قرآن فہمی
عامل کامل لوگ تو قرآن کا نام لے کر طرح طرح کی دکانداریاں کرتے ہیں
ہسٹریانامی بیماری کاذکرتوہم کرچکے ہیں جو ایک بیماری اور عامل و جعلی پیر حضرات اسے جنات قراردے کر خوب کماتے ہیں بلکہ بعض اوقات مریض کو بری طرح تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور کئی بار اموات بھی ہوجاتی ہیں۔
ہسٹریا کے مریض کو دیکھ کر اگر کوئی عقل مند جنات کے ہونے نہ ہونے کاسوال اٹھاتاہے تو عامل و جعلی پیر بابے فوراًجواب دیتے ہیں کہ جنات کاذکر تو قرآن میں بھی ہے ،ظاہرہے کہ قرآن کا نام سنتے ہیں لوگ خاموش ہوجاتے ہیں۔ قرآن میں جنات کے ذکر پر بعد میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے ، ابھی قرآن عظیم الشان کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتاہوں ،یہ عامل کامل لوگ تو قرآن کا نام لے کر طرح طرح کی دکانداریاں کرتے ہیں، اشتہار بازی کرتے ہیں، دیواروں پر لکھواتے ہیں، اوپرلکھاجاتاہے کہ کون کہتا ہے کہ کلام میں اثر نہیں ہوتا اورپھر نیچے مالدارہونے سے لے کر لڑکے اورلڑکیوں کو رام کرنے ،مقدمات جیتنے اورنہ جانے کیاکیاکچھ بیان کرتے ہیں،انسان پڑھ کرحیران ہوجاتاہے اورمیرے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کتنے دیدہ دلیر لوگ ہیں،اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب کا نام لے کر اتنے گھناونے اورناجائز دھندے کرتے ہیں، ان کو ذرابھی شرم نہیں آتی۔
قرآن عظیم الشان کے بارے میں تو پہلی بات یہ واضح کردوں کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے اس ''تعلیمی اور ہدایت کے نصاف'' کاآخری تھیسس ہے جو آپ پر وحی کی صورت میں نازل کیا گیا۔ حضرت آدم کو بھی نبی بنایا گیا، یوں اﷲ کا نظام و نصاب روز اول سے شروع ہواتھا، زمانے گزرنے کے ساتھ ساتھ جتنا جتنا انسان ذہنی استعداد یاجسمانی استطاعت حاصل کرتاگیا، ویسے ویسے الہی نظام انبیاء کرام پر نازل ہوتا رہا۔
قرآن کانزول ''اقراء''سے ہوایعنی پڑھ۔ حالانکہ جس پاک ہستی کے پر اسے نازل کیاگیا، وہ امی تھے۔ پھر رب تعالی کی طرف سے ''پڑھ'' کیوں کہاگیا؟اس لیے کہ اس پڑھ کا مطلب پوری بنی نوع انسان کویہ تعلیم دینا تھی کیوں کہ اس وقت انبیاء پر اتاری گئی کتاب اور ان کی تعلیم اور نصابوں میں تحریف ہوچکی تھی ، بہت سے انسانی گروہ شرک میں مبتلا ہوچکے تھے، انسانیت خاندانی، قبیلوی اورنسلی گروہ میں تقیسم ہوچکی تھی اورجو گروہ پڑھ لکھے تھے، وہ یا تو الہامی کتب میں تحریف کرچکے تھا اور کچھ حق کی تلاش میں سرگرداں تھے،ضمناً یہ بھی عرض کروں کہ نبی پاک کا ظہور ایسے زمانے میں ہوا، نسل انسانی خاصی پھیل چکی تھی، کئی تہذیبیں عروج پا کر ناپید ہوچکی اور ایک دو موجود تھیں، پڑھ لکھت موجود تھی، نسلی انسانیت کا باہم رابطہ ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہوچکا تھا، ظاہر ایسے زمانے میں بے مثل اور انمول شخصیت کو بلایا جانا تھا اوراس عظیم الشان شخصیت کے بعد نہ کسی نے آنا ہے اور نہ پڑھانا ہے۔
اب تھوڑی سی بات ''قرآن فہمی'' کی بھی ہوجائے ،بہت سے لوگ اسے پڑھتے بھی ہیں ،پڑھاتے بھی ہیں ،اپنی کمائی کاذریعہ بھی بنائے ہوئے ہیں لیکن ''قرآن فہمی'' ایک بالکل ہی الگ چیز ہے اوراس کے لیے خدائے ذوالجلال نے جو شرط رکھی ہے، وہ بڑی سخت ہے اوراسے پوراکرنا ہرکسی کے بس کاکام نہیں ۔ فرمایاہے:
ترجمہ۔''کسی ناپاک کے لیے اسے چھونا بھی ممکن نہیں''۔
ظاہرہے کہ یہاں مراد جسمانی طورپر ''چھونا'' نہیں ہے، وہ ہم دیکھتے ہیں کہ کفار بھی اسے پڑھتے ہیں، اسے چھاپتے ہیں ،تجارت کرتے ہیں۔ ''مطہر'' ہونا ایک اورلحاظ یعنی اندرون اورباطن سے ہے ،لفظ ''مطہر'' کی بنیاد ''طہرہ'' ہے، مطہرصرف پاک ہی نہیں بلکہ اتنا پاک کہ دوسرے بھی اس کی صحبت سے پاک ہوجائیں۔اوراس ''مطہر'' کامطلب ہے، اس کے معانی ومفاہیم تک پہنچنا،سمندر سے گوہر آبدار صرف اچھے خواص ہی نکال سکتے ہیں، یہاں وہاں کے نام تیراگوں کے ساتھ ہیں یا تو سیپاں آئیں گی اوریاجھاگ،ایک بارپھر عرض کردوں اوریہ بڑی اہم بات کہ جب تک ظاہروباطن مکمل طورمطہر یعنی صاف وشفاف نہ ہو ،قرآن ان پر اپنے معانی کبھی نہیں کھولتا، چاہے ہزار بار پڑھتے اوررٹتے رہیں۔