شہباز شریف کو صبر اوروفا شعاری کا صلہ ملا ہے
نواز شریف کو اپنے برادرِ خورد، شہباز شریف، پر ہمیشہ یقینِ کامل رہا ہے کہ شہباز شریف کبھی اُنہیں دغا نہیں دیں گے
ISLAMABD:
دن گنے جاتے تھے'' اِس دن'' کے لیے ۔ اور 11اپریل2022 کو آخر کار وہ دن آ ہی پہنچا ۔ جناب میاں محمد شہباز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستان کے 22کروڑ عوام کے وزیر اعظم بن گئے۔
پاکستان کے23ویں منتخب وزیر اعظم۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ شہباز شریف کو یہ عہدہ بلند اس لیے بھی ملا ہے کہ اُنہوں نے نون لیگ، اپنے بڑے بھائی و قائد محمد نواز شریف، اپنے خاندان اور ہمہ مقتدرین سے وفاداری اور کمٹمنٹ نبھائی ہے ۔
ہر مقام اور ہر امتحان میں اپنے اعصاب و زبان پر قابو رکھا اور صبر سے کام لیا ہے۔اُنہوں نے بطورِ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی اعلیٰ اور تاریخ ساز کارکردگی سے اپنا نقش اور سکّہ جمایا ۔ خود کو ایک بہترین منتظم ثابت کیا۔ایک انتھک ایڈمنسٹریٹر۔ اُن کی قابلِ فخر خدمات کے کئی نشان پورے پنجاب میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب ہونے کے دوران بھی وزیر اعظم بننے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ اُنہیں مبینہ طور پر اس حوالے سے بھی کئی بار آفرز کی گئیں لیکن وہ اپنے قائد اور بڑے بھائی کی محبت اور احترام میں قدم آگے بڑھانے سے ہمیشہ گریز کرتے رہے۔ اب شہباز شریف صاحب وزیر اعظم منتخب ہُوئے ہیں تو کئی اطراف سے یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے ''سائے''سے باہر نکل آئے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک انگریزی ویب اخبار کے تجزیہ نگار نے اگلے روز اپنے تفصیلی آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ''شہباز شریف اپنے بڑے بھائی ، نواز شریف، کے سائے میں 30سال گزارنے کے بعد آخر کار اب باہر نکل آئے ہیں ۔'' ممکن ہے یہ بات کسی قدر درست ہی ہو لیکن دونوں بھائیوں کی باہمی محبت اور یکساں باہمی احترام کو ''سائے'' سے معنون کرنا زیادتی ہے ۔
جناب شہباز شریف نے وزیر اعظم پاکستان بن کر اُن برخود سیاسی پنڈتوں اور پیش گوئیاں کرنے والوں کو بھی نادم کیا ہے جو یہ گردان کیا کرتے تھے کہ ''نون سے شین نکلے گی۔'' مطلب یہ تھا کہ نون لیگ ٹوٹے گی اور اس کے بطن سے شہباز شریف کی الگ پارٹی نکلے گی ۔
ایسی سب خواہشیں اور پیش گوئیاں باطل ثابت ہُوئی ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ نون لیگ کو پچھلے چند برسوں کے دوران جتنے بھی بحرانوں اور بھنوروں نے اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کی، یہ بحران اور بھنور نون لیگ ، نواز شریف، شہباز شریف ، مریم نواز شریف اور شریف فیملی کے لیے مزید مضبوطی ، استحکام اور اتحاد کا باعث بنے ہیں ۔
البتہ جناب عمران خان کے، شہباز شریف کے حوالے سے، خدشات درست ہی ثابت ہُوئے ہیں۔ خان صاحب نے ہمیشہ شہباز شریف کو اپنا مضبوط حریف اور مقابل سمجھا۔ عمران خان کو وزیر اعظم ہونے کے باوصف کامل یقین تھا کہ رواں سیاسی حالات میں کوئی شخص اگر اُن کی جگہ سنبھال سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف شہباز شریف ہو سکتے ہیں ۔
اِسی ڈر اور خدشے کے پس منظر میں عمران خان نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران شہباز شریف کو بار بار جیل میں ڈالا۔ مقصد یہ تھا کہ شہباز شریف کے اعصاب توڑ ڈالے جائیں اور وہ آگے بڑھنے سے تائب ہو جائیں۔ خان صاحب کی یہ تمام کوششیں مگر اکارت چلی گئیں اور آخر وہی ہُوا جس کے خدشات سے عمران خان خائف تھے۔ شہباز شریف پرواز کرتے ہُوئے وزارتِ عظمیٰ کے محل میں جا پہنچے ؛ چنانچہ خان صاحب کا درد قابلِ فہم ہے۔
اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد خان صاحب نے پشاور اور کراچی میں جو جلسے کیے ہیں، ان میں بھی اِس درد اور محرومی کا اظہار ہُوا ہے اور یہ بھی کہ نئے وزیر اعظم ہمیشہ اُن کی آنکھ میں خارِ مغیلاں کی طرح کھٹک رہے تھے ۔
یہ مگر واقعہ ہے کہ جناب میاں محمد شہباز شریف کو پہلے بھی کئی بار وزیر اعظم ''بننے'' کی آفرز ہُوئیں مگر اُنہوں نے پارٹی اور اپنے بڑے بھائی و قائد کی محبت اور وفا میں ان مبینہ پیشکشوں کو قبول نہیں کیا تھا۔شہباز شریف صاحب نے ہمیشہ اداروں کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھا ہے۔اس کے فائدے بھی ہُوئے ہیں ۔ کئی بار ناراضیوں اور رنجشوں کے باوصف یہ شہباز شریف ہی تھے۔
جنھوں نے اداروں اور نواز شریف کے درمیان صلح کروائی اور کئی معاملات ''سیدھے'' کروا دیے۔ اِس مستحسن کردار نے طاقتوروں کے دل میں بھی شہباز شریف کے لیے نرم گوشہ پیدا کیے رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ 90ء کے عشرے میں جب نواز شریف اور صدر غلام اسحق خان کے درمیان سخت رنجشیں در آئی تھیں، غلام اسحق خان صاحب (مرحوم) نے شہباز شریف کو اسلام آباد بلایا تھا اور اُنہیں وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی تھی ۔ شہباز شریف نے مگر یہ پیشکش قبول نہ کی۔وہ اپنے برادرِ اکبر کی چھتر چھاؤں تلے سے نکلنے پر مائل نہیں تھے۔
وطنِ عزیز کے ایک اخبار نویس اور اینکر نے چند سال قبل ایک غیر ملکی اخبار میں آرٹیکل لکھتے ہُوئے انکشاف کیا:''اقتدار پر قبضہ کرنے سے تقریباً9ماہ قبل آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ایک ملاقات کے دوران شہباز شریف کی ذہانت کی بے حد تعریف کی تھی اور مجھے کھلے الفاظ میں کہا تھا کہ شہباز شریف کو لاہور سے اسلام آباد منتقل ہوجانا چاہیے تاکہ پاکستان کے وزیر خارجہ کا قلمدان سنبھال سکیں ''۔
مذکورہ اخبار نویس مزید لکھتے ہیں:'' جب یہ بات مَیں نے شہباز شریف کو بتائی تو وہ انکساری سے مسکرائے اور کہا: شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ بعض جرمن سفارتکاروں کے نزدیک مَیں بڑی اچھی جرمن زبان بول سکتا ہُوں اور بعض عرب سفارتکار یہ کہتے ہیں کہ مجھے عربی زبان پر مہارت حاصل ہے ''۔ شہباز شریف نے بہرحال جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں بھی ، کئی مواقعے ملنے کے باوجود، کوئی اہم عہدہ لینے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔
کارگل کی جنگ نے پاکستانی سیاست و اقتدار کو تلپٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ کارگل کی جنگ ہی تھی جس نے وزیر اعظم نواز شریف اورجنرل پرویز مشرف کے درمیان شکررنجیاں پیدا کر دی تھیں۔
کارگل جنگ کے دیگر نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ بھی تھا کہ نواز شریف کا اقتدار جاتا رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے شبخون مار کر نواز شریف کو اقتدار سے محروم کر دیا تھا۔ مگر اِسی کارگل جنگ کے دوران ، مبینہ طور پر، جنرل پرویز مشرف اور اُن کے ہمہ مقتدر ساتھیوں کی طرف سے شہباز شریف کو ایک بار پھر پاکستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی تھی ۔ شہباز شریف نے اِس بار بھی یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
نواز شریف کو اپنے برادرِ خورد، شہباز شریف، پر ہمیشہ یقینِ کامل رہا ہے کہ شہباز شریف کبھی اُنہیں دغا نہیں دیں گے۔ بہت سی آزمائشوں کے دوران شہباز شریف اِس اعتماد اور یقین پر پورا اُترے ہیں ۔ شہباز شریف کی یہ سوچی سمجھی پالیسی رہی ہے کہ ریاستی اداروں سے تصادم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان کے ساتھ مل کر ریاستِ پاکستان کی مضبوطی اور استحکام کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہی سوچ بالآخر جناب شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا گئی ہے ۔