پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی افسوسناک

اس سارے ہنگامے، گالم گلوچ اور مارکٹائی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس ایوان میں ہوا


Editorial April 18, 2022
اس سارے ہنگامے، گالم گلوچ اور مارکٹائی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس ایوان میں ہوا۔ فوٹو: ٹوئٹر

پنجاب اسمبلی میں ہفتے کوجو کچھ ہوا، اس پر پاکستان کے ہر مکتبہ فکر نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے ہونے والے اجلاس میں ہنگامہ آرائی، مارپیٹ اور گالم گلوچ کے مناظر پاکستان کے عوام ہی نے نہیں بلکہ دنیا بھر میں خواص و عام نے ٹی وی اسکرین پر دیکھے ہیں۔

اس ہنگامہ آرائی میں اسپیکر پنجاب اسمبلی اور وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی زخمی ہوئے جب کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری جو اس وقت ایوان میں اسپیکر کے فرائض ادا کررہے تھے۔

ان پر پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ارکان اسمبلی نے تشدد کیا ، سیکیورٹی کا عملہ انھیں بچا کر لے گیا تاہم انھوں نے اس سارے ہنگامے اور مارا ماری کے دوران وزیراعلیٰ کے انتخاب کا آئینی عمل مکمل کرا دیا۔ ڈپٹی اسپیکر کے جاری کردہ نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیں جب کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز شریف پنجاب کے21 ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے باضابطہ آغاز سے قبل ہی ایوان میں پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کے ارکان اسمبلی نے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی تھی ، جواباً دوسری جانب سے بھی نعرے بازی کی گئی۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت ساڑھے گیارہ بجے کے بجائے ایک گھنٹہ 10منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تو ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری ایوان میں آئے، انھیں آتا دیکھ کر پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کے ارکان نے ان کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی اور ان پر پلاسٹک کے لوٹے پھینکنے شروع کردیے۔

یہ صورتحال دیکھ کر اسمبلی سیکیورٹی نے ڈپٹی اسپیکر کے گرد حفاظتی حصار قائم کر لیا اور انھیں پلاسٹک کے لوٹوں سے بچایا لیکن ان پر لوٹے پھینکنے کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر ڈپٹی اسپیکر کے قریب پہنچنے والے ارکان نے انھیں دبوچ لیا، انھیں تھپڑ اور لوٹے مارے اور انھیں بالوں سے پکڑ کر کھینچنے کی کوشش کی۔ سیکیورٹی اسٹاف اور پولیس اہلکار ڈپٹی اسپیکر کو بمشکل بچا کر ان کے چیمبر میں لے گئے۔

میڈیا کے مطابق واقعہ کے بعد آئی جی پنجاب راؤ سردار پنجاب اسمبلی پہنچے اور وہاں پہلے سے موجود چیف سیکریٹری پنجاب کامران علی افضل، کمشنر لاہور ڈویژن کیپٹن (ر) محمد عثمان سے صورتحال کے حوالے سے میٹنگ کی۔ اسی دوران ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے ایوان کی صورتحال اور ماحول خراب کرنے والے ارکان کے خلاف کارروائی کے لیے چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کو خط لکھ دیا ۔

اخبار کی خبروں کے مطابق انھوں نے مشاورت کے بعد اینٹی رائٹ فورس کے دستے طلب کر لیے جو ایوان میں داخل ہو گئے، پولیس آپریشن کے دوران پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کے ارکان نے مزاحمت کی جس کی وجہ سے ایوان میں گھمسان کا رن پڑ گیا۔ اس موقع پر لاتوں،گھونسوں، مکوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا جب کہ مبینہ طور پر مہمانوںکی گیلری میںموجودکچھ لوگ بھی نیچے کودگئے۔

پنجاب اسمبلی کی یونیفارم میں سیکیورٹی اہلکاروں نے بھی ارکان اسمبلی سے نہ صرف ہاتھا پائی کی بلکہ ان پر تشدد بھی کیا۔ پولیس نے چار ارکان اسمبلی کوحراست میں لے لیا ۔ ہنگامہ آرائی کے دوران چوہدری پرویز الٰہی بھی زخمی ہوگئے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے کہا مجھ پر حملہ کرا کر جان سے مارنے کی کوشش کی گئی، میرا بازو ٹوٹ گیا ہے اور سینے پر بھی چوٹیں آئی ہیں تاہم ہنگامہ آرائی کے دوران ہی چوہدری پرویز الٰہی کو ایوان سے باہر نکال لیا گیا اور ان کو طبی امداد فراہم کی گئی ۔

تقریباً پانچ گھنٹے کے طویل وقفے کے بعد ڈپٹی اسپیکر دوبارہ ایوان میں آئے لیکن پی ٹی آئی ارکان نے اسپیکر ڈائس کا قبضہ ختم نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے ڈپٹی اسپیکر نے ملحقہ آفیشل گیلری میں کھڑے ہو کر میگا فون کے ذریعے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس دوران ڈپٹی اسپیکرکو سیکیورٹی اہلکاروںنے اپنے حصار میں لیے رکھا۔ ڈپٹی اسپیکر پانچ منٹ کے لیے گھنٹیاں بجانے کا حکم دے کر دوبارہ اپنے چیمبر میں چلے گئے اور پانچ منٹ بعد دوبارہ واپس آکر اسی جگہ سے اجلاس کی کارروائی شروع کی اور ایوان کے تمام دروازے بند کرانے کا اعلان کیا۔

اس دوران پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ارکان بائیکاٹ کر کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔ ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پرویز الٰہی نے کوئی ووٹ حاصل نہیںکیا جب کہ حمزہ شہباز نے197ووٹ حاصل کیے ہیں۔ حمزہ شہبازکو پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین، علیم خان اور اسد کھوکھر گروپوںنے بھی ووٹ دیا۔

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایوان سے مخاطب ہوکر کہا کہ آج جمہوریت کی کامیابی ہوئی ہے، ایوان میں جو حالات تھے، سیکیورٹی کے بغیر انتخاب کرانا ناممکن تھا، میں پنجاب پولیس کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اجلاس کرانے میں مدد کی، اسمبلی اسٹاف کا شفاف انتخابات کرانے پر شکر گزار ہوں۔ وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ایوان سے خطاب کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے جس طرح اپنا فرض بہادری سے ادا کیا، میں اس معزز ایوان کے توسط سے آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

ادھر چوہدری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ میں پیچھے سیٹ پر بیٹھا تھا لیکن ن لیگ کے لوگوں نے وہاں پر آ کر مجھ پر تشدد کیا ، انھوں نے الزام عائد کیا کہ حمزہ شہباز نے پلاننگ کے تحت مجھ پرحملہ کرایا ۔ چوہدری پرویزالٰہی نے اسمبلی ایوان میں ان پر کیے گئے تشدد پر درخواست تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں دیدی ۔

ادھر میڈیا کی اطلاع کے مطابق ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری پر پنجاب اسمبلی میں ہونے والے حملے اور تشدد کا مقدمہ بھی تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں درج کرلیا گیا ہے۔ مقدمہ اقدام قتل اور دیگردفعات کے تحت درج کیا گیا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ حملے کے ذمے داروں کا تعین سی سی ٹی وی فوٹیج سے کیا جائے۔ چند ارکان اسمبلی اور نامعلوم افراد نے ڈپٹی اسپیکر کو زد و کوب کیا۔

ادھر چوہدری پرویز الٰہی نے تھانے میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ وزیراعلیٰ کے الیکشن کے دوران سول کپڑوں میں پولیس ملازمین ایوان میں داخل ہوئے، پولیس ملازمین نے ایوان کا تقدس پامال کرتے ہوئے خواتین ارکان کو دھکے مارے، حمزہ شہباز نے اپنے ایم پی ایز کو حکم دیا کہ پرویز الٰہی کو جان سے مار دو۔ آئی جی پنجاب کے حکم پر2سے تین سو مسلح ڈنڈا بردار پولیس اہلکار ایوان میں داخل ہو گئے۔

پولیس ملازمین نے داخل ہوتے ہی ہمارے ایم پی ایز کو جان سے مارنے کی نیت سے حملہ کر دیا۔ حمزہ شہباز کے حکم پر پولیس سے ڈنڈے لے کر رانا مشہود نے مجھ پر وار کیا۔ رانا مشہود کے وار سے میرا دایاں بازو ٹوٹ گیا۔ جہانگیر خانزادہ نے وار کیا جو ایم پی اے عامر کو ہاتھ پر لگا۔ پولیس کے مطابق درخواست موصول ہوگئی ہے، درخواست پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

اس سارے ہنگامے، گالم گلوچ اور مارکٹائی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس ایوان میں ہوا جہاں بیٹھ کر عوام کے منتخب نمایندے قانون سازی کرتے ہیں اور عوام کے ان منتخب نمایندوں نے ہی آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائیں، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے ادارے کو بے توقیر کیا،جمہوری اقدار اور اخلاقیات کو رسوا کیا، عوام کے منتخب نمایندے ہونے کے دعویداروں نے کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے ووٹرز کو دکھ پہنچایا اور انھیں مایوس کیا ہے۔

کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ وہ ارکان اسمبلی جو دن رات اپنے استحقاق کی دہائی دیتے ہیں، عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں،اپنی گاڑیوں پر ایم پی اے اور منسٹر لکھواتے ہیں، وہ تھانوں میں پہنچ کر ایک دوسرے کے خلاف پولیس کو درخواستیں جمع کرا رہے ہیں۔ ایک سادہ سے آئینی و جمہوری عمل کو اس طرح روکنا اور باہم دست وگریباں ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے سیاستدان اور ارکان اسمبلی جمہوری اخلاقیات سے کوسوں دور ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں