نوشتہ دیوار

اپنی کوتاہیوں، لغزشوں اور خطاؤں کا احساس آدمی کے اندر تواضح اور اتحاد و انکساری کا جذبہ پیدا کرتا ہے


MJ Gohar April 17, 2022
[email protected]

لوگ عموماً دوسروں کی خامیوں، کمزوریوں، غلطیوں، اور عیبوں کی تلاش کے ماہر ہوتے ہیں انھیں دوسروں کی آنکھ میں بال تو نظر آجاتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔

اگر آدمی اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو دل کی آنکھ سے دیکھ اور جان لے تو اس کو معلوم ہو کہ وہ بھی اسی بشری مقام پر ہے جہاں وہ دوسرے کو کھڑا ہوا پاتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں، لغزشوں اور خطاؤں کا احساس آدمی کے اندر تواضح اور اتحاد و انکساری کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ صرف دوسروں کی خامیوں، کمزوریوں اور غلطیوں پر نظر رکھے تو اس کے اندر تکبر، غرور اور گھمنڈ پیدا ہوگا اور کسی کے ساتھ بھی نباہ کرنا اس کے لیے مشکل اور ناممکن ہو جائے گا، وہ اپنے متکبرانہ خول سے باہر نکلنا پسند نہیں کرے گا۔

نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی ایک آدمی میں ساری خصوصیات جمع نہیں ہوتیں۔ کسی میں کوئی ایک خصوصیت ہوتی ہے تو کسی میں کوئی دوسری خصوصیت۔ جس شخص میں کوئی خاص خصوصیت ہوتی ہے تو اس کے اندر اسی نسبت سے کچھ اور خصوصیات بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو اسی خاص خصوصیت کا ضمنی نتیجہ ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص اگر بہادر ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر شدت پیدا ہوگی۔ ایک شخص اگر شریف النفس ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر نرمی، حلم اور گداز پیدا ہوگا۔ ایک شخص اگر بہت زیادہ حساس ہے تو اسی حوالے سے اس کے اندر اشتعال اور غصہ پیدا ہوگا۔ ایک شخص بہت ذہین ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر تنقیدی مادہ ہوگا اور اگر کوئی شخص عملی طور پر زیادہ باصلاحیت ہے تو لامحالہ اس کے اندر فکری استعداد کم ہوگی۔

ایسی صورت حال میں صرف ایک بات قابل عمل ہے کہ ہم جس شخص کے روشن پہلو سے مستفید ہونا چاہتے ہوں تو اس کے تاریک پہلو کو نظرانداز کردیں یہی وہ واحد تدبیر ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم کسی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کارآمد بنا سکتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم پھول لینا چاہتے ہیں تو ہم کو کانٹے بھی برداشت کرنا ہوں گے اور جس کے اندر کانٹے کی چبھن برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو تو اس دنیا میں پھول کا مالک بننا بھی اس کا مقدر نہیں ہو سکتا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تنہا آدمی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑا کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مطلوبہ کام کی پشت پر کئی آدمیوں کی ہنرمندی اور صلاحیتیں موجود ہوں۔ کئی آدمیوں کا مل کر کسی مقصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کے افراد میں صبر اور وسعت ظرف کا مادہ موجزن ہو، وہ ایک دوسرے کو برداشت کریں، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے ساتھ نہ الجھیں اور وہ خوش گوار باتوں کو یاد رکھنے کے بجائے ناخوش گوار باتوں کو بھلانے کی کوشش کریں۔ بجا کہ معیار پسندی اچھی چیز ہے مگر جب معیار کا حصول ممکن نہ ہو تو حقیقت پسندی سب سے بہترین طریق عمل ہوتا ہے۔

مولانا وحید الدین خان کی کتاب راز حیات سے منقول مذکور اقتباس کی روشنی میں آپ ہمارے ملک کے اہل سیاست سے اہل قیادت تک قومی زندگی کے نمایاں شعبوں سے منسلک کرداروں کے روز و شب کے اعمال پر نظر ڈالیں تو یہ تلخ حقیقت منظر عام پر آتی ہے کہ ہر ایک فرد دوسرے کی خامیوں کی تلاش اور انھیں طشت ازبام کرنے کے خبط میں مبتلا ہے ،اسے اپنی ناک کے نیچے دیکھنے کی فرصت نہیں اور نہ ہی وہ اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔

وہ لوگ کہ جنھیں اس ملک کی قیادت کرنے اور باگ ڈور سنبھالنے کی ذمے داریاں نبھانی ہیں، جنھیں نوجوان نسل کی تربیت کرنی ہے کہ وہ آگے چل کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت و تعمیری کردار ادا کرسکیں، جنھیں اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے، جنھیں ملکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے، جنھیں ملک کے 22 کروڑ عوام کی خدمت کرنی ہے اور وہ کہ جن کا دعویٰ ہے کہ ہم ملک کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فلسفہ سیاست و نظریہ اور اصولوں کے مطابق اور ان کے خوابوں کی تعبیر بنائیں گے، ان کے اپنے کردار کیا ہیں؟ ان کے اپنے قول و قرار کیا ہیں؟ نظریے اور فلسفے کی سیاست کے کتنے امین ہیں؟ سیاسی، ذاتی، جماعتی اور انفرادی مفادات انھیں کتنے عزیز ہیں؟

ملک و قوم کے مفادات ان کی ترجیحات میں کون سے درجے پر ہیں؟ اس ملک و قوم کی خاطر وہ قربانی دینے کا کتنا جذبہ رکھتے ہیں؟ اپنی پالیسیوں، فیصلوں، اقدامات اور احکامات میں ملک و قوم کا مفاد کتنا عزیز رکھتے ہیں اور ذاتی، انفرادی، سیاسی جماعتی اور ادارے کا مفاد و تقدس کتنا عزیز رکھتے ہیں؟ ہم اپنی قومی سیاسی زندگی کے 70 سالہ سفر پر نظر ڈالیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ماسوائے قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے سیاسی زندگی کے باقی سب ہی کرداروں کے دامن اجلے اور شفاف نہیں ہیں۔ وہ قائد کے فکر و فلسفے اور سیاسی اصولوں و نظریات کے معتقد نہیں ہیں اور نہ ہی جمہوری اقدار و روایات کی پاسداری کے حوالے سے ان کے نامہ اعمال میں کوئی روشن مثال موجود ہے۔

کچھ ایسا ہی تکلیف دہ منظر ہمیں میزان عدل میں بھی نظر آتا ہے جہاں نظریہ ضرورت کے اوزان سے تاریخ عدل کو زیر و زبر کردیا جاتا رہا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ فیصلے بولتے ہیں، فیصلے دینے والے نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں اظہار رائے کی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سب بولتے ہیں بقول فیض احمد فیض ''بول کہ لب آزاد ہیں تیرے'' تاریخ کی کتاب میں کچھ ابواب غیر سیاسی کرداروں نے بھی رقم کیے ہیں۔ شب خوں کی داستانوں سے سقوط بنگال کے دل خراش سانحے تک ایک کے بعد ایک ''قصہ چہار درویش'' قوم کو سننا پڑا ہے۔ اب شنید و نوید یہ ہے کہ بگل بج گیا ہے کہ کوئے سیاست میں شبِ خوں کا خون کر دیا گیا ہے۔ بقول شاعر:

وہ کوئی اور تھا شب خون مارنے والا

ہمیں نہ مارو کہ ہم بے ضرر فرشتے ہیں

جی! یہاں سب بے ضرر فرشتے ہیں۔ سب کے دامن اجلے اور شفاف ہیں، پارسائی کے دعویدار ہیں، سب کو اپنے اقوال تو زریں نظر آتے ہیں لیکن دوسرے کے قول سیاہ! کیوں؟

دیکھا جائے تو ہر شخص اور ادارہ قول و عمل کے تضادات کا شکار نظر آتا ہے۔ دوسروں کو نصیحتیں کرنے والے اپنے رویوں اور قول و عمل پر نظر نہیں ڈالتے۔ برداشت، تحمل، صبر اور افہام و تفہیم سے ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ تنقید کرنے میں تو یدطولیٰ لیکن برداشت کا ظرف عالی نہیں رکھتے۔ اپنے موقف کے حق میں بودی دلیلیں، پھر وضاحتیں پیش کرنے میں یکتا و یگانہ۔ آپ پچھلے ایک دوماہ کے دوران حکومت سے لے کر اپوزیشن تک سب کے ''تاریخ ساز'' کرداروں، اقوال اور اعمال پھر وقفے وقفے سے وضاحتوں کے انبار پھر ان میں رقصاں قباحتوں کی کارفرمائیاں دیکھ لیجیے۔ کسی سے کچھ پوچھنے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں، سب نوشتہ دیوار ہے بس دل بینا سے دیکھنے کا حوصلہ چاہیے۔ بقول شاعر:

ان سے امید نہ رکھ، ہیں یہ سیاست والے

یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔