ادب ادب ہوتا ہے اُسے خانوں میں تقسیم کرنا دُرست نہیں سعدیہ عزیز آفریدی

کسی نقطۂ نظر کے بغیر لکھنا ایک بے معنی عمل ہے، جب تک دل سے آواز نہیں آئے قلم نہیں اٹھاتی


Alif Khay February 27, 2014
کہانی کار، سعدیہ عزیز آفریدی کے حالات و خیالات ۔ فوٹو : فائل

کہانی کی طرف وہ اتفاقیہ آئیں۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے نہ جانے کیا سوجھی کہ قلم تھام لیا۔ خیالات الفاظ کے قالب میں ڈھلتے گئے۔ افسانے کے خدوخال ابھرنے لگے۔ اپنی تخلیق ایک پرچے کو روانہ کر دی۔ وہ چَھپی، تو مزید لکھنے کا حوصلہ ملا۔

سعدیہ عزیز آفریدی آئیں تو کہانی کی جانب اتفاقیہ، مگر جب ایک بار لکھنے لگیں، تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ابتدائی تین کہانیوں کی اشاعت کے بعد معاوضہ ملنے لگا۔ یوں بہ طور کمرشل رائٹر اُن کے کیریر کا آغاز ہوا۔ بعد میں خواتین کے کئی مقبول پرچوں میں ان کی کہانیاں شایع ہوئیں، اور تواتر سے شایع ہوئیں۔ جلد شناخت بنا لی۔ بعد میں افسانے ''ایک چراغ روشن ہے'' اور ''عشق کی عمر رائیگاں'' کے زیر عنوان کتابی صورت میں شایع ہوئے۔ ناول ''یہ دل یہ سودائی'' اُن کی پہچان بنا، جو کتابی صورت میں آنے سے قبل ایک ڈائجسٹ میں قسط وار چھپ چکا تھا۔

سعدیہ کراچی میں مقیم ایک نیم متوسط گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ بھراپُرا خاندان تھا۔ سات بہنوں، چھے بھائیوں میں وہ چوتھی ہیں۔ اُن کے والد، عبدالعزیز کشن میکنگ کا کام کرتے تھے۔ مطالعے کا شوق بچپن ہی سے ساتھ ہے۔ اوائل میں ابن صفی اور اشتیاق احمد کے ناول پڑھے۔ بعد میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے گرویدہ بنا لیا۔ دھیرے دھیرے وہ کہانیاں گھڑ کر بہن بھائیوں کو سُنانے لگیں۔ اس عمل سے خوب لطف اندوز ہوتیں۔ گڈے گڑیا سے کھیلنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ بھائیوں کے ساتھ وہ کرکٹ کھیلا کرتیں۔ شرارتیں بھی خوب کیں۔ ڈانٹ بھی پڑتی۔ میٹرک میں تھیں کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ اِس سانحے کے بعد خاندان معاشی مسائل میں گِھر گیا۔ تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں۔ بعد میں پرائیویٹ انٹر کیا۔



93ء میں اُنھوں نے پہلا افسانہ لکھا، جو خواتین کے ایک مقبول پرچے میں چھپا۔ وہ ایک خوش گوار لمحہ تھا۔ ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتی ہیں،''اُس زمانے میں طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ ہوا کرتی تھی، تو وقت کاٹنے کے لیے لکھنا شروع کیا۔ الفاظ خود بہ خود افسانے کے سانچے میں ڈھل گئے۔ وہ چھپ گیا، تو بہت حوصلہ ملا۔''

اب باقاعدگی سے لکھنے لگیں۔ معاوضہ بھی ملنے لگا۔ کراچی سے نکلنے والے خواتین کے تمام پرچوں میں لکھا۔ پھر ''یہ دل یہ سودائی'' کے زیر عنوان قسط وار ناول لکھا، جس کی بہت پزیرائی ہوئی۔ آج کل توجہ ڈراما نگاری پر مرکوز ہے۔ چند پراجیکٹس پر کام بھی کر رہی ہیں۔

اُن کے فکشن کا بنیادی موضوع جذبۂ محبت ہے۔ کہتی ہیں،''میرے ہاں محبت کا مطلب فقط رومان نہیں، بلکہ وہ جذبہ ہے، جو معاشرے کے مختلف طبقات کو باہم جوڑتا ہے۔ انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے۔ میری کہانیاں، میرے کردار اسی جذبے کے گرد گھومتے ہیں۔'' تسلیم کرتی ہیں کہ اِس موضوع پر پہلے بھی خاصا لکھا جاچکا ہے، مگر یقین رکھتی ہیں کہ ہر لکھاری کے اپنے احساسات، اپنا انداز بیاں ہوتا ہے، جو اُس کی تحریر کو اوروں سے جدا کرتا ہے۔ خوش ہیں کہ اُن کے انداز بیاں کو قارئین نے پسند کیا۔



سعدیہ کے نزدیک مطالعے کا گھٹتا رجحان ڈائجسٹوں پر بھی اثر انداز ہوا ہے، پرچوں کی سرکولیشن میں واضح کمی آئی ہے، مگر اِس خیال سے متفق نہیں کہ ڈائجسٹ پڑھنے کا چلن آیندہ چند برس میں دم توڑ دے گا۔ اُن کے مطابق کوئی رجحان یک دم ختم نہیں ہوتا۔ ''خالصتاً ادبی کتب پڑھنے کا رجحان آج بھی موجود ہے، ایسے میں ڈائجسٹوں کے خاتمے کی پیش گوئی درست معلوم نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں ابھی ڈائجسٹ کافی عرصے باقی رہیں گے۔''

اُن کے مطابق ادب کی دیگر اصناف کی طرف ڈائجسٹ رائٹنگ میں بھی معیار میں کمی آئی ہے۔ لکھاری اپنے اندر کی آواز کے بجائے کُلی توجہ اس بات پر مرکوز رکھتا ہے کہ قارئین کیا چاہتے ہیں۔ اِس رجحان سے خود کو ہم آہنگ کرنا انھیں دشوار معلوم ہوتا ہے کہ لکھنا اُن کے نزدیک شعوری عمل نہیں۔ ''خود سے بیٹھ کر نہیں لکھا جاتا، جب خیال وارد ہوتا ہے، تب ہی لکھتی ہوں۔ پچھلے سال صرف تین کہانیاں لکھیں۔ یعنی یہ ایک کیفیت ہے۔ جب تک دل سے آواز نہیں آئے، میں قلم نہیں اٹھاتی۔ چاہے کوئی کتنے ہی معاوضہ دے۔''

لکھنا ان کے نزدیک ایک جذباتی عمل ہے۔ اپنے بہت سے کرداروں سے جذباتی وابستگی ہے۔ ناول ''یہ دل یہ سودائی'' کے شہریار کو انھوں نے ڈوب کر لکھا۔ بہ قول اُن کے،''آج بھی جب میں وہ ناول پڑھتی ہوں، تو جذبات سے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔''



لکھتے وقت معاشرے کی بھلائی اُن کے پیش نظر ہوتی ہے۔ ''میں معاشرے کو سامنے رکھ کر لکھتی ہوں۔ ایک زاویے سے میں اپنے اور معاشرے، دونوں کے لیے لکھتی ہوں۔ میرا نظریہ ہے کم لکھو، مگر اچھا لکھو!'' خیال ضرور وارد ہوتا ہے، مگر ندرت پیدا کرنے کے لیے جدید تشبیہات، نئی لفظیات برتتی ہیں۔ ''لوگوںکے دلوں میں دقیانوسی خیالات کا بسیراہے، اور وہ ان چیزوں سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ ماضی سے جڑا رہنا اور چیز ہے، مگر دقیانوسی خیالات کو سینے سے لگائے رکھنا مناسب نہیں۔ میں نیا لکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ نئے پیرائے میں، نئے خیالات کے ساتھ کہانی بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔'' سعدیہ صاحبہ آزادی کے ساتھ خیالات قلم بند کرتی ہیں، اِس راہ میں مشکلات آئیں، تو اُن کا سامنا کرتی ہیں۔ ہاں، اس بات کا ضرور خیال رکھتی ہیں کہ ان کی تحریر کا کسی کی شخصیت پر منفی اثر نہ پڑے۔ باریکی بینی سے جائزہ لیتی ہیں کہ ان کی تحریر سے کیا خیال اخذ کیا جائے گا۔

نقطۂ نظر کی اہمیت کی قائل ہیں۔ ان کے مطابق ہر لکھاری کا ایک نقطۂ نظر، معاشرے کو دیکھنے اور پرکھنے کا ایک زاویہ ہوتا ہے، جس کے بغیر لکھنا بے معنی عمل ہے۔ ''ادیب اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے۔ اختلاف اپنی جگہ مگر ادیب اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کا استحقاق رکھتا ہے۔''

ڈائجسٹ ادب اور ادب عالیہ کی تفریق زیر بحث آئی، تو کہنے لگیں،''ادب، ادب ہوتا ہے۔ ادب کو خانوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، جو درست نہیں۔ یہ فیصلہ صادر کرنا کہ یہ ادب عالیہ ہے، اور یہ کم تر درجے کا ادب، منفی رویہ ہے۔ اب جسے ادب عالیہ کہا جاتا ہے، اس کا بڑا حصہ فقط شیلف تک محدود ہے۔ اس کے قاری نہیں۔ ادب وہ ہونا چاہیے، جو عام آدمی کے مطالعے میں رہے۔ وہ اُسے اپنی زندگی کا حصہ تصور کرے۔ اگر آپ بہت مشکل زبان لکھیں گے، خیال گنجلک ہوگا، تو عام لوگ اسے پڑھنے سے قاصر رہیں گے۔''



سعدیہ صاحبہ کے مطابق ہر تخلیق کار، اپنی تخلیق کو اعلیٰ شے تصور کرتا ہے۔ ''اگر ہم اس کی تخلیق نہیں پڑھ رہے، اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بے قیمت ہے۔ کہانی میں دل چسپی شرط ہے۔ قاری شروع کرے، تو آخر تک جائے۔ آخر تک دل چسپی برقرار رہے۔'' اُن کے مطابق ڈائجسٹوں میں بھی شہرت کی بنیاد پر زمرے بن گئے ہیں۔ معاوضہ الگ الگ ہے۔ کسی کو ایک قسط کے پندرہ بیس ہزار روپے مل جاتے ہیں، کسی کو ایک ہزار روپے بھی نہیں ملتے۔

تسلیم کرتی ہیں کہ اب قارئین بھی تقسیم ہوگئے ہیں، اور اِس بات کا اُنھیں دُکھ ہے۔ ''ہاں، ڈائجسٹ اور ادب عالیہ کے قارئین الگ ہیں۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ اب جسے ادب عالیہ کہا جاتا ہے، وہ کم لکھا جارہا ہے، ڈائجسٹ کے قارئین زیادہ ہیں۔ لوگ وہ ہی تحریر پڑھتے ہیں، جو ان کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس نقطۂ نگاہ سے آپ ڈائجسٹ ادب کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔''

اُن کے نزدیک ادب معاشرے کا آئینہ دار بھی ہونا چاہیے، اور اصلاح کار بھی۔ ''کہانی میں یہ دونوں عناصر ہونے چاہییں۔ معاشرے کی اصلاح اِس طرح ہونی چاہیے کہ انداز ناصحانہ نہ ہو۔ مصنف اپنے کرداروں کے ذریعے اپنی بات کہے۔''

کمرشل رائٹنگ کا میدان، اُن کے نزدیک اتنا آسان نہیں۔ ابتدا میں اُنھیں خاصی مشکلات پیش آئیں۔ معاوضے کے مسائل تھے۔ دھیرے دھیرے حالات میں سدھار آیا۔ تسلیم کرتی ہیں کہ آج بھی نئے لکھاریوں کو قلیل معاوضہ ملتا ہے، جب کہ پاپولر رائٹر کو ایک کہانی سے اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ انھیں کوئی اورکام کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ''کم سے کم اتنا معاوضہ تو دیں، جس سے لکھاری اپنی چھوٹی موٹی ضروریات پوری کرسکے۔ اسے محسوس ہو کہ اسے محنت کا صلہ مل رہا ہے۔ اب ڈائجسٹ والے کہتے ہیں کہ رائٹر کو ہم بناتے ہیں ۔ پرچہ رائٹر کی وجہ سے نہیں بکتا۔ رائٹر کا موقف الگ ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہمارے مرد لکھاریوں کو خواتین سے زیادہ پیسے ملتے ہیں۔ ''

انداز ان کا افسانوی ہے، روایتی کہانی کے میدان میں خود کو مطمئن نہیں پاتیں۔ یہ انداز کمرشل رائٹنگ کی راہ میں رکاوٹ بھی بنتا ہے۔ ایک افسانے کا خصوصی طور پر تذکرہ کرتی ہیں۔ مرکزی کردار ایک افسردہ لڑکی تھی، جو ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوجاتی ہے۔ تحریر ان کے دل کے بے حد قریب تھی، مگر اسے ایڈیٹر کے اصرار پر تبدیل کرنا پڑا۔ بعد میں ایک قاری کا فون آیا، جس نے کہا کہ اُس نے سانس روک کر افسانہ پڑھا کہ وہ من و عن یہی زندگی گزار رہی ہے۔

بانو قدسیہ، اشفاق احمد، ممتاز مفتی اور مظہر الاسلام کی وہ مداح ہیں۔ غزالہ اورک زئی اور نگہت سیما کا کام کمرشل رائٹنگ کے میدان میں پسند ہے۔ شاعری میں وہ امجد اسلام امجد کی مداح ہیں۔ گذشتہ بیس بائیس برس سے لکھ رہی ہیں، مگر یہ عمل باورچی خانے سے دور نہیں کر سکا۔ باقاعدگی سے کوکنگ کرتی ہیں۔ ان کے پکائے ہوئے قورمے کی بہت تعریف ہوتی ہے۔ پرانے ڈرامے پسند ہیں۔ اخبارات باقاعدگی سے نہیں پڑھتیں۔ لکھنے کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد قلم لے کر بیٹھتی ہیں۔ بنیادی خیال یا پیغام ذہن میں ہوتا ہے۔ اسی کے گرد خیالات بُنتی ہیں۔ شہرت کا موضوع زیر بحث آیا، تو کہنے لگیں،''اچھا لکھ کر شہرت نہ ملنا بہتر ہے، بہ بجائے اس کے کہ آپ برا لکھ کر شہرت حاصل کرلیں۔ اچھے برے کا تعین وقت اور پڑھنے والے کرتے ہیں۔ میں اپنے کام سے مطمئن ہوں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔