے پیش کیے جا رہے ہیں سنجیدگی سے جائزہ لیں گے اور ہیلے کالج کے سربراہ کو یونیورسٹی کے میرٹ کا پابند بنانے کی تلقین کریں گے۔ یا پھر ان کی ایک سے زائد ذمے داریوں کو کوالیفائیڈ دیگر اساتذہ میں تقسیم کریں گے ۔